مولانا سید واضح رشید ندوی کے افکار و نظریات

 محمد عبد اللہ بن شمیم ندوی

البعث الاسلامی کی مختصر تاریخ

ندوۃ العلماء سے پہلا عربی رسالہ علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ تقی الدین ہلالی کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا، ’’الضیاء‘‘ نامی یہ رسالہ ۱۹۳۱ تا ۱۹۳۵ تک چار سال کی مدت میں بند ہو گیا ۔اس کے بعد مولا نا محمد الحسنی رحمہ اللہ کی عربی انجمن ’’ا لمنتدی العربی‘‘ کے تحت اکتوبر ۱۹۵۵ میں ’’البعث الاسلامی ‘‘ نکلنا شروع ہوا ۔اس کے مدیر مولا نا محمد الحسنی رحمہ اللہ اور رئیس التحریر،مولانا اجتبا ء الحسن ندوی اور مولا نا سعید الرحمان الاعظمی تھے۔۱۹۷۹ میں مولانا محمد الحسنی کے انتقال کے بعد مولا سید محمد واضح رشید ندوی کو اس کا رئیس التحریر بنا یا گیا ۔یہ رسالہ اپنے ۶۴ سال پورے کر چکا ہے اور اب تک اس کی ۶۴ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔

صور و اوضاع کی ابتداء

البعث الاسلامی میں بہت سے علمی ،فکری،تربیتی،ور اصلاحی کالموں کے ساتھ ایک کالم ’’ العالم الاسلامی ‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا کرتا تھا جس میں عالم اسلام کے حالات کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لیا جاتا تھا ،اس میں ہندو بیرون ہند اور عالم اسلام کے جید علماء و مفکرین کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ آگے چل کر اس کے ضمن میں ’’صور و اوضاع‘‘ نام کے ایک کالم کا اور اضافہ کیا گیا اس کا لم کی ذمہ داری مدیر مجلہ مولا نا محمد الحسنی نے خود اپنے ذمہ لی،وہ اس میں حمیت ایمانی اور جذبہ جہاد کو مہمیز لگانے والی تحریریں لکھتے اور عالم اسلام کے حالات کے بارے میں مسلمانوں کو بیدار کرتے ۔۱۹۷۹ میں ان کے انتقال کے بعد اس کالم کی ذمہ داری آپ کے چھوٹے بھائی مولا نا محمد واضح رشید ندوی کے سپرد کی گئی۔مولانا ۱۹۷۳ میں ہی آل انڈیا ریڈیو کے عربی شعبے کو خیر باد کہہ کر ندوہ تشریف لائے تھے۔ مولا نا نے اس کالم کی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا ۔آپ نے ’’صور و اوضاع‘‘ کی شکل میں امت مسلمہ کو ایسی قیمتی،اور وقیع تحریریں پیش کیں جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے جزبۂ ایمانی کو بیداری کا سامان فراہم کرتی رہیں گی ۔ اس کالم کے تحت کالم کے تحت مولا نا نے ۳۸ سال تک مضامین لکھے۔آپ کا پہلا مضمون اپریل ۱۹۸۰ میں ’’ظاہرۃ العصر الجدیدۃ‘‘ کے عنوان سے اورآخری مضمون اسی ماہ فروری ۲۰۱۹ میں ’’مسؤلیۃ الدعاۃ والمصلحین لاصلاح ا لاوضاع الفاسدۃ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔
مولانا کی تحریروں کی خصوصیات اور ان کا موضوع
آپ عربی کے بڑے صحافی اور ماہر ادیب تھے آپ کی تحریر میں زیادہ تر صحافتی اسلوب میں ہوا کرتی تھیں ، کہیں کہیں آپ ادیبانہ انداز بھی اپناتے تھے اور کبھی خطیبانہ اسلوب میں بھی تحریریں لکھا کرتے تھے لیکن کیوں کہ ’’ صور و اوضاع‘‘ میں مختلف احوال اور بدلتے حالات کی خبریں دینی ہوتی تھیں اس لیے اخباری زبان زیادہ استعمال کی جاتی تھی، آپ کی تحریروں میں علمی و فکری وزن ہوتا ، آپ صلیبی و استعماری قوتوں کی رگ رگ سے واقف تھے،۔آپ مسلمانوں کو ان کی ریشہ دوانیوں سے ہوشیار کراتے رہتے، آپ کی تحریریں جودت فکری کی آئینہ ہوتی تھیں، عالم اسلام کے حالات اور تاریخ پر اچھی نظر تھی اس لیے ان کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے اور ایک مکمل تجزیہ پیش کرتے ۔

مولانا مفکر اسلام تھے، آپ کے علم و فکر اور ثقافت کا سرچشمہ قرآن و حدیث تھا، وہ عصر حاضر کے نبض شناس اور ماہر طبیب تھے، نہایت وسیع النظر اور مزاج نبوی کے علمبردار تھے، مسلمانوں کو اب کیا کرنا ہے، اسلامی تہذیب و تمدن کا بیڑا کیوں غرق ہوا اور اب عظمت رفتہ کی باز آفرینی کیسے ممکن ہے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں کیا فرق ہے، الغزو الفکری کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے، مولانا کی تحریروں کا یہی موضوع ہوا کرتا تھا۔ کسی ادیب یا صحافی کی تحریر میں من جملہ اتنی خصوصیات ملنا مشکل ہے جو خصوصیات مولانا کی تحریروں میں پائی جاتی تھیں، مولانا کی تحریروں میں غوروخوض کے بعد ۱۵ بڑی خصوصیات کا علم ہوا، جو اختصار کے ساتھ بیان کی جارہی ہیں۔

مولانا کی تحریر ’’صور و اوضاع‘‘ کی خصوصیات

۱۔ ایمان میں اضافہ:یہ تحریریں ایمان میں اضافہ اور اسلام کی حقانیت پر اطمینان قلب کا باعث ہوتیں۔

