روح شاداں بھی نہیں، شمع فروزاں بھی نہیں!

محمد علم اللہ

مرگئے پر بھی نہ فرصت مجھے یا رو دوگے؟!

ان کا داماں بھی نہیں، میرا گریباں بھی نہیں

خامہ فرسا جو ہوئی طبعِ رواں آج مری

روح شاداں بھی نہیں، شمع فروزاں بھی نہیں

*

لاکھ اغیار بے وفا نکلے

آپ کیوں اتنے کج ادا نکلے

شیخ کی لن ترانیاں دیکھو

میکدے میں وہ پارسا نکلے

ایسے خوبصورت اشعار کے خالق، ادیب، شاعر، مترجم، استاد، لکھاری مولانا ایوب اصلاحی 30 جون 2018 کوطویل علالت کے بعد اس دنیا سے چل بسے، مولانا کافی عرصے سے بیمار تھے، اس درمیان انھوں نے جس صبر اور عزیمت سے زندگی گذاری ،وہ یقیناًقابلِ تعریف اور قابلِ رشک ہے، مولانا کے جانے سے علم و ادب کا بڑا نقصان ہوا، مولانا صرف ایک اچھے استاد ہی نہیں ؛بلکہ زبان و ادب کے رمز شناس، اچھے خطیب اور بہترین قلم کار تھے، ہمیں اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ ان جیسے کاملِ فن استاذ سے استفادے کا موقع ملا، یہ الگ بات ہے کہ اتنا کچھ حاصل نہیں کر سکے ،جتنا کرنا چاہیے تھا۔

زیادہ دن نہیں گزرے ،یہی کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے،میرے دوست اور مولاناکے پوتے عمیر احمد نے بتایا کہ نانا ابا بیمار ہیں اور اعظمی اپارٹمنٹ میں ٹھیرے ہوئے ہیں، میں بھی عمیر کے ساتھ ساتھ ہو لیا، استاد محترم مولانا ایوب اصلاحی صاحب بیمار بستر پر لیٹے تھے اور ان کے ارد گرد ان کے چاہنے والوں، شاگردوں، ناتیوں، پوتوں اور عزیزیزوں کا جمگھٹ تھا، ایک طرف مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب بیٹھے تھے، تو دوسری جانب مولانا اجمل ایوب اصلاحی، بات لکھنے لکھانے کی چل رہی تھی، استاد محترم نے میری بڑی تعریف کی اور کہا تمہارے کچھ مضامین میں نے دعوت میں دیکھے، اچھا لگا، اب تو دیکھ نہیں پاتا؛ لیکن بچے تمہارے بارے میں بتاتے رہتے ہیں، مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے۔

استادسے سند ملنا شاگرد کے لیے واقعی باعث مسرت و افتخار کی بات ہوتی ہے، سو میں بھی خوش ہوا؛ لیکن مولانا نے جس انداز سے تعریف کی، اس نے مجھے شرم سار کر دیا، مجھے اپنی اوقات پتا ہے، میں نے ایسی کوئی گراں قدرخدمت انجام نہیں دی، جس کی استادمحترم تعریف کر رہے تھے؛ لیکن ان کی باتوں سے میں احساسِ ذمے داری کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا تھا، مولانا دیر تک میرے بارے میں بات کرتے رہے، میرے بچپن کی شرارتوں کا بھی تذکرہ کیا، میں محض انھیں ٹک ٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا، علم و ادب کا سنگم آج کتنا تھم گیا تھا،مولانا کی بیماری سے ہم سب کو تکلیف تھی ؛لیکن ان کی زبان پر کبھی حرفِ شکایت نہیں آیا۔

استاد کے انتقال کے بعد ان سے وابستہ بے شمار باتیں یاد آئیں، جیسے درسِ قرآن کی مجلس ہے اور مولانا انتہائی شان و شوکت کے ساتھ درس دے رہے ہیں، مولانا کے پڑھانے کا انداز بالکل نرالا تھا، قرآن کی تفسیر کے دوران تفسیر کبیر،تفسیر طبری، کشاف ،ابن کثیر،فی ظلال القرآن وغیرہ سے حوالے دیتے اور ان پر نقد کرکے زبان و ادب کی باریکیاں بتاتے،ان کا ادبی ذوق بہت ستھرا اور پاکیزہ تھا،زبان کوثر وتسنیم میں دھلی ہوتی، بلا مبالغہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے وقت کے آزاد اور شبلی تھے، ان کی ترجمانی کے اندازسے لگتا، جیسے قرآ ن مجید اردو زبان میں نازل ہو رہا ہے، جچے تلے، ڈھلے ڈھلائے جملے اس انداز سے ادا ہوتے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی،اب ہم ایسے لوگوں کوکہاں سے لائیں گے!

