مولانا آزاد کی نابغیت کا ایک اہم پہلو، جسے ہم بھولتے جارہے ہیں

تحریر:تانوی پٹیل

ترجمہ:نایاب حسن قاسمی

افلاطون، ارسطواور فیثاغورث جیسے عظیم الدماغ انسان ابوالکلام محی الدین، جنھیں عزت و احترام کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ ایک باوقار مجاہدِ آزادی تھے، سیاست داں تھے، صحافی تھے اور ماہر تعلیم تھے، وہ سماجی ہم آہنگی، اتحاد اور سماج کو بااختیار بنانے والی تعلیم کے پر جوش داعی و علمبردار بھی تھے۔

مولانا کی پیدایش 11؍نومبر1888ء کومکے میں ہوئی، ان کے والد ہندی الاصل تھے، جبکہ والدہ عربی النسل تھیں، جب مولانا دوسال کے تھے، تبھی ان کے اہلِ خانہ مکے سے کلکتہ(ہندوستان)منتقل ہوگئے، یہیں گھر پر ان کی تعلیم ہوئی اور ریاضیات، فلسفہ، تاریخِ عالم، سائنس اور اردو، عربی وفارسی زبانوں کا علم حاصل کیا، اپنی روایتی تعلیم کے حصول کے دوران ہی انھوں نے انگریزی زبان بھی سیکھ لی۔

نوعمری سے ہی وہ عمدہ اور معیاری تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے سرسید احمد خاں کی تعلیمات اور فکرسے متاثر تھے؛چنانچہ انگریزی سیکھنے کے ساتھ ہی انھوں نے مغربی فلسفہ، تاریخ اور معاصر عالمی سیاسیات کو پڑھنے اور ان کی تحقیق کے لیے متعدد ممالک مثلاً افغانستان، مصر، عراق، سیریااور ترکی کے اسفار بھی کیے۔ انھوں نے نسبتاً بچپن سے ہی اردو شاعری اور مذہبی و فکری موضوعات پر مضامین لکھنا شروع کردیا تھا، آزاد اُن کا قلمی نام تھا۔

زندگی کی ابتدامیں ہی تعلیم و تصنیف سے ان کی دلچسپی نے انھیں ایک مضبوط محبِ وطن بنادیا اور انھوں نے اپنے اخبار’’ الہلال‘‘ اوراس کے بعد’’ البلاغ‘‘ میں اس وقت کی برٹش حکومت کی پالیسیوں اور ناانصافیوں پر سخت تنقیدیں کیں۔ وہ گاندھی کی اہمساوادی تحریک سے بھی بہت متاثر تھے اور گاندھی کے ساتھ رولٹ ایکٹ (1919ء) کے خلاف تحریک عدمِ تعاون کو منظم کرنے میں غیر معمولی کردار اداکیاتھا۔ حکومت نے ان کے اخبار کو بند کرکے ان کی آواز پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کی، مگر وہ اپنی منتخب کردہ راہ پر گامزن رہے، انھوں نے خلافت تحریک کی قیادت کی اور 1923ء میں آل انڈیاکانگریس کے سب سے کم عمر صدر مقرر کیے گئے، بعد میں انھیں ہندوستان چھوڑو تحریک میں شرکت کی وجہ سے قید کرلیاگیا۔

آزادی سے پہلے کانگریس کے اہم رکن ہونے کی وجہ سے ملکی آئین کی تعلیمی پالیسیوں پر ہونے والے مباحثوں ؍مذاکروں کی قیادت میں ان کا غیر معمولی کردار ہوتا تھا، اسی وجہ سے آزادی کے بعد جب انھیں وزیر تعلیم مقرر کیاگیا، تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہ تھی، سیاست، تاریخ اور زبان وادب سے گہری دلچسپی رکھنے کے ساتھ قوم کی ترقی میں تعلیم کو اہم ذریعہ قراردینے والے مولانا آزاد ہندوستان کے تعلیمی نظام کی قیادت کے لیے بالکل فٹ بیٹھتے تھے۔ وزیر تعلیم ہونے کی حیثیت سے انھوں نے ملک کی  خواتین اور غریب دیہی آبادی کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔

انھوں نے اپنی وزارت کے زمانے میں پوری مضبوطی کے ساتھ اس بات کی وکالت کی کہ ہندوستان کے ہر بچے اور بچی کو 14؍سال کی عمر تک لازمی اور مفت تعلیم دی جانی چاہیے، ان کا یہ اصول آج بھی قائم ہے اور اس پر عمل ہورہاہے۔ برٹش حکومت کے دوران ہندوستانیوں کی تعلیمی شرح محض12؍فیصد تھی ؛لہذا آزادی کے بعد حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ بچوں کے ساتھ تعلیمِ بالغان کابھی انتظام کرے؛تاکہ ہندوستان کی سماجی و معاشی ترقی میں خاطر خواہ تیزی لائی جاسکے؛چنانچہ مولانا نے بچوں کی لازمی تعلیم کے ساتھ تعلیمِ بالغان کو بھی اپنے بنیادی اہداف میں شامل کیا اور ’’مرکزِ برائے تعلیم بالغاں ‘‘(Board for Adult Education)کی بنیاد رکھی۔ مولانا آزاد نے1948ء میں ایک آل انڈیاتعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا:’’ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ کم سے اتنی تعلیم ضرور حاصل کرے، جس کے بغیر وہ بحیثیت ایک شہری کے اپنی ذمے داریاں ادانہیں کرسکتا‘‘۔

ابتداء اً اس بارے میں کچھ اختلافات تھے کہ شہریوں کی تعلیم کی ذمے داری مرکزی حکومت کی ہوگی یا ریاستی حکومت کی؟مولانا کا نظریہ اس سلسلے میں یہ تھا کہ یہ ذمے داری مرکزی حکومت ہونی چاہیے؛کیوں کہ اس طرح قومی سطح پراتحاد و اتفاق کی روح برقرار رہے گی، جبکہ دوسرے کئی لیڈران کا خیال یہ تھا کہ چوں کہ ہندوستان ایک متنوع تہذیبوں والا ملک ہے؛اس لیے تعلیم کے سلسلے میں کوئی ایک نظام نافذ کرنا غیر مناسب ہوگا۔ بالآخر تمام رہنماؤں نے ایک درمیانی راہ یہ نکالی کہ شہریوں کی بنیادی اور متوسط تعلیم کی ذمے داری تو ریاستی حکومتوں پر ہوگی، البتہ اعلیٰ تعلیم کی ذمے داری مرکزی حکومت اٹھائے گی۔

مولانا آزاد نے 1945ء میں آل انڈیاکونسل برائے ٹیکنکل تعلیم (AICTE)کی بنیاد رکھی اور اپنی وزارت کے زمانے میں ساہتیہ اکادمی اور دیگر کئی تعلیمی، فنی وثقافتی ادارے قائم کیے، انہی کی قیادت میں Central Institute of Education in Delhi قائم کیا گیا(جو بعد میں دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم میں بدل گیا)جس کا مقصد نئے تعلیمی مسائل کو حل کرنا تھا، 1953ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن(UGC) اور پہلے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (IIT)کی تاسیس میں ان کاقائدانہ رول تھا۔ آئی آئی ٹیزکے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا نے بنگلور میں Indian Institute of Scienc اور دہلی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ٹکنالوجی بھی قائم کی۔ انھوں نے ایک بار فرمایاتھا:’’ان اداروں کی تاسیس سے بلاشبہ ملک میں اعلیٰ تکنیکی تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں غیر معمولی ترقی ہوگی‘‘۔ جواہر لعل نہرو کے بقول:’’(مولاناآزاد)ایک نہایت شجاع، باوقار اور اعلیٰ ترین تہذیب و ثقافت کا مظہر تھے، موجودہ دور میں ایسے لوگ نایاب ہوتے ہیں ‘‘۔ مولانا کو بعد از وفات 1992ء میں ملک کا سب سے باوقار ایوارڈ’’بھارت رتن‘‘دیاگیا۔ گوکہ مولانا کی تعلیمی خدمات کے پیشِ نظر ہی ان کے یومِ پیدایش کو’’یومِ تعلیم‘‘کے طورپر منایا جاتا ہے، مگروہ محض ایک رسم ہے، آزاد ہندوستان کے تعلیمی سسٹم کے اساس گذار کی حیثیت سے ان کے جو بے مثال کارنامے ہیں، وہ ہمارے ذہنوں سے بہ تدریج محو ہوتے جارہے ہیں، مولانا کے تئیں احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی خدمات کے اس اہم پہلو کو بھی ذہن میں رکھاجائے اور اس سے نئی نسلوں کو روشناس کرایاجائے۔

(اصل مضمون انگریزی ویب سائٹthebetterindia.comپرشائع ہواہے۔ )

تبصرے بند ہیں۔