۲۔ تعلق بالقرآن ۔مولانا کی تحریروں کو پڑھ کر قرآن کریم سے تعلق مضبوط ہوتا، مولانا حالات کے تناظر میں قرآنی آیات کو اس انداز میں پیش کرتے گویا یہ آیت اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے، مولانا قرآن کی روشنی میں مسائل کو حل کیا کرتے جس سے قرآن کے ہر زمانہ میں ہادی و رہنما اور زندہ وجاوید ہونے پر یقین کامل نصیب ہوتا۔

۳۔ دشمنان اسلام کی سازشوں سے واقفیت ہوتی

۴۔ احوال عالم سے واقفیت ہوتی ،خصوصاعالم عرب ، عالم اسلام اور ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات جن پر میڈیا پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے مولانا ان کو بیان کرتے اور حقائق سے پردہ اٹھاتے۔

۵۔ عالمی سیاست سے دل چسپی: صورو اوضاع کی ان تحریروں کو پڑھنے والا عالمی سیاست سے دل چسپی لینے لگتا۔ اس کی سیاسی بصیرت تیز ہوجاتی اور خصوصا عالم اسلام کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا۔

۶۔ پلاننگ، منصوبہ بندی: صور و اضاع کی تحریریں قاری کو منصوبہ بندی کرنے اور مستقبل کی پلاننگ میں مدد کرتیں، مولانا ہر تحریر میں حالات کی مناسبت سے مسلمانوں کے لیے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل بیان کرتے۔

۷۔ تاریخ اسلام سے واقفیت ہوتی۔

۸۔ مولا نا کی ہر تحریر معلومات میں اضافہ کرتی

۹۔ مختصر اور جامع تحریریں: مولانا کے جملے جوامع الکلم ہوتے، آپ مضمون کو طول دینے کے سخت خلاف تھے، اچھے صحافی تھے اس لیے آپ کے مضامین ۳ سے ۵ صفحات سے زیادہ نہیں ہوتے، اتنے کم صفحات میں بھی آپ عالم اسلام کے مختلف حالات پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈال کر ان کا تجزیہ بھی کرلیتے اور لائحہ عمل بھی بتا دیتے۔

۱۰۔ ٓپکی تحریریں غیر جانبدارانہ تجزیہ نگارَ ی کی مثال ہوتیں۔

۱۱۔ اسلامی صحافت کے بہترین نمونہ: مولانا ایک ماہر اسلامیات صحافی تھے، آپ نے صحافت کو اسلامی رنگ دیا، آپ غیر جانب دار ہوکر صرف حقائق کو بیان کرتے اور ایک ایماندار صحافی کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دیتے۔

۱۲ مرعوبیت کا ازالہ کرکے خود اعتمادی پیدا کرنے والی تحریریں ہوتیں۔

۱۳۔ ابتدائیہ نہایت منظم ہوتا، اختتام نہایت عمدہ ہوتا۔

۱۴۔ بہترین ادبی نمونے، اورنئی نئی اصطلاحات مولا نا کی ان تحریروں کا خاصہ تھیں۔

۱۵۔دلکش انداز بیان، اور بااثر تحریریں ہوا کرتیں۔

۱۶۔ دلچسپ عناوین: مولانا عناوین نہایت دل چسپ اور جاذب نظر ہوتے، عنوان ایسا دل کش ہوتا کہ مضمون پڑھنے کا دل چاہتا اور مضمون پڑھ کر اندازہ ہوتا کہ مولانا نے کس مہارت سے اس مختصر عنوان میں پورے مضمون کو سمو دیا ہے، مثلا مولانا اس طرح کے عناوین قائم کرتے۔ بین الجد واللعب۔۔ جمود اعداء الجمود۔۔ من فقد رشدہ فلایرتدع الابالعقاب،۔ والذی خبث لایحرج الانکدا۔۔ متی حین ساعۃ الاحتساب۔،۔خبث بعد خبث ۔ ؑ عداوۃ ،ہل لھا نہایۃ۔

مولا نا کی تحریروں کے موضوعات

مولانا ایک ہی تحریر میں مختلف موضوعات سے بحث کیا کرتے ، مولانا کی تحریروں میں جو موضوعات زیر بحث رہتے وہ یہ ہیں، تعلق مع اللہ، اخلاص نیت،اعمال صالحہ کا شوق ۔ تحریکات اسلامیہ کا تجزیہ، منصوبہ بندی، مغرب کی سازشیں، مستشرقین کے جوابات، مغرب اور اسلامی نظام تعلیم و تربیت کا تجزیہ، مغربی افکار ، مسلم حکمرانوں کو نصیحت، حقیقت کا ادراک، ملی مسائل، عالمی سیاست، ہندوستان کے مسلمان، مدارس اسلامیہ، دعوت الی اللہ کی اہمیت و ضرورت، پیام انسانیت، وطنیت اور قومیت کا فتنہ، اسلامی معاشرے کی خصوصیات، مغربی معاشرے کی خامیاں،توکل علی اللہ۔

مولا ناکےافکار و نظریات

مولانا نے ّّ صور و وضاعٗٗ  کے تحت جتنی تحریریں لکھیں ہیں ،تقریبا سب سے ہی استفادہ کیا گیا ہے ،اور اس کے بعد مولا نا کے افکار و نظریات کے تحت رائے قائم کر کے اقتباسات نقل کئے گئے ہیں۔

