غالب اکیڈمی کے پچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر چہار روزہ پروگرام

گزشتہ روز غالب اکیڈمی کے پچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر چہار روزہ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ موسیقی نے غزل کی روایت کو آگے بڑھایا۔ اردو کے بہت سے شاعر کلاسیکی اور نیم کلاسیکی راگوں میں اشعارکہے ہیں۔ مجروح اور حبیب جالب راگوں میں اپنی غزل گاتے تھے۔ مہمان غزل سنگر ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا کے بارے میں پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ آج کے دور میں رادھیکا  چوپڑا نے غزل گائیگی کی روایت کو زندہ رکھا۔ ان کی آواز میں پاکیزگی ہے۔ رادھیکا چوپڑا نے اس موقع پر غالب کی آٹھ غزلیں مومن اور بہادر شاہ ظفر کی ایک ایک غزل پیش کیں۔ غالب کی غزلوں کے مصرعے ملاحظہ فرمائیں،

رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے

۔ ۔ ۔ ۔

 ہرایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

۔ ۔ ۔ ۔

کوئی امید بر نہیں آتی

۔ ۔ ۔ ۔

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

۔ ۔ ۔ ۔

بکتہ چیں ہے۔ غم دل اس کو سنائے نہ بنے

۔ ۔ ۔ ۔

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی

آخر میں ڈاکٹر عقیل احمد نے رادھیکا چوپڑا اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ رادھیکا چوپڑا نے غالب کی آسان کہی جانے والی غزلوں کو موسیقی کے ساتھ بہت ڈوب کر سنایا۔ سامعین خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں اہل ذوق حضرات موجود تھے جن میں اے رحمان، صبا حنفی، نگار عظیم، ریکھا سوریہ، تسنیم فاطمہ، فاطمہ کرمانی، یوگیندراپادھیائے، راجیش شرما، ہرش نرائن، راہل شرما، ڈاکٹر آلوک گئے چند، ظہیر برنی، متین امروہوی، نسیم عباسی اشونی کمار کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