ہمیں مولانا کے دروس میں شریک ہونا اچھا لگتا تھا، درجے میں علامہ شبلی، حمید الدین فراہی، اختر احسن اصلاحی اور دیگر اساتذۂ فن کے واقعات بھی سناتے اور اس کے ذریعے طلبہ کے درمیان کتابوں اور علم و ادب کے مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرتے، ان کی اسی علم دوستی اور قابلیت کی وجہ سے اصلاح کے سینئر اساتذہ بھی گنجلک اور مغلق نکتوں تک رسائی کے لیے ان سے رابطہ کرتے اور وہ انھیں چٹکیوں میں حل کر دیتے، لائبریری اور اسٹاف روم میں اکثر اساتذہ بھی مولانا سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آ تے۔

مولانا کی ایک اور ادا نرالی تھی ،وہ یہ کہ وہ پڑھاتے وقت موضوع کے مشمولات کو اشاروں و کنایوں کیساتھ اپنے مخصوص انداز میں بیان ادا کرتے،اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ بات ذہن میں راسخ ہو جاتی، ایک مرتبہ درجے میں غالب کا ایک شعر سنایا:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو

اس شعر کو انھوں نے اس انداز سنایا کہ یاد ہو گیا، وہ اکثر درس کے دوران ایسے اشعار اور با محاورہ جملے بیان کرتے کہ جی چاہتا بس سنتے رہیں، بہت سے طلبہ ان کو نوٹ کرنے کا باضابطہ اہتمام بھی کرتے؛ لیکن نقل سے زیادہ سمجھنے پر مولانا زور دیتے ، کبھی کبھی اساتذہ کی کتابیں منگوا کر کچھ حصے پڑھ کر بھی سناتے تھے ،جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ۔

مجھے یاد پڑتا ہے جب ابتدائی جماعت میں تھا ،تو مولانا کی بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں؛لیکن اساتذہ اور سینئر طلبہ کی ان کی تقریروں اور خطبوں کے لیے بھاگم بھاگ ہمیں بھی ان کی جانب کشاں کشاں جانے پر مجبور کر دیتی ، کچھ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود ان کے دروس اور محفل میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا، مارنے پیٹنے کا تصور ان کے یہاں نہیں تھا ؛اس لیے بھی شاید ہی کسی طالب علم نے کبھی ان کی کلاس ناغہ کی ہو، وہ تو بعد کے دنوں میں جب ادب کس چیز کو کہتے ہیں ، سے کچھ آشنائی ہوئی تو ہم اپنی میعاد پوری کر چکے تھے،ان کے درس میں ہم بہت ساری چیزوں سے واقف ہو جاتے تھے،بات بات میں وہ اردو اور عربی اشعار سے استشہاد پیش کرتے اور نئی پرانی کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دیتے۔

لکھنے پڑھنے والوں کی مولانا ہمیشہ ہمت افزائی کرتے ، مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں عربی کی ابتدائی جماعتوں میں تھا، تو ایک گروپ کے ساتھ ایکشن ترانہ پیش کیا تھا، مولانا سے جب کبھی ملاقات ہوئی اس ایکشن ترانے کا ذکر ضرور کرتے،دہلی میں جب ملاقات کے لیے گیا، توتو بڑے پر لطف انداز میں اس کا تذکرہ کیا، دسیوں سال گذر گئے؛ لیکن مولانا اسے بھولے نہیں تھے،مجھے یاد پڑتا ہے جب میں نے وہ ترانہ پیش کیا تھا، تو مولانا نے بہت پسند کیا تھا اور بعد میں بھی کئی مرتبہ اس ایکشن ترانے کو مع ایکشن سننے اور دیکھنے کی فرمایش کی تھی اور ایک مرتبہ نہیں بار بار میری تعریف اور ہمت افزائی کی۔

جلسوں میں مولانا کے صدارتی اور کلیدی خطبات دل کو چھو لینے والے ہوتے تھے، وہ محفل اوررنگِ محفل سے خوب واقف ہوتے ؛اس لیے بیچ بیچ میں بذلہ سنجی اور پرمزاح جملوں کے ساتھ علمی و ادبی واقعات سے سامعین کے دلوں کومسخر کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے، وہ کوئی پیشہ ور خطیب یا مقرر نہیں تھے؛ لیکن ان کی باتیں آب زر سے لکھے جانے کے قابل تھیں، درجے میں نواسہ ہونے کے ناطے نظر التفات عمیر کی جانب زیادہ ہوتی تھی، کئی لڑکے طنزاً اس کا اظہار بھی کر دیتے تھے؛ لیکن مولانا سنی ان سنی کر جاتے۔

ایک مرتبہ دہلی میں جب میں ان سے ملاقات کے لیے گیا، تو ان کی کتاب ’’متاع قلم‘‘کا دوسرا ایڈیشن چھپ کر آ چکا تھا، مولانا کے صاحبزادے ابو طلحہ اصلاحی نے جب مجھے کتاب عنایت کی ،تو میں نے استاد محترم سے آٹو گراف اور دستخط کی گذارش کی، وہ زیر لب مسکرائے اور عمیر کو بیڈ موڑنے کے لیے کہا، ہاتھ میں لرزہ کے سبب قلم چلنے سے قاصر تھا؛ لیکن عمیر نے سہارا دیا اور انھوں نے کتاب پر’’ عزیزم محمد علم اللہ کے لیے‘‘ اپنے ہاتھوں سے رقم کیا اور تھرتھراتی ہوئی انگلیوں سے اپنے دستخط ثبت کیے،یہ وہی دست وانگشت تھے،جن سے مدت ہاے دراز تک علم و ادب کی پرورش ہوتی رہی ؛لیکن آج ان پر لرزہ طاری تھا، ان سب کے بارے سوچ کردل لرزاٹھا۔