ہماری دعوت کیاہے؟

ہر انسان کی فکر اور اس کا نظریہ اس کی دعوت ہوتی ہے، وہ کس طرف لارہا ہے کس چیز کو پیش کر رہا ہے، اس سے اس کے مقاصد کی تعین کرنا آسان ہوجاتا ہے، مولانا کے افکار ونظریات خالص اسلامی تھے آپ کی تحریر وں کا محور دعوت الی اللہ اور مسلمانوں کی نشأت ثانیہ کے لیے جدوجہد تھا آپ مولانا علی میاں کی ایک تحریر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ہم اسلام کامل کی دعوت دیتے ہیں جو ہر صاحب حق کو اس کا حق دیتا ہے، جو عقلوں کو منور کرتا ہے، دلوں میں دبی چنگاریوں کو بھڑکا تاہے، اخلاق مہذب کرتا ہے، دلوں کو منور کرتا ہے، امتوں کو منضبط کرتا ہے، رجال کو پروان چڑھاتا ہے، قائدین وزعماء کی تربیت کرتا ہے، وہ سیاست بھی سکھاتا ہے اور سیادت بھی، وہ نہ تو ایک دم خشک و سخت ہے اور نہ ہی بالکل نرم تر، وہ نہ تو ترک دنیا کی دعوت دے کر راہب بناتاہے اور نہ ہی عیش و عشرت میں مست کرکے مادیت پرست بناتا ہے، یہ تو وہ دین ہے جسے محمدﷺ لے کر آئے ہیں، یہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا اور صحابہ کرام نے اسے عملی شکل میں پیش کیا، صدیاں اس کی خیروبرکت اور منفعت پر گواہ ہیں ۔ (البعث الاسلامی،مئی ۱۹۸۸)

اسلام کو عملی طورپر پیش کیجئے

مولانا زبانی جمع خرچ کے بجائے عمل کی طرف توجہ دلاتے ہیں، کیوں کہ کیرکٹر جتنا مضبوط ہوگا دعوت بھی اتنی ہی بااثر ہوگی مولانافرماتے ہیں ’’نبی اکرم ﷺ کا منہج اور اسلامی دعوت کے سلسلہ میں یہ طریقہ کار رہاہے کہ اسلام کو اس کی عملی شکل میں پیش کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کو ایک سچی اور مؤثر مثال بناکرپیش کیا جائے، اسلامی معاشرے میں امن وسلامتی ، اخوت ومحبت، اور باہمی تعاون و تشاور کے جذبے کو پیدا کیا جائے، اس کے لیے خوب محنتیں کی جائیں۔( العالم الاسلامی وغزوالعلم والاعلام:مئی ۲۰۱۸)

دعوت کے فریضہ کو حکمت سے انجام دیا جائے:

مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کی ایک بڑی وجہ دعوت سے ان کی بے توجہی ہے، مولانا اس کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’آج میڈیا کے سامنے معاصر اسلوب میں علمی و فکری حقائق پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے بڑھ کر دعوت الی اللہ کے فریضے کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے، ارشاد خداوندی ہے ۔ ’’اور اس سے بہتر بھلا کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف لوگوں کو بلائے اور نیک کام کرے اور کہے میں اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والاہوں، بدلی کب بھلائی کی برابری کرسکتی ہے، برائی کو اس طریقے سے دور کروجو سب سے زیادہ اچھا اور احسن ہو تو تم دیکھوگے کہ تمہارے اور اس کے درمیان جو دشمنی تھی وہ اب جگری دوست بن گیا ہے۔ (العالم الاسلامی و غزوالعلم والاعلام۔ مئی ، ۲۰۱۸)

مجادلہ حسنہ کی اہمیت اور ٹکراؤ سے گریز 

اسلام اپنے مخالفین کے تعلق سے بھی نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ پیار و محبت کی بات کرتا ہے اور ٹکراؤ سے روکتا ہے اگر کبھی بحث و مباحثہ کی نوبت آبھی جائے تو وہ مجادلہ حسنہ کا حکم دیتا ہے، مولانا اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’موجودہ حالات میں داعیان اور مصلحین کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن اور سیرت پاک میں ذکر کردہ دعوت واصلاح کے طریقوں پر غور وخوض کریں اور تاریخ کا مطالعہ کریں ، کہ کس طرح داعیان اسلام نے جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے دعوت کو پیش کیا تھا اور کیا کیا طریقے اپنائے تھے، تاریخ میں بہت ساری مثالیں ایسے مفکرین و مصلحین کی موجود ہیں جنہوں نے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعہ ایسی ٹکراؤ کو ختم کیا، اور ناصحانہ انداز میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا، ان کے اس اسلوب نے مخاطبین کو متاثر کیا اور چھے نتائج برآامد ہوئے آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ناصحانہ انداز اور ہمدردانہ طریقوں کو اپنائیں، اور دعوت دین کے فریضے کو حکمت اور دور اندیشی سے انجام دیں، ساتھ ہی مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور ان کے حکمرانوں کی فکری رہنمائی کریں اور اسلامی کارواں کو اعلی اقدار تک اور زندگی کواسلام کے ساحل ہرلانے کی کوشش کریں۔‘‘ (مشاکل المسلمین و واجباتھم الدینی۔ جون۲۰۱۸)

