پب جی کے نقصانات

مولانا سید احمد ومیض ندوی صاحب

پب جی گیم:

پب جی ایک بیٹل رویال آن لائن ملٹی پلیٔر گیم ہے یعنی ایک ایسی گیم جس میں کھلاڑی بناکسی ہتھیار کے اترتے ہیں اور گیم کے اندر ہتھیار شیلڈ گاڑیاں اور دیگر چیزیں حاصل کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ آخری بچ جانے والا کھلاڑی فاتح قرار پاتا ہے۔ ستمبر ۲۰۱۷ء میں پب جی کو ٹکر دینے کے لئے گیمنگ کمپنی ایپک نے اپنی گیم فورٹ نائٹ کا بیٹل رویال ریلیز کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ گیم آن لائن فری تھی۔ راتوں رات یہ ناپسندیدہ گیم بن گئی۔ اس صورتِ حال کو سنبھالنے کے لئے پب جی کو کچھ تو کرنا ہی تھا۔ اس نے ایک نئی چال چلی اور موبائیل ورلڈ کو ٹارگٹ کیا۔

پب جی (Player Unknown’s Battle Grounds) گیم ہندوستان میں سب سے زیادہ کھیلی جاتی ہے۔ دسمبر ۲۰۱۷ میں آئیر لینڈ کے گیم ڈیزائنر یرینڈہ گرین نے یہ گیم متعارف کرائی۔ ۲۰۱۸ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی ۔ اس گیم میں دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور ایک کھلاڑی سے لے کر سو کھلاڑیوں تک کی ٹیم ہوتی ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑتی ہے۔ دونوں ٹیموں کے کھلاڑی جہاز سے زمین پر اتر کر پہلے اسلحہ تلاش کرتے ہیں اور پھر سامنے والے کھلاڑی پر فائرنگ کرکے مارتے ہیں۔

صحتِ انسانی کے لیے مضرت رساں:

پب جی گیم ہر کس و ناکس کے لئے انتہائی مقبول گیم بن گئی ہے۔ بچے اور جوان رات دن اس گیم میں مصروف ہیں۔ لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ گیم صحت انسانی کے لئے انتہائی مضر ہے۔ گیم بنانے والی کمپنی فن لینڈ کی فرم سپرسیل جانب سے بتایاگیا ہے کہ اس گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں ان لوگوں کو مرگی کے عارضہ کا شکار بناتی ہے، جو یہ گیم کثرت سے کھیلتے ہیں۔ نیز ہر طرح کے ویڈیو گیم کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔ نیز گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے ہڈیوں اور عضلات کا مرض لاحق ہوجاتا ہے  ویڈیو گیمز سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں، کیونکہ اس میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجاتی ہے اور موبائیل اسکرین سے مقناطیسی لہروں کا نکلنا بھی آنکھوں کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے۔

پب جی گیم کھیلنے والوں کو نفسیاتی مریض بنادیتا ہے، چونکہ اس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل اور ان کی املاک پر قبضہ کرکے نیز دوسروں کو بے انتہاء زد و کوب کرکے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ مکمل اختتام تک گیم کھیلنے والے بچوں کو جرائم کے نت نئے طریقے سوجتے ہیں۔ بچوں کا سادہ ذہن جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ یہ گیم خون خرابہ کا باعث بنتی ہے۔ گیم کھیلنے والے بچوں کو ہر طرح کے ہتھیار بندوق اور گن کے نام از بر ہوجاتے ہیں۔ نیز اس گیم میں منشیات کا استعمال، گروپوں کے درمیان لڑائی ،تشدد اور ناشائستہ الفاظ کا خوب استعمال ہوتا ہے۔

آن لائن پب جی گیم کی عادت خطرہ جان:

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قریب ایک ماہ پہلے ایک شخص آن لائن گیم پب جی کا عادی ہوگیا، جس کے باعث گیم کا ایک راؤنڈ مکمل ہونے کے بعد اس شخص کو اس لئے ہاسپٹل میں داخل ہونا پڑا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو ہی مکے مارنا شروع کئے ،جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگیا۔ ایک ڈاکٹر نے اپنانام صیغۂ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ مریض کی حالت فی الوقت غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریض کا دماغی توازن جزوی طورپر بگڑ گیا ہے۔ مریض، لوگوں کو پہچان سکتا ہے لیکن وہ ابھی بیہوشی کی حالت میں ہے اور اس کا دماغ مکمل طورپر پب جی گیم کے زیر اثر ہے۔ ادھر ہاسپٹل ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جموں میں اس نوعیت کا چھٹا کیس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی ایسے کیسس ہوئے ہوں گے جو نظر انداز ہوئے ہوں گے۔ ڈاکٹروں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بچوں کی رات گئے تک تنہائی میں موبائیل فون کے استعمال پر کڑی نظر رکھیں۔ انہوں نے عوام کو تاکید کی کہ وہ بچوں کے رات گئے تک موبائیل فون استعمال کرنے کو نظرانداز نہ کریں۔

