سید مودودی کا اصل کارنامہ اور ان کے مخالفین

آصف علی

(یہ سطورپڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ مسلم طبقات میں اتحاد و اتفاق اور محبت و ہم آہنگی کی بجائے افتراق اور نفرت ہی کو فروغ دینا بہت بڑا دینی فریضہ ہے اور حفاظت اسلام کے نام پر یہ گندا کام جاری رہنا چاہیے تو ہم صرف ان کے لیے دعا کرسکتے ہیں۔ ان کے کسی پہاڑ نما اعتراض کا جواب دینا ہمارے بس کا کام نہیں)

سید مودودی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امت کا قرآن و سنت سے ٹوٹا ہوا تعلق عین اس دور میں جوڑنے کا فیصلہ کیا جب پوری دنیا میں مذہب کو دنیا کی سب سے بڑی برائی، سب سے بڑا عیب اور ناکامی و بربادی کا سب سے بڑا ذریعہ کہا اور سمجھا جارہا تھا۔

1857کی جنگ آزادی میں بدترین شکست دینے کے بعد انگریزوں نے اپنے سخت ترین عتاب اور غیظ و غضب کا شکار, علماحضرات کو بنایا۔ مسلمانوں میں مدرسہ ہی کے لوگ (سرسید وان کےرفقا)یہ یقین بٹھانے میں ساری توانائیاں صرف کرنے لگ گئے کہ اب اگر دنیا میں زندہ رہنا ہے تو مغرب کی طاقت اور اس کی تہذیب کے آگے ہتھیار ڈال دو۔ پھر خلافت کےٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں سید مودودی، مسلمانوں کا قرآن و سنت سے ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ جوڑنے کے لیے میدان میں نکلے۔ انہوں نے مغرب، اس کے فکر، اس کی تہذیب اور اس کی اقدار پر سخت ترین تنقیدیں کیں، مغرب کی بالادستی کے نظریہ کے تاروپود بکھیر کررکھ دیے اور مسلمانوں کا قرآن اور سنت پر ٹوٹا ہوا اعتماد ایک بار پھربحال کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر رکھ دیا۔

سید مودودی نے کہا اور پورے یقین، پورے اعتماد اور پورے دلائل سے کہا کہ صرف عبادات کی نہیں، صرف اخلاقیات ہی کی نہیں، صرف رسومات ہی کی نہیں بلکہ معیشت، معاشرت اور سیاست کی تعمیر اور اٹھان قرآن و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے اورمسلمانوں کے لیے دنیا میں عزت اور آخرت میں کامیابی کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔

سید مودودی نے خود 100 کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں لکھی ہیں، ان کتابوں کے کئی درجن زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں، خود ان پر اور ان کے فکر پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، پی ایچ ڈی کے مقالے ضبط تحریر میں آئے ہیں۔ سید مودودی کی تحریروں میں تشدد کے راستے پر جانے کا کوئی اشارہ ملتا ہے اور نہ ان پر کسی تحقیق کرنے والے نے یہ بات ان کے فکر و عمل سے اخذ کی ہے۔ خود جہاد پر سید مودودی کی شاہ کار کتاب٫٫ الجہاد فی الاسلام ،،کی نظیر گذشتہ صدی میں نہیں ملتی، یہ وہ کتاب ہے جس کی علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر جیسے اکابرین نے تعریف کی اور اس موضوع پر سید مودودی کی فکر بھی کھل کر سامنے آئی۔ اپنے فکر و فلسفے کی بنیاد پر سید مودودی نے ایک جماعت  کی تشکیل کی, جو لکھے دستور اور ضابطے پر چلتی ہے اور اس کے دستور اور لٹریچر میں یہ بات صراحت کےساتھ موجود ہے کہ وہ نہ کسی زیر زمین سرگرمی پر یقین رکھتی ہے اور نہ اس کے ذریعے آنے والے کسی انقلاب پر-سید مودودی کا ایک شاہ کار جملہ اسی تناظر میں ہے کہ:

رات کی تاریکی میں آنے والا انقلاب رات کی تاریکی میں ہی واپس ہو جاتا ہے۔ پائیدار اور مستقل انقلاب عوام الناس کے ذہنوں کی تبدیلی اور ان کی حمایت سے آتا ہے اور تطہیر و تعمیر افکار وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر چلتے ہوئے انقلاب اور تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جسے سید مودودی نے اختیار کیا اور جس پر گزشتہ پون صدی سے زائدعرصہ سےجماعت اسلامی چل رہی ہے۔
جماعت اسلامی اور سید مودودی بھی ایوب خان کے دور میں ریاستی پابندی کا شکار ہوئے، جماعت اسلامی پر نہ صرف پابندی لگائی گئی بلکہ سید مودودی سمیت تمام مرکزی ، صوبائی اور ضلعی قیادت کو ان کی شوری’ سمیت گرفتار کر لیا گیا، اثاثہ جات ضبط کر لیے گئے اور دفاتر پر تالہ بندی کر دی گئی مگر سید مودودی نے اپنے فکری مخالفین کے برعکس اور اپنے فکر کے عین مطابق طرز عمل اختیار کیا اور تشدد کے راستے پر جانے کی بجائے پورے مشرقی و مغربی پاکستان میں اس کی مزاحمت میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، ایجنٹی کیا انھوں نے کسی بیرونی عنصر کو مدد کےلیے پکارا نہ عالمی قوتوں یا اداروں کو اس کی دہائی دی بلکہ پرامن طریقے سے عدالت میں جنگ لڑی اور سپریم کورٹ کے ذریعے جماعت بحال ہوئی۔ یہ مثال سیکولر عناصر کیا خود معاصر اسلامی تحریکیں بھی پیش نہیں کر سکتیں۔

ہر بڑے انسان کی طرح سید مودودی سے بھی ایک دو نہیں متعدد غلطیاں ہوئی ہونگی۔ اور ہماری ایماندارانہ رائے ہے کہ واقعی سید مودودی سے غلطیاں ہوئیں۔ بس فرق یہ ہے کہ دین و مذہب کا روایتی طبقہ اسے اپنی جلالت و شان کے خلاف سمجھ بیٹھا کہ روایتی طبقہ کی بجائے ایک عام سا نوجوان ایسی شاندار اور جاندار گھن گرج کے ساتھ خدمت اسلام کا مدعی ہو۔ اپنوں کا شہتیر بھی تل بن جاتا ہے اور پرائے کا تل بھی شہتیر۔ چنانچہ سید مودودی کو جب ایک بار پرایا سمجھ لیا گیا تو ان کی غلطیاں شہتیر ہی نہیں بلکہ پہاڑ بن گئیں، جس کے خلاف کلہاڑیاں، ہتھوڑے اور بلڈوزر لے کر ہمارا روایت پسند مذہبی طبقہ نکل کھڑا ہوا اور گزشتہ 85 سالوں سے غلطیوں کے اس "پہاڑ” کو گرانا سب سے بڑا جہاد سمجھ کر اس میں دن رات لگا ہوا ہے۔ لیکن افسوس!

ان 85 برسوں میں یہ "پہاڑ” ریزہ ریزہ ہونے کی بجائے پہلے سے بھی بڑا ہوتا جارہا ہے۔ روایتی طبقہ کے برچھے، ہتھوڑے، کلہاڑیاں اور بلڈوزر ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ چھن چھنا چھن دن رات چل رہے ہیں اور ایک خودساختہ "پہاڑ” کو گرانے میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف سید مودودی کا لگایا ہوا پودا جماعت اسلامی کی شکل میں پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان ، حتی کہ افغانستان تک میں حزب اسلامی کے عنوان سے ایک تناور درخت بن گیا۔ ان کی تحریروں نے پوری دنیا کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ہلا کر رکھ دیا اور جاہلیت جدیدہ کی بدترین غلاظت کا پول ان پر کھول کر رکھ دیا۔

سید مودودی کے لگائے ہوئے اس شجر سایہ دار کی حقانیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اہل مدرسہ و خانقاہ سید مودودی کو بدترین دشمن اسلام کے روپ میں پیش کرتے ہیں تو سید مودودی کا جاری کیا ہوا "ترجمان القرآن” مدرسہ و علما کی حمایت اور ان کی وکالت کا دم بھرتا ہے۔ مدرسہ اور اس کے علما،سید مودودی اور اس کے پیروکاروں کے خلاف شدید نفرت اور بغض پھیلاتے ہیں تو سید مودودی کی طرف سے جاری کیے جانے والے رسالے ترجمان القرآن کے صفحات، ان کی قائم کی ہوئی جماعت اور ان کے مرکزی امرا  دین و مذہب کی روایات کے امین بن کر میدان میں آکھڑے ہوتے ہیں اور مدرسہ و علماکی حمایت کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔

ایک طرف روایت پرست طبقہ ہے جن کے بڑے سے بڑے قائدین سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے رسالہ اور معمولی سے معمولی فاضل مولوی صاحبان بھی سید مودودی کے خلاف نفرت اور بغض پھیلانا عین دین کی خدمت سمجھتے ہیں تو دوسری طرف سید مودودی رحمہ اللہ کا حلقہ ہے، ان کی جماعت ہے، ان کا مرکزی رسالہ ترجمان القرآن ہے جو اس بغض ، اس نفرت اور اس عداوت پر سیخ پا ہونے کی بجائے الٹا محبت اور حلم کا عنوان بن جاتا ہے۔ روایت پسند طبقہ جن اسلامی روایات کے مٹنے کا شورڈال کراور اسے آڑ بنا کر سید مودودی اور ان کی جماعت کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے، سید مودودی کا یہ قافلہ انہی روایات کا امین، وفادار اور محافظ بن کر میدان میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ سلام ہو سید مودودی پر اور سلام ہو اس کے قافلہ پر۔

سید مودودی کا منہج کسی فرقہ، کسی متعصب گروہ اور کسی متکبر لیڈر کا نام نہیں بلکہ یہ قرآن و سنت سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرنے، ایمان، عبادت، معیشت، معاشرت اور سیاست کو قرآن و سنت کی روشنی میں استوار کرنے اور مسلمانوں میں افتراق کی بجائے اتحاد و اتفاق کا عنوان ہے۔ سید مودودی باطل کے آگے جھکنے کا نہیں بلکہ باطل کو حق کے آگے جھکانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے کا نام ہے۔ سید مودودی مغربی تہذیب کی اندھی نقالی کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ اسلامی روایات و اخلاق کے تواترکے تحفظ و احیاء کے لیے ڈٹ جانے اور مغربی تہذیب کی باطل بنیادوں کو نیست و نابود کردینے کا نام ہے۔ اور آخری بات یہ کہ سید مودودی کا منہج غلطیوں پر اصرار کا نہیں بلکہ غلطیوں کا احتساب اور ان پر توبہ کرنے کا نام ہے.

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مولانا مودودی کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے مختلف پہلوﺅں پر جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے لکھا اور اسلام کے ایک ایک پہلو اور رخ پر بہترین انداز میں مطمئن اور مغربی تہذیب و نظریہ سے بیزار کردیا ۔ مولانا کا ٹارگٹ ریڈر مدرسے کا فارغ التحصیل کبھی نہیں رہے بلکہ ہمیشہ جدید تعلیم یافتہ لوگ رہے۔آج مجھےاحادیث رسول پر اور سنت کے اسلام کا مصدر ہونے پر جویقین اور اعتماد ہے وہ سنت کی آئینی حیثیت اور رسائل و مسائل میں متعلقہ سوالات کے جوابات پڑھ کر ہے۔ الحمدللہ مولانا کو پڑھ کر آج کوئی جاوید غامدی ‘ کوئی پرویز ‘ کوئی وحید الدین خان مجھ پر احادیث اور کتب احادیث پر اعتماد سے نہیں ہلا سکتا ۔ میں پوچھتا ہوں کہ مدارس سے فارغ التحصیل علماءاور لوگ مجھے دکھائیں وہ کتب جو جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام پر مطمئن کرنے والی اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت کو ختم کردینے والی ہوں۔ میں نےہندوستان و پاکستان کے ماضی اور حال کے بہت سے علماءکو پڑھا ہے کوئی بھی جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے اذہان و نفسیات کے مطابق اس سے نصف درجے میں بھی لکھنے والا نہیں جیسے مولانا مودودی تھے۔جن موضوعات پر مولانامودودی نے قلم اٹھایا میں نے جس کو بھی پڑھا ان سے کمتر ہی پایا

تبصرے بند ہیں۔