ذات رسول ﷺ سے والہانہ محبت ایمان کا تقاضا ہے

اللہ کے بعد سب سے بابرکت ذات محمد ﷺ کی ہے، آپ کی محبت ایمان کا تقاضا ہے جس قدر آپ سے محبت ہوگی ، اس قدر ہی اللہ کے نزدیک مقام بلند ہوگا، مولانا کو آپ کی ذات سے اس درجہ محبت تھی کہ جب بھی کوئی شان نبوی میں گستاخی کرتا آپ کا خون ابل جاتا، اور آپ مسلمانوں کی رگ حمیت کو پھڑکاتے، آپ سید تھے اس لیے دینی اور نسبی دونوں تعلق سے آپ ﷺ سے بہت زیادہ قریب تھے، آپ ۱۹۸۹ کے ایک مضمون میں فرماتے ہیں کہ ’’ بنی ﷺ کی ذات سے بے پناہ تعلق اور ان پر سب کچھ لٹا دینے کا احساس ہر دور میں مسلمانوں کی شان رہی ہے، ادنی سا مسلمان بھی نبی کی شان میں ادنی سی بے ادبی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور آپ صحابہ اور ازواج مطہرات کی شان میں بھی کوئی بے ادبی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا، وہ ان کا احترام اپنے والدین اور آباء اجداد سے زیادہ کرتا ہے بھلے ہی وہ اپنے گھر والوں کی بے عزتی ایک بار کو برداشت کرجائے لیکن نبی ﷺاور آپ کے صحابہ کی کسی بھی حال میں نہیں کرسکتا۔ہردور میں اس ایمانی غیرت کے بے شمار مثالیں ملتی ہیں ، لیکن افسوس یورپی مفکرین اور مستشرقین کی کتابوں نے اور مغربی تعلیم نے آہستہ آہستہ مسلمانوں کے دلوں میں اثرانداز ہونا شروع کردیا اور پھر نبی ﷺ کی ذات سے یہ والہانہ تعلق اور ایمانی غیرت و حمیت کی لو مدھم پڑتی گئی آج مصالح غالب آگئے، دل سوگئے اور غیرت وحمیت کہیں گم ہوگئی‘‘۔(والذی خبث لا یخر ج الا نکدا۔اپریل ۱۹۸۶)

مغربی یلغارکا سبب ایک نفسیاتی جنون ہے

مولا نا عالم اسلام پر مغربی یلغار کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں۔ایک نفسیاتی مرض جس نے پورے یورپ کو ایسے جنون کا شکار بنا دیا ہے جس نے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔مولانا فرماتے ہیں’’مغرب کو اسلامی دشمنی کو جنون لاحق ہوگیا ہے،پورا یورپ اسلام کو روکنے کے لئے کمر بستہ ہے،وہ ہر طرح کے ہتھکھنڈے اپنا رہا ہے، یہ جنون وہی ہے جو اسے صہیونی جنگون کے وقت لاحق ہوا تھا ۔ان کا میڈیا ،ان کے کتب خانے،ان کے سیاسی کمرے سب اسی جنون کا شکار ہوگئے ہیں۔در اصل یہ اسلام اور اس کی تہذیب اور اس کے جذبہٗ جہاد سے خوفزدہ ہیں۔یہ احساس کمتری اور بیچینی ہے جسے یورپ نہ چاہتے ہوئے بھی ظاہر کر رہا ہے۔یہ اپنی تہذیب کو دنیا کے سامنے امن و شانتی کی تہذیب اور اسلامی تہذیب کو جنگ و جدال کی تہذیب کے طور پر متعارف کراتے ہیں ۔لیکن اس سب کانتیجہ مغرب کی امیدون کے برعکس نکل رہا ہے۔لوگ اسلام سے قریب ہو رہے ہیں،اسلام روز بروز پھیل رہا ہے۔ارشاد خدا وندی ہےَْْْ،یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ ا لکافرون۔(العالم الاسلامی و غزوالعلم والاعلام۔ مئی ، ۲۰۱۸)

آستین کے سانپوں سے ہوشیار 

مولانا اپنے ایک جامع مضمون میں اسلامی قیادت کو درپیش خطرات کی طر توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حالات ماضی سے بہت زیادہ مختلف ہیں،آج مسلمانوں کو سب سے بڑا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کی صفوں میں رہ کر وہ کام کررہے ہیں جو پہلے مستشرقین کیا کرتے تھے ، وہ مسلمانوں کو ہر زبان میں اور ہر میدان میں مواد فراہم کررہے ہیں، سیرت، تاریخ اسلامی، اور علوم اسلامیہ پر خوب کتابیں لکھ رہے ہیں، انٹرنیٹ ، میڈیا اور کانفرنسوں اور جلسوں کے ذریعہ اپنے افکار کی ترویج کررہے ہیں، جس سے مسلمان فکری کشمکش اور اسلام کے تئیں شکوک و شبہات کے شکار ہورہے ہیں، (القیادۃ الاسلامیۃامام تحدیات جدیدۃ: جنوری۔فروریِ ۲۰۱۰)

جنگ تین محاذوں پر ہورہی ہیں

مولانا فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے خلاف تین محاذوں پر جنگ چھیڑی گئی ہے، عسکری جنگ، فکری جنگ اور ثقافتی جنگ اور مسلمانوں کو آج دونوں طرف سے خطرہ ہے ایک خارجی خطرہ اور اس سے بڑا داخلی خطرہ ، جولوگ اسلام کے خلاف محاذ آراء ہیں وہ ان کو داخلی اور خارجی دونوں طاقتوں سے پوری پوری مدد ملتی ہے، اور جو لوگ اس حملے کا مقابلہ کرنے پر قادر ہیں ان بے چاروں کے ہتھ پاؤں بندھے ہوتے ہیں یا پھر انہیں صحیح صورت حال کا علم نہیں ہے، وہ لوگ یا توخاموش رہ کر عافیت پسندی کی زندگی گزاررہے ہیں یا پھر دیگر چھوٹے چھوٹے سائل میں الجھے ہوئے ہیں، لیکن ان بڑے سنگین مسائل پر خاموش ہیں جن پر امت اسلامیہ کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ (ایضا)

