سلطان ٹیپو کی یوم ولادت پر ایک اہم تحریر

توضرورت ہےقوم کوپھرسےایک ٹیپو کی

  مھدی حسن عینی قاسمی

تاریخ نے ہر دور میں کچھ ایسے جاں باز، جاں نثار،باوفا،باہمت،شیردل،پہاڑ جذبہ انسانوں کواپنےکوکھ سے جنم دیاہے،جن کی بہادری و شجاعت،ہمت وبسالت،پامردی و جواں مردی  کی کہانیاں ہردور کی مائیں اپنےبچوں کوسناکر تخیلاتی طور پراپنے بچوں کوان جیسا دیکھنے کاخواب دیکھتی رہی ہیں،اس فہرست کےافق پردرخشندہ وتابندہ آفتاب کےمانند عمرفاروق خالد بن ولیدچمکتے نظر آتے ہیں،توطارق بن زیاد،محمدبن قاسم،صلاح الدین ایوبی اس زمرہ میں مانندکواکب و نجوم ہیں، چلتے
چلتےاسی صف میں ایک ایسا مردخدابھی نظرآتاہے،
جو اٹوٹ ہندوستان کانجات دہندہ ہی نہیں دکن کےمسلمانوں کے عروج کاستارہ سمجھاجاتا تھا،تاریخ نے اپنے صفحات پراس عظیم المرتبت سپہ سالار کو فتح محمد سلطان بہادر بن حیدر علی کے نام سےسمویا ہے،20 نومبر 1750 کوشیر دکن حیدر علی کےگھر پیدا ہونے والے سلطان محمد ٹیپو نےبہادری و پامردی کے میدان میں ایسے کارنامہائے نمایاں انجام دیئے ہیں،
جو عدیم النظیر ہی نہیں لائق تقلید ہیں،سلطنت خدادادپرجس وقت انگریزی لٹیروں کے ناپاک سائے پڑنے لگےتھے،مملکت پوری طرح غیر محفوظ ہوچکی تھی،ادھرشیرحیدر ہندحیدر علی بسترمرگ پرتھے،اٹھارویں صدی اپنا نصف سفرطےکرچکی تھی،مغلیہ حکومت کی کمزوری اور مغل شہزادوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سےبرصغیر پر مسلمانوں کا سینکڑوں سالہ دور اقتدار تیزی سے زوال کی جانب گامزن تھا،مرکزی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے کئی مقامی ریاستوں نے خود مختاری کا اعلان کردیا تھا،دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارندے تجارت کی آڑ میں برصغیرپربرطانوی قبضےکی راہ ہموار کرنےمیں مشغول تھے،تیسری جانب مسلمانوں کےاندرکچھ ایسےکردارپرورش پارہےتھے جن کےنام تاریخ میں ایک بدنما داغ کی طرح مندرج ہونے والے تھے،غرض یہ کہ سلطنت اسلامی کی ناؤہرطرف سے طوفانوں میں گری ہوئی تھی،بیرونی طوفانوں سےناؤ مسلسل ڈگمگارہی تھی، جب کہ اندرونی دشمن ناؤ کےتختے اکھاڑنے میں مشغول تھے،ملت اسلامیہ کسی ناخدا کی راہ تک رہی تھی،جو اس کی ناؤ کو خطرات سے باہر نکالنے کی جرات کرسکے،ہر آنکھ اشک بار اور ہر ہاتھ دست بدعا تھا،ہر طرف مایوسی کا
گھٹا ٹوپ اندھیر چھایا ہوا تھا،بالآخر مسلمانوں کی دعائیں رنگ لے آئیں اور نواب سراج الدولہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے امیدن کی کرن بن کرابھرے اور کئی سال تک  مختلف محاذوں پر انگریزوں کو ناکوں چنا چپواتے رہے، مگر غداری میں ضرب المثل بننے والےمیر جعفر کی غداری کی وجہ سے جنگ پلاسی میں شکست کے بعد بڑی بے دردی سے 1757ء میں شہید کردیے گئے،نواب کی شہادت کے بعد مسلمانان برصغیر ایک بار پھر مایوسی کے دلدل میں دھنس گئے،ان کی حسرتوں کو حقیقت کا لباس پہنانے والا شخص خورد بین میں بھی نظر نہیں آرہا تھا،کئی سو سال برصغیر پہ حکمرانی کرنے والےمسلمان آہستہ آہستہ سر چھپانے کے آشیانے سے بھی محروم ہورہے تھے، اپنے آشیانے کی حفاظت کے لیے وہ کسی مسیحا کےمنتظر تھے،دوسری جانب انگریزوں کو اپنا راستہ بالکل صاف نظر آرہا تھا،اس دوران مختلف مسلمان حکمران جومختلف ریاستوں کےوالی تھےاپنی حیثیت کےمطابق انگریزوں،
مرہٹوں اورمقامی ہندؤوں کے خلاف برسر پیکار رہے،مگر ہر طرف سےشکست وناکامی کاسامنا تھا،انگریز فوج بدمست ہاتھیوں کی طرح ہرطرف مسلمانوں کو کچلتے جارہی تھی،ظالم خم ٹھونک کر میدان میں آچکا تھا، جب کہ مظلوموں  کی آہوں اورسسکیوں سے فضا مغموم تھی، امیدوں کےتمام سہارے گاہے بگاہےدم توڑ رہے تھے،ملت اسلامیہ کی ناؤ
