گٹھ بندھن کی سیاست اور مسلمان 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

لمبے عرصہ کے بعد بھارت کے عوام نے 2014 میں اکثریتی حکومت کو منتخب کیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اتحادی سرکاریں،  اپنے ساتھیوں کی ناراضگی کے ڈر سے عوام کی بھلائی اور ملک کے حق میں کوئی سخت قدم نہیں اٹھا پاتیں۔ اس بات کو 2014 کے الیکشن میں مجبور سرکار کے طور پر مشتہر کیا گیا۔ اس کے جواب میں عوام نے بھاجپا کو اتنی بڑی اکثریت کے ساتھ منتخب کیا جس کی خود بی جے پی کو بھی امید نہیں تھی۔  سیاسی تبصرہ نگاروں کا ماننا تھا کہ ملک نے اب گٹھ بندھن  کی سیاست کو نا منظور کر دیا ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے بعد ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں پہ در پہ بی جے پی کو ملی کامیابی نے اس قول کو اور تقویت پہنچائی۔ لیکن بہار میں مہا گٹھ بندھن نے بھاجپا کا وجے رتھ روک کر پیغام دیا کہ اتحادی سیاست کے ذریعہ ہی مخالف ہواؤں کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ کانگریس نے گجرات میں جگنیش میوانی اور الپیش ٹھاکر کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا، تو مودی شاہ کو خود اپنے گھر میں پارٹی کی ساکھ بچانے میں پسینے آگئے۔ اگر کانگریس نے وہاں این سی پی اور بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کیا ہوتا تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ وجہ تھی اکثریتی حکومت سے عوام کی مایوسی۔

 عام انتخابات کا رسمی اعلان ابھی ہوا نہیں ہے، لیکن دہلی کے اقتدار کے لئے سیاسی جماعتوں نے اپنی بساط بچھانا شروع کردیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں قریب 25 برس تک دشمن رہی بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی نے38 -38 سیٹوں پر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اتحاد میں کانگریس شامل نہیں ہے۔ اس بارے میں مایاوتی کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کا کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا سود مند نہیں رہا ہے۔ وہ اپنے ووٹوں کو ٹرانسفر نہیں کر پاتی۔ اس کا تجربہ 2017 میں ہو چکا ہے۔  جب کانگریس نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا تھا۔ سماج وادی پارٹی 21.8 فیصد ووٹ لے کر 47 اور کانگریس 6.3 فیصد ووٹوں کے ساتھ 7 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔ جبکہ بی ایس پی 22.2 فیصد ووٹ لے کر بھی 19 سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ در اصل کانگریس جب ایس پی، بی ایس پی جیسی پارٹیوں کے ساتھ جاتی ہے تو اس کا اپنا ووٹ بنک بی جے پی کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایس پی، بی ایس پی سماجی و پسماندہ طبقوں کے سروکار کی سیاست کرتی ہیں جبکہ کانگریس اور بی جے پی ماحول بنا کر الیکشن جیتی ہیں۔ بی جے پی اتر پردیش کو قومی انتخابی لہر کا حصہ بنانے کی، جبکہ بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی آنے والے الیکشن کو زمینی اور صوبائی مسائل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے ہندو مسلم ووٹوں کے پولرا ئزیشن میں بھی کمی آئے گی۔ کانگریس قومی اپوزیشن پارٹی کے طور پر اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

 اتر پردیش میں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی کا اتحاد دونوں کے حق میں ہے۔ دونوں کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے دونوں کی قوت میں اضافہ کرے گی۔ 2017 کے اسمبلی الیکشن میں مایاوتی نے دلت مسلم کا جو کارڈ کھیلا تھا اس میں ناکامی کی وجہ مسلم ووٹوں کا تقسیم ہونا تھا۔ دوسرے دلت ‘ہندو ایکا’ کے نام پر بھاجپا کے ساتھ چلے گئے تھے۔ لیکن دلتوں کے خلاف کئی ریاستوں میں ہوئے تشدد کے واقعات نے انہیں احساس کرادیا کہ بی جے پی ان کے لئے فطری پارٹی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر مایاوتی دلت ووٹوں کو نہیں روک پاتی ہیں تو ان کی دعویداری کمزور ہو جائے گی۔ البتہ اکھلیش یادو کے لئے یوگی سرکار کی ناکامیوں اور مایاوتی کے مرکز کی سیاست میں سرگرم ہونے کے چلتے 2022 کا راستہ صاف ہو جائے گا۔