مسلمانوں کا علمی و فکری جمود

مولانا علمی و فکری جمود کے سخت خلاف تھے، کیوں کہ یہی وہ مرض ہے جو امت کو ترقی سے روکتا ہے، انسان اگر فکری جمود کا شکار ہوجائے تو اپنے ساتھ اپنے اہل حلقہ کو بھی جامد کردیتا ہے، جب کہ اسلام کا خود یہ مزاج ہیں ہے۔ اگر یہ مرض ایک علم کو لاحق ہوجائے تو پھر معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ’’ آج کے دور میں بھی بعض ایسے تعلیم یافتہ اور مثقف افراد پائے جاتے ہیں جو باوجود اس کے کہ جاہل نہیں ہیں فکری جمود پر مبنی زندگی گزاررہے ہیں، وہ اندھی تقلید کرتے ہیں اور وہ جس کو اپنا بڑا اور بزرگ مان لیں پھر تو اس کو ایسا مقدس سمجھنے لگتے ہیں کہ اس کے موقف سے اختلاف نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ زندگی کے کسی بھی منہیج میں تبدیلی گوارا کرتے بہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کہ اب زمانے وہیں رک گیا ہے۔ وقت اب آگے نہیں بڑھے گا، گویا کہ وہ لوگ مسلسل ایسے بچپنے میں زندگی جی رہے ہیں جس میں بچہ ہر اس شخص کو جو اس سے بڑا ہو قابل احترام جان لیتا ہے اور اس پر پورا یقین کرلیتا ہے۔ (جمود اعداد الجمود: دسمبر ۔ جنوری ۸۸۔ ۱۹۸۷ ص۹۳)

مسلم تنظیموں اور تحریکات کی ناکامی کے اسباب 

آج دنیا بھر میں بہت سے مسلم تنظیمیں اور تحریکات کام کر رہی ہیں لیکن ان کی جدوجہد کے باوجود خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں اس ناکامی کا سبب بیان کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں۔ ’’ عالم اسلام میں بہت سی اسلامی تحریکات اور فلاحی ادارے کام کررہے ہیں لیکن وہ متحد نہیں بلکہ متفرق ہیں، بعض ایک جیسی تنظیمیں ایک ہی میدان میں ایک ہی کام دینے لگتی ہیں اس وجہ سے ان کے مابین اختلافات اور کشمکش شروع ہوجاتی ہے، اب ان تنظیموں کی ساری توانائی اصل کام کے بجائے ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں ضائع ہوتی ہے، جب کہ ہم جب دوسری قوموں کو دیکھتے ہیں تو ان کی تنظیموں، اداروں اور تحریکات میں باہمی تعاون و تشاور سے کام کرنے کی عادت پائی جاتی ہے، اس لیے وہ سب مل کر ایک ہی ہدف میں کام کرتے ہیں، جب کہ باہمی تعاون تشاور تو مسلمانوں کا امتیاز ہے۔اور اسلام کی یہی تعلیم ہے : وتعاونوا علی البر والتقوی۔

جمود کا دائرۂ کار اور اس کا علاج 

مولانا فرماتے ہیں کہ یہ مرض مسلمانوں میں وبا کی طرح پھیل گیا ہے اور ہر میدان میں سرایت کرگیا ہے، فرماتے ہیں ’’مسلمانوں میں باہمی عدم تعاون اور باہمی مخالفت کا مرض سیاسی جماعتوں میں بھی پیدا ہوگیا ہے بلکہ دینی مدارس و جامعات بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں، تعصب و انانیت مسلمانوں کا شیوہ بن چکی ہے، اس لیے مسلمان باہم دست وگریباں نظر آتے ہیں، انہوں نے باہری جنگوں سے زیادہ آپسی جنگی چھیڑ رکھی ہیں، ہر صاحب عقل و شعور اور درد مند دل رکھنے والے کو اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہے اسلامی شعور کو بیدار کرنے، اسلامی اخوت ومحبت کی فضا عام کرکے دور شریعت کو مطلق حاکم بنا کر اس مرض سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ (مشاکل المسلمین و واجبھم الدینی: جون ۲۰۱۸ ص۸۶)

کمینے قلمکار

مولانا بسااوقات سخت تحریر بھی لکھا کرتے ، جس کے ذریعہ ذہنوں کو جھنجھوڑا جاتا اور مرض کے علاج کی کوشش کی جاتی، مولانا ایسے لوگوں کے بارے میں جو اپنے قلم کا غلط استعمال کرتے ہیں فرماتے ہیں’’مال و دولت اور شہرت کے حصول میں اور اپنی کمینی طبیعت کی وجہ سے بعض شعراء و ادباء شریعت و پاکباز لوگوں کے درپے ہوجاتے تھے، آج یہ حال ہے بعض قلمکاروں کا ہے ، جو جھوٹ شہرت اور نام و نمود قلم کو وسیلہ بناتے ہیں و ہ شریعت اور مخلص قائدین اور مصلحین امت کی پگڑیاں اچھالتے ہیں، ان کے خلاف افواہیں اڑاتے ہیں، ان کا کمینہ پن اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنے محسنین تک نہیں بخشتے ان کی مثال بچھوکی طرح ہے جو بھ اس سے قریب ہوتا ہے وہ اسے ڈنس لیتا ہے۔ اگر کوئی شریف مثقف ہوجائے تو اس کی سیرت و کردار میں چار چاند لگ جاتے ہیں لیکن اگر کوئی کمینہ مثقف ہوجائے تو وہ مزید کمینہ سے کمینہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ثقافت کو اپنے کمینہ مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔( من فقد الشدہ فلایرتدع الابالعقاب۔ دسمبر ۱۹۸۸ : ص۹۵)

انگریزوں کی فطرت

مولانا انگریزوں کی رگ رگ سے واقف تھے کہ وہ اسلام دشمنی میں کس حد تک جاسکتے ہیں مولانا انگریزوں کی فطرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’شروع سے ہی انگریزوں کی فطرت دھوکہ اور مکاری کی رہی ہے، اور دھوکہ باز اور مکار بچھو کی طرح ہوتا ہے جو ہر حال میں ڈسنے کے درپے رہتا ہے، اس کا یہ کمینہ پن موت پر جاکر ہی دم توڑتا ہے کہاجاتا ہے کہ بچھو کی اولاد اپنی ماں کو بھی کھاجاتی ہے یہی حال انگریزوں کا ہے وہ ابھی ان بدترین وسائل کو تھامے ہوئے ہیں جو اپنے آباء اجداد نے اپنے دور استعمار میں اختیار کئے تھے اس دور میں برطانیہ کی خباثت سے بڑھ کر کوئی خباثت نہیں ہے (خبث بعد خبث۔ ستمبر ۱۹۸۹)