پب جی گیم بچوں کو تشدد اور مار دھاڑ کے ہنر سکھاتی ہے۔ گزشتہ سال اس ہنر کو ایک 19 سالہ لڑکے نے اپنے ہی گھر والوں پر آزمایا اور اپنے ماں باپ اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے مطابق یہ لڑکا ویڈیو گیم پب جی کا عادی ہوگیا تھا۔ سورج نامی لڑکے نے مہرول میں ایک روم کرایہ پر لیا تھا اور اسکول اور روم میں بیٹھ کر ویڈیو گیمز کے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ جموں کشمیر اسٹوڈنٹس یونین کے مطابق یہ گیم منشیات کی لت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اس سے نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ پب جی کے استعمال سے سڑک حادثات کا بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

کیا احادیث میں پب جی کی پیشن گوئی ہے؟

اردو پوائنٹ ڈاٹ کام نے اپنی ۱۳ ؍فروری ۲۰۱۹ء کی اشاعت میں پب جی سے متعلق ایک اسلامی اسکالر کے فتویٰ کی اطلاع شائع کی، جس میں کہاگیا ہے کہ پب جی حرام ہے۔ اسلامی اسکالر نے اپنے ویڈیو پیام میں کہا ہے کہ میں آپ کو تحقیق سے بتاؤں گا۔ پب جی کوئی مذاق یا لطیفہ نہیں ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے جو بشارت دی تھی ، پب جی میں ، میں نے وہ مکمل طورپر دیکھا۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہوگی اور یہ جنگ ایسی ہوگی کہ اس سے پہلے کبھی ایسی جنگ دنیا میں ہوئی ہوگی نہ اس کے بعد کبھی ہوگی۔ ملک شام اس کا میدان بنے گا۔ حضور ﷺ نے اس جنگ کے اوصاف بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ جنگ اتنی خطرناک ہوگی کہ ہر سو میں سے ۹۹ مریں گے اور ایک بچے گا۔ اس میں شریک ہونے والوں اور جہاد کرنے والوں کی فضیلت ہے۔ لیکن اس کے علاوہ خوف میں مبتلا ہونے والوں کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ اس پب جی گیم کی چیزیں اس جنگ سے ملتی ہیں، جتنی معلومات میں نے اس گیم کے بارے میں حاصل کی ہیں وہ یہی ہیں کہ اس گیم میں شوٹ کرنے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے۔ اس میں سکھایاجارہا ہے کہ گروپ بناکر آپ اپنی بندوق سے پورے کے پورے گاؤں پر فائرنگ کردیں۔ انہوں نے کہاکہ اس گیم کی نحوست ایسی ہے کہ اس کو کھیلنے والا بچہ ماں کے بارہا پکارنے پر بھی جواب نہیں دیتا۔ اس گیم کی وجہ سے بچوں میں چڑ چڑا پن پیدا ہوتا ہے اور بالآخر بات بات پر ان کا دل ہتھیار اٹھانے کو کرتا ہے۔

لمحۂ فکریہ:

قارئین! آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ پب جی اور اس قسم کے ویڈیو گیمز ہماری نئی نسل کے لیے کس قدر تباہ کن ہیں، بچوں میں تشدد کا بڑھتا رجحان انہی گیمز کی دین ہے، کیا آپ چاہیں گہ آپ کا بچہ تشدد اورکا قتل وغارت گری کا عادی ہوجائے؟ پب جی ایک لعنت ہے جو ہمارے بچوں کو جسمانی واخلاقی اعتبار سے کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہے، بظاہر آپ کے بچے سسٹم پر گیم میں مصروف نظر آتے ہیں؛ لیکن آپ کو پتہ نہیں کہ تشدد ان کے رگ وریشہ میں پیوست ہوتا جارہا ہے، ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کمپیوٹر کے استعمال میں محتاط رکھیں، ویڈیو گیمز بچوں کی تربیت کے لیے سم قاتل ہیں، اس وقت ملک بھر میں بچوں میں جرائم کی شرح خوفناک حد تک بڑھتی جارہی ہے جو در اصل انہی گیمز کا نتیجہ ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کے لیے ویڈیو گیمز کے متبادل ذرائع تلاش کریں، ویڈیو گیمز پر مکمل امتناع کارگر ثابت نہیں ہوگا، بتدریج بچوں کا رخ دیگر سرگرمیوں کی جانب پھیرا جائے، ویڈیو گیمز کا سب سے زیادہ منفی اثر بچوں کے اخلاق پر پڑتا ہے؛ جب کہ دین اسلام میں اخلاق ہی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