کلکتہ میں ممتا بنرجی نے عظیم ریلی کر اپوزیشن کے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ تو بہار کے مہا گٹھ بندھن کے کنبے میں اضافہ ہوا ہے۔ نتیش کمار کے این ڈی اے سے ناطہ توڑنے کے بعد بھاجپا نے ان کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اوپیندر کشواہا کو اپنے ساتھ جوڑا تھا۔ نتیش کمار کی گھر واپسی کے بعد بی جے پی کو کشواہا کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی کے بعد انہیں نظر انداز کیا جانے لگا۔ ان کی منھ مانگی چار لوک سبھا کی سیٹیں دینے کو بھی وہ تیار نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے مہا گٹھ بندھن کا دامن تھام لیا۔ کبھی سیاست میں نظریات کو اہمیت حاصل تھی۔ لیکن اقتدار کی چاہ اور چمک نے نظریہ کی مطابقت کو دھندلا کر دیا۔ شروع میں موٹے طور پر تین سیاسی وچار دھاریں پائی جاتی تھیں۔ پہلی بیچ کی راہ والی کانگریس، سماج وادی بھی اس کے آس پاس ہی رہے۔ دوسرے بائیں بازو والے اور تیسری رائٹسٹ۔ لیکن اب نظریاتی سیاست گم ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر مرکز میں کانگریس کی حکومت ہوتی ہے تو اقتدار کی چاہ رکھنے والے غیر کانگریس واد کا نعرہ لگا کر گول بند ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں قابض ہونے پر سیکولرزم کے نام پر گول بندی کی جاتی ہے۔ پارٹیوں کا اتحاد بھی اسی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ پہلے کے اتحادوں میں لیفٹ کا رول اہم ہوتا تھا جبکہ اب وہ الگ تھلگ ہے۔ غیر کانگریس واد کے دور میں مشترکہ متبادل پالیسیوں کی بات کی جاتی تھی لیکن غیر بی جے پی واد کے نام پر محض مودی کی مخالفت کی بات سننے کو مل رہی ہے۔ ابھی تک اپوزیشن نہ کوئی ایجنڈہ دے سکا ہے، نہ سیٹوں پر کوئی تال میل کی بات ہو رہی ہے اور نہ یہ صاف ہو پا رہا ہے کہ اس اتحاد میں کانگریس کی حیثیت کیا ہوگی۔ خیر ابھی وقت باقی ہے شاید ان سوالوں کا جواب مل جائے۔

آیئے لوٹ کر یو پی کی طرف چلتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ اسی ریاست سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہاں بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی کے گٹھ بندھن کی بنیاد دلت، مسلم، یادو اور انتہائی پسماندہ طبقوں کے ووٹوں پر ٹکی ہے۔ مایاوتی نے 2017 میں بھی دلت مسلم کا کارڈ کھیلا تھا۔ ان کا منصوبہ تھا کہ 23 فیصد دلت اور 18 فیصد مسلمان ساتھ آ جائیں تو 41 فیصد ووٹ کے ذریعہ ان کی سرکار کا بننا طے تھا۔ لیکن ہندو ایکتا کے نام پر دلت ووٹ بھاجپا کے ساتھ چلے گئے  اور مسلم ووٹ دو حصوں میں بٹ گئے۔ اتر پردیش میں 24 لوک سبھا کی سیٹیں مسلم اکثریت والی مانی جاتی ہیں۔ جن میں بریلی، بدایوں،  پیلی بھیت، رامپور، سنبھل، امروہہ، میرٹھ، مظفر نگر، سہارنپور، بجنور، مرادآباد، اعظم گڑھ، بہرائچ، گونڈہ، سراوستی، بنارس، ڈمریا گنج اور بل رامپور قابل ذکر ہیں۔ لیکن ایک بھی مسلمان اس ریاست سے پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں کر سکا۔

بہار میں بھی مہا گٹھ بندھن یادو، مسلم اور پسماندہ ذاتوں پر ٹکا ہے۔ مسلمان تین طلاق، رام مندر، گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کے چلتے بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ اس بات سے سبھی سیاسی جماعتیں واقف ہیں۔ یوپی میں بی ایس پی اور سماجوادی نے آپس میں الجھنے کے بجائے آدھی آدھی سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا قیاس ہے کہ اس اتحاد کی وجہ سے 16 مسلمان کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کی شطرنج پر مہرے کس طرح بٹھائے جاتے ہیں۔ البتہ ایس پی، بی ایس پی سے ٹکٹ نہ پانے والے بی جے پی اور کانگریس کا رخ کر سکتے ہیں۔ دونوں ہی پارٹیوں کے لئے اپنے باغیوں پر قابو پانا بڑا چیلنج ہوگا۔ ساتھ ہی کچھ مسلم ووٹ کانگریس کو بھی مل سکتے ہیں۔ کانگریس کے الگ چناؤ لڑنے سے کئی سیٹوں پر تکونہ مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی بنیاد پر فیصلہ تو لے رہی ہیں لیکن ان فیصلوں میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ اتحادی سیاست میں دو تین سیٹیں جیتنے والوں کو بلا کر بات کی جا رہی ہے لیکن مسلمان جو پورے ملک میں ساٹھ سیٹیں بغیر کسی کی مدد کے جیتنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں پونچھ رہا۔ اس کی وجہ ہے ان کے بیچ سیاسی سمجھ اور تنظیم کی کمی۔ وقت آگیا ہے جب مسلمانوں کو انصاف کی بنیاد پر بھوک اور ڈر کے خلاف متبادل سیاست کے نظریہ کو فروغ دینا ہوگا۔ فیصلہ ذی ہوش مسلمانوں کو ریاستی سطح لینا چاہئے کہ اس کام کو سیاسی جماعت بنا کر کیا جائے یا پریشر گروپ کی شکل میں۔ جو بھی ہو اس میں تمام محروم طبقات کو شامل کرنا چاہئے انہیں انصاف اور ان کا حق دلانے کے لئے۔ اگر کوئی جماعت مسلم، دلت، پسماندہ اور قبائلیوں کی آواز بنتی ہے تو اس سے نئی طرح کی سیاست کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس کی آج ملک کو ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. حسنین اشرف ایڈووکیٹ کہتے ہیں

    بہت اعلیٰ۔ ماشاءاللہ

تبصرے بند ہیں۔