دجال کی آمد سے پہلے اس کے دجل کا ظہور ہوچکا ہے 

مولانا فرماتے ہیں کہ دجال کی آمد سے پہلے اس کے دجل کا ظہور شروع ہوچکا ہے، آج کا سب سے بڑا دجل یہ ہے کہ مفاہیم و معانی کو الٹ دیا گیا ہے۔ اس دور میں جو جتنا بڑا دجال ہے اتنا ہی کامیاب ہے، مفاھیم و معانی کو اس قدر الٹ دیا گیا ہے کہ پڑوسی اور ہمسایہ کو کچل دینے کا نام جہاد ، حملہ کا امداد، جنگ کا نام امن و سلامتی، جیت کا نام ہار اور ہار کا جیت ، نقصان کا فائدہ اور فائدے کا نقصان رکھ دیا گیا ہے اگر صحافت ، تعلیم، سیاست تمام کے تمام شعبے اس بیماری میں ملوث ہوجائیں تو عوام تک حقائق کیسے پہنچ پائیں گے، سچ تواسے ہی جاناجائے گا جو اندھوکے باز ذرائع سے ان تک پہونچے گا، دنیا آج اس دجل کا شکار ہوئی ہے۔   (عصر الظلام و عصر النور: مئی ۱۹۹۱)

تشدد محض سیاسی غرض سے کیا جاتا ہے

مولانا فرماتے ہیں ’’تشدد کے تین درجے ہیں، یاتو وہ کسی اقتصادی غرض سے کیا جاتا ہے، یا وہ کسی خبیث مقصد کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے یا پھر سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا جاتاہے، تشدد کی یہ تیسری قسم سب سے زیادہ خطرناک ہے، دنیا میں سیاسی تشدد بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، اس کی کئی مثالیں ہیں، برما، شام، عراق میں اسی قسم کا تشد ہورہا ہے، ہمارا ملک ہندوستان بھی سیاسی تشدد کا شکار ہے، یہاں سخت گیر ہندو نوجوان مسلمانوں کو بہانے بہانے سے نشانہ بنا رہے ہیں، کبھی گؤکشی کے نام پر کبھی ملک سے محبت کے نام پر یہاں تک کہ ٹرینوں میں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں، مسلمانوں پر ہونے ولاے اس تشدد سے ہر کسی کو کوئی پروہ نہیں ہے، یہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ ( معابیر مختلفۃ للعنف والامن، اکتوبر ۔ نومبر ۲۰۱۷)

مسلمانوں میں شدت پسندی کا ذمہ دار کون

دنیا میں جگہ جگہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مسلم نوجوان شدت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں اور مسلمان ہی مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں، ان مسلم نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کون اس تشدد کا ذمہ دار ہے؟۔ اس کے تعلق سے مولانا فرماتے ہیں ’’اسلامی تعلیمات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام افراد کو اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، اور وہ ان کے سلسلہ میں جواب دہ ہیں، بنی ﷺ کا ارشاد ہے:’’ کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘ ۔ اس لیے علماء کرام اور قائدین امت کے افراد کے بارے میں جواب دہ ہیں کیوں کہ ان کی ذمہ داری ہے ۔’’ من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘الخ ۔ غلط کاموں کو ہاتھ یا زبان سے روکنا ان کا فریضہ ہے، دنیا میں دہشت گردی اور شدت پسندی کا رجحان اسی ہیے پیدا ہورہا ہے کیوں کہ لوگوں میں اپنے تعلق سے جواب دہی کا احساس ختم ہوگیا ہے۔‘‘ ( من المسؤل عن الارھاب فی العالم: اکتوبر ۲۰۱۷۔ ص:۲۰)

اسلام پر دہشت گردی کا الزام محض سیاسی کھیل ہے 

انتخاب قریب آتے ہی ملکی فضا میں نفرتوں کا زہر گھول دیا گیا ہے، پلوامہ حملہ کی آڑ میں پوری مسلم قوم کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے، یہ سب محض سیاسی کھیل ہے، اس کے تعلق سے مولانا فرماتے ہیں ’’ جو لوگ واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور دل ودماغ سے سوچتے ہیں وہ خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلام پر دہشت گردی کا الزام محض ایک تہمت اور سیاسی پرپیگنڈا ہے بلکہ دہشت گرد تو ہر کمیونٹی میں موجود ہیں ، یورپ اور ہندوستان میں بہت سی دہشت گرد تنظیمں ہیں جو مسلمان نہیں ہیںِ اس طرح کا ماحول انتخابات کے وقت بنایا جاتاہے جسے کہ ہندوستان میں بی جے پی کے لیڈران مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیاں شروع کردیتے ہیں وہ اس طرح کے نعرے لگاتے ہیں جس سے نفرتیں بڑتھی ہیں، ایسی ہی بیانات ٹرمپ بھی دیا کرتا ہے تاکہ اسلام دشمنوں کو خوش کر کے ووٹ حاصل کیئے جائیں۔‘‘ ( الاستغلال العصبات الدینیۃ لکسب الفوز فی الانتخابات علی عمل غیر جمھور ۔ اپریل۔ مئی ۲۰۱۷)

