شوال کے چھ روزوں کی فضیلت

عبدالباری شفیق السلفی

 ’’عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ  رضى الله عنه أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ :مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘۔(صحیح مسلم :کتاب الصیام : باب اسْتِحْبَابِ صَوْمِ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ اتِّبَاعًا لِرَمَضَانَ:( 2815)

ترجمہ:  ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ(نفلی ) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے (سال بھر) کے روزے رکھنے کے مانند ہے۔

تشریح : دین اسلام ایک آفاقی اور آسان دین ہے، اس نے کلمہ توحید کے اقرار کے بعد بندہ مومن پر صلاۃ، زکوٰۃ، صوم رمضان اور حج بیت اللہ کو فرض قرار دیاہے، جس کی ادائیگی ہر مسلمان عاقل وبالغ، صحت مند ومقیم اور صاحب استطاعت پر لازم وضروری ہے جس کا انکار کرنے والا کافر اور دائر اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔

اسلام کے چوتھے رکن صوم رمضان کی ادائیگی کے بعد ایک مومن اور مسلمان کے لئے سنت، مستحب اور افضل ہے کہ اللہ کی رضا وتقرب اور نفس واخلاق کی اصلاح وتزکیہ کے لئے شوال کے چھ روزوں کا اہتمام کرے، جسے خود نبی اکرم ﷺ رکھتے اور اپنے اصحاب وازواج مطہرات کو بھی رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ اس کی عظمت وفضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺ کایہ فرمان کہ :’’ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی ) روزوں کا اہتمام کرےگا تواسے پورے زمانے یاپورے سال کے روزہ رکھنے کے برابر ثواب ملے گا ‘‘کافی ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺنے اپنی امت کوواضح الفاظ میں اس بات کی بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال المکرم کے چھ روزوہ رکھنے والا انسان اس قدر اجر وثواب کا حق دار ہوتاہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے۔

 یعنی ’’ الحسن بعشرامثالھا‘‘ ( ایک نیکی کا اجر کم ازکم دس گناہے ) کے مطابق ایک مہینے (رمضان ) کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیئے جائیں جنہیں عرف عام میں شش عیدی روزے بھی کہاجاتاہے۔ تو یہ دو مہینے کے برابر ہوگئے۔ اس طرح بارہ مہینوں (۳۶۰دن ) کے روزوں کا مستحق ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ بندے نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا رمضان کے بعد ہر سال کا یہ معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے روزوں کی طرح شوال کے چھ روزوں کا بھی اہتمام کرتارہے تو گویا اس نے پوری زندگی روزے کی حالت میں گذاری، ایسا بندہ اپنے پروردگار کے یہاں ہمیشہ روزہ رکھنے والا شمار کیاجائےگا۔

شوال کے یہ چھ روزے شوال کے مہینے میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن شرط یہ کہ شوال کے مہینہ ہی میں رکھے جائیں، متواتر بھی ناغہ کرکے بھی، اس لیے کہ احادیث میں ان چھ روزوں کومسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہِ شوال میں عید الفطر کے بعدکبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح جن کے رمضان کے فرض روزے کسی عذر کی بنا پر چھوٹ گئے ہیں ان کے لئے افضل ہے کہ وہ پہلے اپنے ان چھوٹے ہوئے روزوں کی تکمیل کریں اس کے بعد شوال کے نفلی روزوں کا اہتمام کریں، کیونکہ وہ فرض ہیں اور یہ نفل ومستحب۔

لیکن افسوس کہ مذکورہ دلائل وبراہین کے باوجود آج کے اس پرفتن وپرآشوب دور میں بعض حضرات شوال کے ان چھ روزں کواپنی کم علمی، کٹ جہتی، ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنا پر فقہ کی بعض عبارات کے حوالہ سے اسے مکروہ کہتے ہیں، جب کہ مذکورہ دلیل ’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ‘‘ کی رو سے ان کا یہ قول باطل اور مردود ہے، نیزاحادیث نبویہ، صحابہ، تابعین وسلف صالحین، ائمہ مجتہدین، فقہائے کرام اور علمائے امت کی تعلیمات کی روشنی میں راجح اور درست بات یہ ہے کہ یکم شوال یعنی عید الفطر کے بعد ماہِ شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ نہیں بلکہ افضل ومستحب اور سنت نبویہ ہیں۔ لیکن بعض کتابوں میں امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی طرف ان روزوں کے مکروہ ہونے کی جو نسبت کی گئی ہے وہ نسبت علی الاطلاق نہیں کی گئی ہے، بلکہ بعض مخصوص شرائط کے ساتھ وہ مقید ہے، اس لیے کہ ان حضرات نے شوال کے ان چھ روزوں کو مطلقا مکروہ نہیں قراردیاہے، بلکہ بعض خاص صورتوں میں مکروہ کہاہے۔ مثلا یہ روزے اس صورت میں مکروہ اور ممنوع ہیں جب کوئی شخص عید کے دن بھی روزہ رکھے (جب کہ یہ بات متحقق ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے) یاپھر یہ کہ ان روزوں کو رمضان کا حصہ اور رمضان کی طرح ضروری سمجھے، کیونکہ ایسی صورتوں میں اسلامی احکام میں فساد اور خرابی لازم آنے کا اندیشہ باقی رہتاہے۔ اس لیے اس قسم کی صورتوں میں شوال کے ان چھ روزوں کو مقید کرکے مکروہ کہاگیاہے اور مطلق طور پر مکروہ نہیں کہاگیاہے۔ اس لیے نبی کے فرامین، صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کے اسوہ ونمونہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ شوال کے نفلی چھ روزوں کی بہت اہمیت وفضیلت ہے، جس کا اہتمام خود نبی کریم ﷺ اور صحابہ وسلف صالحین کیاکرتے تھے۔ لہذا ہمیں بھی اخلاص وللہیت کے ساتھ رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزہ رکھنےکااہتمام کرناچاہیئے اسی طرح رمضان وشوال کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی نفلی روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کے ساتھ شش عیدی روزے، ایام بیض اور سوموار وجمعرات کے روزے رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین  !

تبصرے بند ہیں۔