سادگی و علمی پختگی کے پیکر مولانا زبیر قاسمی 

غلام مصطفی عدیل قاسمی

گزشتہ سال کی طرح سال دو ہزار انیس بھی اپنے ساتھ خوشی و غم لے کر نمودار ہوا، لیکن اب تک غموں کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے بایں طور کے چند روز کے اندر اندر کئی بڑی علمی و ادبی شخصیات کی رحلت نے قلب و جگر کو مغموم کر رکھا ہے، انہیں قد آور شخصیات میں ملک کی عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی صاحب (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد و مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی) تھے جو ہم سے بچھڑ کر جوارِ رحمت میں جگہ پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اسے بدقسمتی کا نام دیجئے یا پھر لاابالی پن کا کہ ان کی مدت حیات میں حضرت کی زیارت سے محروم رہا اور آج کل کے ٹال مٹول کی وجہ سے محروم ہو ہی گیا، لیکن کہتے ہیں نا کہ خدا کے محبوب و برگزیدہ بندوں کی محبتیں انسانوں کے دلوں میں القا کر دی جاتی ہیں، جس کی بنا پر کبھی کبھی بن دیکھے ہی صرف دوسروں سے سن کر انکی عقیدتیں قلوب میں جا گزیں ہو جاتی ہیں، اللہ کے ان ہی مقبول بندوں کی فہرست میں فقیہ الملت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی نور اللہ مرقدہ کا شمار ہوتا تھا، جو گمنام علاقے میں رہ کر بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں کو اپنی جانب مائل کئے ہوئے تھے، کچھ یہی حال اپنے دل کا بھی رہا لیکن آرزو اب آرزو ہی رہ گئی ۔۔۔! یقیناً اسے تائید غیبی ہی کہیں گے کہ لوگ بن دیکھے ہی عقیدت و محبت کے بازو بچھائے ہوتے تھے، مولانا مرحوم جہاں سادگی میں نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر اپنی الگ پہچان رکھتے تھے، تو وہیں تواضع اور انکساری میں بھی اپنی الگ شناخت رکھتے تھے، حضرت مولانا زبیر علیہ الرحمہ؛ حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی قائم کردہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے امین تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مشاہیر  علماء ان کی  علمی پختگی عملی استقامت اور تقوی و طہارت سے لبریز زندگی کی مثال دیتے تھے، کسی فقہی سیمینار میں محض آپ کی موجودگی ہی سمینار کے قدر کو بڑھا دیتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا مرحوم اپنا موقف مضبوط اور مدلل انداز میں نہایت بے باکی سے رکھتے تھے جو آپ کی جلالت علمی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔

یقینا ان کی شکل میں ملت اسلامیہ کو ایک گوہر نایاب حاصل تھا جو اب ہم سے واپس لے لیا گیا، ان کے اچانک پردہ فرما جانے سے قوم و ملت کا جو خسارہ ہوا ہے مستقبل قریب میں اس کی بھرپائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اور مشکل بھی کیسے نہ ہو کہ ایک ایسے دور میں جبکہ کالج و یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ بھی اپنے پروموشن کو لیکر ہیڈ آفس کا چکر لگاتے نہیں چوکتے، ایسے دور میں حضرت مرحوم شیخ الحدیث کا عہدہ چھوڑ کر ایک گمنام اور غیر آباد بستی کو اپنا مسکن بنانا اور وہاں سے دین کی خدمات انجام دے کر بدعات و رسومات کا قلع قمع کرنا، اور اس مہم کامیاب بھی ہوجانا، یہ حضرت والا کے اخلاص و للہیت کا ہی نمونہ ہے اور آپ ہی کے بس کا کام تھا، دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد کے قدیم ترین اساتذہ آج بھی ان دنوں کی کارگزاری سنا کر اساتذہ و طلبہ کی ذہن سازی کرتے ہیں کہ دین کی خدمت صرف بڑے عہدوں پر رہ کر ہی انجام نہیں دی جا سکتی بلکہ جب مقصد و نیت محض دینی خدمت کی ہو تو چھوٹے عہدوں پر رہ کر بھی رضائے الٰہی کو حاصل کیا جا سکتا ہے، کہتے ہیں کہ جب مدرسہ اشرف العلوم کنہواں جانے کا مرحلہ آیا تو مولانا نے بڑے علماء سے مشورہ کیا ایک دو کے علاوہ سارے اساتذہ نے یہی کہا کہ حضرت آپ یہاں شیخ الحدیث ہیں اور آپ اس کے تقاضے کو نبھانے میں کامیاب بھی ہیں اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ آپ نہ جائیں اور یہی رہیں، تو اس پر اس مرد خدا نے رضائے الٰہی کے حصول کی تئیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والا جواب دے کر ان کی یاد تازہ کر دی اور اپنے قول و عمل سے ثابت کیا کہ جو ڈٹ گئے ۔۔۔۔۔۔۔مجھے ان صفوں میں تلاش کر ۔۔۔!

یقیناً کہاں انیسویں صدی کا چار ہزار پلس شیخ الحدیث کا عہدہ جلیلہ اور کہاں مدرسہ اشرف العلوم کا پندرہ سو اور چہارم عربی کا درس ۔۔!! لیکن اللہ والوں کی نگاہیں کہیں اور ہوتی ہیں ان کا ٹارگٹ رضائے الٰہی اور خوشنودی خالق ہوا کرتا ہے، انہیں ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ان عہدوں سے کوئی سروکار ہوتا ہے، وہ تو زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ

عمل کے اپنے اساس کیا ہیں

بجز ندامت کے پاس کیا ہے 

رہے سلامت تمہاری نسبت 

ہمارا تو بس آسرا یہی ہے 

تو ان اللہ والوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ بس ہم سے ہمارا پروردگار خوش ہو جائے۔

آج مولانا زبیر ہم میں نہیں رہے لیکن دنیا بھر میں پھیلے ان کے شاگرد دینی خدمات انجام دے کر اپنے مشفق مربی استاذ کا اقبال بلند کر رہے ہیں، یہ مولانا زبیر علیہ الرحمہ کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضرت مرحوم کے کارناموں اور انکی خدمات کے پہلوؤں کو مشعل راہ بنائیں اور اپنے اندر ان جیسا اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ پاک حضرت کو اپنی شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے، مولانا مرحوم کے فرزند محترم ظفر صدیقی قاسمی و اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور دعا گو ہو کہ باری تعالٰی ہم تمام متوسلین و معتقدین کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)

تبصرے بند ہیں۔