دشمنی کا ایک سبب غلط فہمی بھی ہے

انسان جب دشمنی پر آمادہ ہوتا ہے تو وہ اپنے درجے سے بہت نیچے اتر آتا ہے ،۔انسان کے انسان سے دشمنی کے کافی اسباب ہوتے ہیں لیکن ان کا ایک بڑا سبب غلط فہمی ہے مولانا فرماتے ہیں ۔ ’’کسی سے نفرت، جلن، حسد اور دشمنی کبھی کبھی بری تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے اور کبھی یہ زندگی کے تلخ تجربات کا نتیجہ بھی ہوتا ہے اس طرح کے احساسات کے اثرات اس کے عمل اور اس طرز معاملہ سے ظاہر ہوجاتے ہیں، بہت سے لوگ انہیں کنٹرول کر کے صرف دلوں تک محدود رکھتے ہیں۔ دشمنی ایسی غیر انسانی حرکتیں کرادیتی ہیں جس پر بعد میں بڑی پشیمانی ہوتی ہے ، ہمارے ملک کا یاک طبقہ بھی مسلمانوں کے سلسلہ میں اس احساس کا شکار ہے لیکن ان میں اکثر کی بنیاد غلط فہمیاں ہیں ، اگر مسلمانوں نے غلط فہمیوں کو دور کر کے اس مرض کا علاج نہیں کیا تو آنے والا وقت اب سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگا۔ (عداوۃ،، ھل لھا نھایۃ۔ نومبر ۱۹۸۹ ۔ ص ۹۷)

مغربی افکار کے تسلط کے اسباب اور مسلم حکمرانوں کی مغربی غلامی

مغربی افکار کا ترویج کیسے ہوتی ، مسلمانوں میں یہ کیسے اثر انداز ہوئے اور مسلم معاشرہ مغربی معاشرہ میں کسیے بدلتا جارہاہے اس کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں۔ ’’مغرب کے ذریعہ اسلامی تاریخ کو مسخ کیا گیا اور ایسا گمراہ کن لٹریچر تیار کیا گیا کہ جب وہ مسلمان جو صحیح اسلامی تعلیم اور اسلام کے افکار و نظریات کو نہیں جانتے جب ان مغربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں اسلام کے تئیں شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں، ذات رسول ﷺ تک سے بدگمانی ہوجاتی ہے، ان کے دل میں مغربی نظام تعلیم و تربیت کا تفوق بیٹھ جاتاہے۔ مولانا آگے فرماتے ہیں۔ ’’اسی مغربی تعلیم یافتہ طبقہ سے اسلامی ممالک کے حکمران اور سیاست داں بھی تعلق رکھتے ہیں، وہ اس نظام کے پروردہ ہیں اس لئے آسانی سے مغربی سازش کا شکار ہوجاتے ہیں وہ ان کی ہدایات کے تابع رہتے ہیں، کیوں کہ مغرب تمام اثرانداز ہونے والے وسائل پر قادر ہے، اس لیے وہ مالی امداد، تکنیکی امداد، عسکری امداد، اور دفاعی امداد کے وسائل کی فراہمی کے بدلے انہیں کنٹرول کرتا ہے اور اپنی مرضٰ کے مطابق استعمال کرتاہے،اور اسلام پسندوں کے خلاف کاروائیاں کرواتا ہے جس کی وجہ سے اسلام پسند حلقوں میں غصہ اور ناراضگی پیدا ہوتی ہے اور حکام اور دین پسندوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوجاتا ہے۔‘‘ ( القیادۃالاسلامیۃ امام تحدیات جدیدۃ ۔ جنوری، فروری، ۲۰۱۰)

معاصر اسلوب کی ضرورت 

مولانا فرماتے ہیں کہ آج ہمیں ماضی سے بھی زیادہ سخت خطرات لاحق ہیں کیوں کہ پہلے صرف عسکری خطرہ تھا آج اس سے زیادہ بڑا خطرہ وہ ہے علمی، فکری، ثقافتی خطرہ اس لیے عسکری اسلو ب کے بجائے آج علمی ، فکری اور معاصر صحافت اور میڈیا کے اسلوب کو اپناے کی ضرورت ہے ہمیں دفاع کی حکمتوں کو جاننا ہے اور دشمنوں کے ہتھیاروں کو اسی کے خلاف استعمال کرنا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ دشمنوں کی جڑ کو جان کر ان وسائل کو جانا جائے جسے وہ ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے : واعدوس لھم مااستطعتم من قوۃ۔۔:   (القیادۃ الاسلامیۃ امام تحدیات جدیدۃ۔ جنوری، فروری ۲۰۱۰)

افغانستان کے متعلق پیشن گوئی 

مولانا مفکر اسلام تھے دور اندیشی مولانا کی صفت ، حالات کا جائزہ باریک بینی سے لیا کرتے تھے، مولانا امریکہ کے افغان حملہ کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت کرامت کا تاج بدلتا رہتا ہے کسی گروہ یا تحریک کی ملکیت نہیں ہے اس دنیا میں یہی اللہ کی سنت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’ وتلک الایام نداولھا بین الناس ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۰) یہ ان لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں ۔ برطانیہ، فرانس اور البانیہ کل دنیا کی بڑی طاقتیں ہوا کرتی تھیں، عالمی سیاست میں انہیں کا ڈنکا بجتا تھا، لیکن یہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں، اس طرح ہر اس شخص کے لیے یہ مقام عبرت ہے جس کو طاقت اور غلبہ نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے، سورج شام میں ضرور غروب ہوتا ہے۔‘‘( تغییر منابع القوۃ العالمیۃ۔ دسمبر ۲۰۱۷ ۔ ص ۹۵)۔ ابھی حال ہی میں خبر آئی ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور وہ اب وہاں سے فرار ہورہا ہے۔

