لکھنے کا فن

تحریر:ساجدالعبدلی، ترجمہ:نایاب حسن

  میں گزشتہ دسیوں سال سے قلم و قرطاس کی دنیا سے وابستہ ہوں ، اس دوران میں نے ان گنت موضوعات و عناوین پر مختلف ذہنی ونفسیاتی کیفیات و احوال میں ہزارہا مضامین تحریر کیے ہیں، انھیں لکھنے کے دوران کبھی میں حالت ِمسرت میں تھا، کبھی غمگین، کبھی غصے میں ، کبھی پرسکون، کبھی پر امید، تو کبھی مایوس و ناامیدی کی کیفیت سے دوچار، ان میں سے بہت سی تحریریں بہت اچھی تھیں ، جبکہ کچھ اتنی اچھی نہیں تھیں ، ان میں سے کچھ مضامین خودمجھے بہت اچھے لگے اور اب بھی لگتے ہیں ، جبکہ اپنے ہی کچھ مضامین مجھے تب بھی اتنے اچھے نہیں لگے اور اب بھی نہیں لگتے۔ البتہ اس تمام مدت کے دوران کبھی مجھے ایسا نہیں لگا کہ دن بھر میں کوئی ایسا وقت بھی ہے، جب میں اپنے آپ کو لکھنے سے عاجز محسوس کرتا ہوں ، مگر اب ایسا لگتا ہے، یہ صحیح ہے کہ میں نے اپنے صحافتی سفر کے دوران کئی بار مختلف وجوہ کی بناپر لکھنے سے ہاتھ اٹھایا؛لیکن ایسا کبھی بھی اس احساس کی وجہ سے نہیں ہوا کہ میں کوئی اچھی چیز لکھ نہیں سکتا، جیسا کہ اب مجھے محسوس ہوتا ہے۔

بعض لوگ سوچتے ہیں (خود میں ایک زمانے تک سوچتا تھا)کہ لکھنے کے لیے محض ذہن میں ایک”فکر“یا ”خیال“کی آمد کافی ہے؛لیکن اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ انسان کو لکھنے کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، صرف ذہن میں خیال اور فکر کی آمدکسی موضوع پر لکھنے کے لیے کافی نہیں ؛بلکہ میں تو ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ایک مشاق لکھاری کثرتِ نگارش اور قلم کارانہ مہارت کی وجہ سے اپنے اردگرد کی بہت سی معمولی چیزوں میں بھی لکھنے کے لیے موضوع یا فکر و خیال پالیتا ہے، جیسا کہ بڑوں نے کہاہے کہ افکار و خیالات تو سرِ راہ پڑے ہوتے ہیں ، ضرورت تو نظر کی باریکی اور اخاذطبیعت کی ہے، مگربسااوقات ایک صاحبِ قلم کے ارد گرد بہت سے افکاراور موضوعاتِ تحریر بکھرے ہوتے ہیں ، مگر ان کی حیثیت محض ایک خام مواد کی ہوتی ہے، جو معنی خیز شکل کے اختیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ الگ بات ہے کہ ایک کہنہ مشق قلم کار انہی افکار سے مضامینِ نوکے انبار لگاسکتا ہے؛لیکن یہ مضامین محض ”خامہ فرسائی“، ہر قسم کے فنی امتیازاور تخلیقیت کے جمال و کشش سے خالی ہوں گے، بالکل ایسے ہی جیسے کہ ڈبے میں بندپکاپکایا کھاناکہ اس میں وہ ذائقہ قطعاً نہیں ہوسکتا، جو ایک ماہر باورچی کے ہاتھ سے بنے ہوئے تازہ کھانے میں ہوگا۔

     پس ایک قلم کار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ داخلی جوش (ایسی ذہنی ونفسیاتی کیفیت جو ایک قلم کار کو لکھنے کے لیے انگیخت کرے)سے بھی بہرہ مند ہو؛تاکہ وہ اسے کسی (سادہ یا مشکل)فکر وخیال سے ہم آہنگ کرکے ایسا فن پارہ وجود میں لاسکے، جو اس کے اپنے اسلوب، سوچ اور ذات کی نمایندگی کرتا ہویابالفاظِ دگر جو اس کی اپنی کاغذی تصویر ہو، کسی لکھاری کے اندر ایسا داخلی جوش تبھی پایاجاتا ہے، جب وہ ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت سے بہرہ مندہو، البتہ اس کیفیت کی کوئی متعین صورت نہیں ہوتی؛بلکہ کبھی یہ خوشی، کبھی رنج، کبھی امیدورجا تو کبھی ناامیدی و مایوسی کی حالت میں بھی پائی جاسکتی ہے۔

    لہذا کم از کم میرے نزدیک ایک اچھامضمون تبھی لکھاجاسکتاہے، جب ایک شخص کے دماغ میں کسی موضوع سے متعلق فکر و خیال کے ساتھ لکھنے پر ابھارنے والی ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت بھی پائی جائے؛تاکہ وہ کوئی قابلِ مطالعہ اور اچھی تحریر لکھ سکے؛کیوں کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک لکھاری کے ذہن میں کوئی بہت عمدہ خیال آتا اور محو ہوجاتا ہے، گویا وہ کسی دیوار سے ٹکراکر لوٹ گیا ہو، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس وقت وہ شخص ایسی مناسب نفسیاتی کیفیت میں نہیں ہوتا کہ وہ اس فکر کوواقعی اپنے اندر محسوس کرے اور پھر اسے تحریر/مضمون کی شکل میں ڈھال سکے۔

     یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاکسی لکھاری کے لیے مناسب ہے کہ وہ ایک (زیادہ یا کم)مدت تک اس لیے لکھنے سے پرہیز کرے کہ وہ اپنے ذہن میں موجودافکار کو تحریر کا جامہ پہنانے کے لیے اپنے آپ کو نفسیاتی طورپر آمادہ نہیں پاتایا اسے جیسے تیسے انداز میں ہی سہی، لکھتے رہنا چاہیے؛تاکہ کم ازکم وہ اپنے قارئین کے درمیان موجود تورہے؟میرے خیال میں اس سوال کا کوئی ایک متفق علیہ جواب نہیں ہوسکتا، البتہ میں ذاتی طورپر ایسی صورتِ حال میں اُس وقت تک لکھنے سے احتراز کروں گا، جب تک کہ اپنے اندر ایسی محرکانہ کیفیت نہ محسوس کروں ، جو مجھے میرے من کے مطابق مضامین لکھنے میں معاون ثابت ہو۔

تبصرے بند ہیں۔