میں نے واپسی کے لیے اجازت چاہی، لوٹتے وقت انھوں نے مجھ سے کتاب پر تبصرہ کے لیے کہا، میں بھی اہتمام سے اس پر کچھ لکھنے کے بارے میں سوچتے ہوئے واپس لوٹا، گھر پہنچتے ہی الٹ پلٹ کر دیکھا، کچھ مضامین پڑھے ہوئے تھے، کچھ نئے تھے ؛لیکن جرعہ جرعہ پینے کے شوق اور فرصت سے پڑھنے کی تمنا نے اس کتاب کے ساتھ بھی وہی حشر کیا، جو دیگر کتابوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہ بھی کتابوں کے انبار میں کہیں دب گئی اور استاد کی ایک ادنیٰ خواہش بھی میں پوری نہیں کر سکا، جس کا مجھے یقیناًملال رہے گا۔

آج میں نے دوبارہ وہ کتاب تلاش کر کے نکالی ہے، تقریبا 462 صفحات پر مشتمل مولانا کا یہ کل تحریری سرمایہ ہے، جس میں ان کے تقریبا سبھی مضامین، نظمیں، غزلیں، انشائیے، مقالات، تراجم اور خطبات شامل ہیں، اگر دیکھا جائے ،تو نثر میں پطرس بخاری اور شاعری میں غالب نے بہت کم لکھا؛ لیکن جو کچھ لکھا ،وہ انھیں معتبر بنانے کے لیے کافی ہے، مولانا کا جتنا اچھا قلم تھا اور زبان و بیان پر وہ جس انداز سے قدرت رکھتے تھے، اس حساب سے انھوں نے بھی بہت کم تحریری سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا؛ لیکن جو کچھ بھی چھوڑا ہے، وہ ان کی معتبریت کے لیے کافی ہے، آئیے ان کی کتاب سے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کچھ چیزیں ملاحظہ فرماتے ہیں:

تعلیم کے حوالے سے ایک جگہ گفتگو کرتے ہوئے کتاب میں مولانا لکھتے ہیں:’’محض ڈگریوں کی ہوس استخوان بے نغز کی طلب کے مترادف ہے‘‘۔ (ص 328)۔ دہشت گردی کے حوالے سے ایک اداریے میں فرماتے ہیں :’’دہشت گردی کا حل صبر، ذہانت، صالحیت اور عدل و حق پسندی سے تلاش کیا جانا چاہیے، مفاد پرستی، غصہ اور تشدد سے مسائل حل نہیں ہوتے ‘‘۔(283)۔قوم کو بیدار کرتے ہوئے ایک جگہ گویا ہیں:’’ وہ قوم جو خواب نہیں دیکھتی،جو آرزوؤں اور تمناوں سے سرشار نہیں ہوتی، وہ مستقبل کی کامرانیوں اور عظمتوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتی‘‘۔ (234) اعتدال کی ترغیب دیتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :’’زندگی کا حسن و کمال اس کے اعتدال میں ہے، فکر و خیال اور عادات و اعمال میں توازن ہونا چاہیے، اسلام تمام تر توازن اور اعتدال کا نام ہے‘‘(253)۔ ایک جگہ قائد کو ترغیب دیتے ہوئے اسے ذمہ داریوں کا احساس یوں دلاتے ہیں: ’’ تاریخ عجلت باز کا ساتھ نہیں دیتی،ہر مہم زبردست ہوم ورک چاہتی ہے، خاموش عمل اور دیر تک، اس طرح زیر عمل منصوبہ اپنی تکمیل تک انتھک محنت، صبر و استقلال، جاں بازی و سر فروشی کا طلب گار رہتا ہے، میر کارواں کا خلوص، سیرت و بصیرت، عدل و شجاعت منزل تک پہنچنے کے شرائط و لوازم میں ہیں‘‘۔ (340)

خیال رہے میں نے یہ اقتباسات کسی منصوبہ بند مطالعے کی بنیادپر اخذ نہیں کیے؛ بلکہ یوں ہی کچھ صفحات پلٹے اور نقل کردیے ہیں، ورنہ پوری کتاب میں ایسے علمی و ادبی نکات اور شہ پارے بکھرے پڑے ہیں ،جو حرزِ جاں بنانے کے لائق ہیں۔اخیر میں استاذ محترم کے حق میں مغفرت اورحضور باری میں بلندیِ درجات کی دعائیں ہیں،آمین!

تبصرے بند ہیں۔