انسان نما درندے

پلوامہ حملے کے بعد جس طرح پوری مسلم قوم کو نشانہ بنایا جارہاہے اور ملک میں ماب لنچنگ کے واقعات بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، خاص کر مسلمان اس کے زیادہ شکار ہورہے ہیں، مولانا اس طرح کے حملہ آوروں کو درندوں سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’یہ درندوں اور جانوروں کی صفت ہے کہ ایک پوری جماعت یا گروہ سے صرف اس لیے کہ ملزم کا تعلق اس جامعت یا گروہ سے تھا کیوں کہ جب شہد کی مکھی کو کوئی ایک انسان تنگ کرتا ہے تو وہ اس کا بدلہ تمام انسانوں سے لیت ہیں، اس طرح کتے بھی کرتے ہیں یہ انسانوں کا کام نہیں ہے۔ ( عداوۃ ھل لھا نھایۃ۔ نومبر ۱۹۸۹۔ ص۹۶)

مسلمانوں کی پستی کا سبب 

اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے وہ متاثر کرتا ہے کہ اور ہمیشہ غالب رہتا ہے، مشکلات زمانہ کا حل صرف اسی کے پاس ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اس کی طرف خود کو منسوب کرنے والے اپنی زندگی کے امور ، افکار و نظریات اور زندگی کے طور طریقوں میں اس کی مخالفت کررہے ہیں وہ اپنے مسائل کا حل دوسری جگہ تلاش کر رہے ہیں، یہاں تک کہ دعوت اور جہاد تک کے بارے میں دشمنان اسلام کی پیروی کررہے ہیں ان کی دعوت اب خالص اللہ کے لیے نہ ہوکر دیگر مذہبوں کی تحریکات سے دعوت کی طرح ہوگئی ہے، یہ سبب ہے کہ پستی کی وہ کامیاب اس صورت میں ہوسکتے ہیں جب اسلام کے سپرد خود کو کامل طور پر کردیں، ( دیننا میکیۃ الاسلام و مسؤلیات المسلمین، جنوری، فروری ۱۹۹۱، ص۱۰۰)

محاسبہ کی دعوت 

مولانا مجھے اور آپ کو اور پوری امت کو دعوت احتساب دیتے ہیں مولانا فرماتے ہیں ’’آج جو کچھ دشمنوں کی جانب سے ہمیں برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور یہ ہم مختلف مقامات پر شکستیں کھاتے جارہے ہیں، اب ہمارے لیے واجب ہوگیا ہے کہ اب ہم اپنا محاسب ہ کریں، سرجوڑ کر بیٹھیں اور غور وفکر کریں کہ ہماری شکست درشکست کھانے کا سبب کیا ہے، یہاں تک کہ ہم اپنی دعوت کے طریقوں اور اسلامی نظام کو رائج کرنے لیے اختیار کردہ طریقوں پر پھر سے محاسبہ کریں قرآن کا صاف ارشاد ہے ’’ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اور ان کے لیے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا۔ جسے اللہ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی موجودہ حالت خوف کو حالت امن سے بدل دے بگا (النور:۵۵) ۔(العالم الاسلامی وغزوالعلم الاعلام، مئی۔ ۲۰۱۸ : ص،۹۶)

نفرتوں کو ختم کیجئے، محبت کو عام کیجئے 

مولانا پیار کے داعی تھے، وہ پیار بانٹتے تھے، اور نفرتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے تھے کیوں کہ نفرتیں سوائے نقصان کے کچھ نہیں پہچاتی ، جب کہ پیار پورے معاشرے کو ترقی سے ہم کنار کرتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ’’جہالت کو جہالت سے ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا علاج تعلیم و تفہیم ہے اسی طرح نفرت کا علاج نفرت نہیں ہے اسے محبت ، نرم مزاجی اور رحم دلی سے ختم کیا جاسکتا ہے، یہی ہو منہج ہے جسے ہمارے نبی ﷺ نے دیا تا اور اسی منہج کو اپنا کر ہم کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتے ہیں۔ ‘
(واما الذبد فیذہب جفاء ا۔ اپریل ۲۰۱۰)

آخری وصیت 

مولانا کو معلوم تھا کہ آنے والے حالت نہایت سخت ہیں ، اس میں مسلمانوں کے ایمان اور صبر کا بڑا امتحان ہونے والا ہے اس لیے انتقال سے پہلے اپنے بھتیجے مولانا محمود الحسن حسنی کو سورہ اٰل عمران کی آخری آیت ’’یاایھا الذین امنوا اصبرو وصابروا ورابطوا (اے ایمان والو تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لیے یتار رہو، اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مدد کو پہونچو)
پڑھ کر اس سے لطف و اندوز ہوتے ہوئے فرمایا ’’زندگی کے نشیب وفراز میں صبر اور تقوی کو تھامے رہو، قربانیوں کے لیے تیار رہو، اس میں کامیابی مضمر ہے، یہ دین کا خلاصہ ہے اور اسی میں زندگی کی حقیقی کامیابی کا راز ہے۔

۲ ۔ اس آیت مبارکہ کو درو دیوار پر آویزاں کرنا

۳، اہل کفر و نفاق کے غلبہ اور ان کے دور دورے سے مسلمانوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے، اور نہ ہی اس دھوکہ میں آنے کی ضرورت ہے اہل ایمان کے لیے تو آخرت ہے یہ دنیا تو چند روزہ ہے (منقول از۔ مولانا اکرم ندویََ)

اختتام

یہ تھے مولانا کے افکار و نظریات ’’البعث کے کالم صور اوضاع‘] کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو زندگی کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مولانا کے افکار نہایت معاون ہیں، مولانا اپنی ان قیمتی تحریروں کے ذریعہ ہمیشہ ہمارے درمیان موجود رہیں گے، اور یہ تحریر بھی مولانا کے لیے صدقہ جاری رہیں گی۔ اصل معاملہ عمل کا ہے، اللہ ہم سب کو ان ہدایات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدۂ ور پیدا

تبصرے بند ہیں۔