خطرناک طوفان میں گرچکی تھی،ایک جھٹکےکی دیر تھی کہ 6 سوسال برصغیر کے سمندر پرراج کرنے والی ناؤ سمندر کی گہرائی میں گم ہوجاتی،مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا،اس پرآشوب دور میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی صفوں سے میں ایک ایسا جرنیل پیدا فرمایا جس نے اپنی حکمت عملی اور شجاعت کی وجہ سے وہ داستاں رقم کردی کہ آج ہر مسلمان اس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے،27 دسمبر 1782ء کو جب سلطان ٹیپو شہید(سلطان فتح علی خان) نے سلطنت خدادا کا اقتدار سنھبالا تو مسلمانوں کے مردہ اجسام میں ایک نئی قوت بیدار ہوئی، انگریز نے مرہٹوں اور ہندئووں سے ساز باز کرکے مسلمانوں پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے تھے، اپنی کم سنی سے مختلف محاذوں پر داد شجاعت دینے والے سلطان ٹیپو نے جب اقتدار سنبھالا مسلمانوں نے ایک بار پھر ہر محاذ پر انگریزوں کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا، ٹیپو شہید نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیرملکی تسلط سےآزاد کرنے کیلیے سنجیدہ وعملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیے، صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا،برطانوی سامراج کے آگے بند باندھنے کے لیے ٹیپو سلطان نے ترکی، ایران، افغانستان اور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر بوجوہ کا میاب نہ ہوسکے، سلطان کی بے مثل شجاعت اور کارنامے قلم بند کرنے لیے لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں،اور یہاں ان کو بیان کرنا ناممکن ہے، تاہم سلطان کی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ جنگ میسور ہے جس کے 4  میں سے 3 معرکوں میں سلطان کی فوج غالب رہی،مگر چوتھے معرکے میں معروف غدار ملت میر صادق کی غداری کی وجہ سےسلطان کی فوج مکمل طور پر دشمن کے محاصرے میں آگئی، اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے،اسی صوررت حال میں سلطان جب بری طرح کفار کے نرغے میں پھنس گئے تو سلطان کے ایک خادم نے آکر عرض کی کہ حضور اپنی جان بچانے کے لیے خود کو انگریز کے حوالےکردیں تو اچھا ہے،یہ سن کر سلطان جلال میں آئے اور وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو آج کل ہندوستانیوں کے ہاں زبان زد عام تو ہےمگر اس پہ عمل کرنے والے آٹے میں نمک کےبرابر بهی نہیں
"میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” اس کے بعد شدید زخمی ہونے کے باوصف بے جگری سے لڑتے رہے اور 4 مئی 1799ء کو برصغیر کے مسلمانوں کا یہ محافظ اپنوں کی غداری کے نتیجے میں اس دار فانی سے کوچ کرگیا،اس وقت سےمسلمان مسلسل تنزلی کے دلدل مین دھنستے گئے جس کا نتیجہ بعد میں 1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کی صورت میں نکلا،اور انگریز جنرل ہارس کا وہ نعرہ سچ ثابت ہوا جو اس نے سلطان کی لاش کے قریب کھڑاہوکر لگایا تھا کہ ” آج سے ہندوستان ہمارا ہے” شاعر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929 میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایاٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور
آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا،آج ملت اسلامیہ کی ناؤ ایک بار پھر کفر،الحاد اور دیگر دشمنوں کے شکنجے میں ہے اور آج کے میر جعفر اور میرصادق اندر سےاسے کھوکھلا کرنے میں مگن ہیں،ملت اسلامیہ ھندیہ ہرچہارجانب سےخطرات وحالات میں گھری ہوئی ہے،مسلمان ہاہاکارکاشکارہیں،ملک تباہی کی جانب تیزی سےبڑھ رہاہے،کثرت میں وحدت کامزاج ختم ہورہاہے،مسلم قوم بغیر کپتان کےاحباب و اغیار سے جھوجھ رہی ہے،سفید فاموں سےچھٹکارا پاکرسیاہ فاموں کے ہاتھ مسلم قوم غلام بن گئی ہے،نوجوانوں کوبیجا گرفتارکرکےٹارچر کیاجارہاہے،قوم کےکریم پاور کو بری طرح زدوکوب کرکے انہیں مفلوج کیاجارہاہے،قوم مسلم کو ایک مخلص،دردمند مسیحا،ایک بااعتمادلیڈر،ایک ہنگامی قوت ارادی اورایک فیصلہ کن قائد کی تلاش ہے،جواس کی ڈوبتی ہوئی نیا کوپارلگاسکے.شاید قوم کوطارق بن زیاد،
محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی جیسا
امیراورحیدروٹیپوجیسااقدامی سپہ سالار ہی چاہئے جو منجھدھاروبھنور میں پھنسی ہماری کشتی کوخودساختہ مصلحتوں کےجال سےنکال کر خود اعتمادی اور خود حفاظتی کےاوصاف سے ہمکنار کرائے،
آج اس عظیم ہندوستانی جرنیل کی یوم ولادت کے موقعہ پر ہم صرف اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ
ضرورت ہے قوم کو پھر سے ایک ٹیپو کی.

تبصرے بند ہیں۔