صبح رونے بیٹھے ہم  شام کر گئے 

حبیب بدر ندوی

صبح رونے بیٹھے ہم  شام کر گئے

جگر کے ساتھ کچھ ایسا کام کر گئے

 کس طرح اعتبار قائم ہو میرا؟

بہلا  کے دل،   زیر دام کر گئے

دوست بھی دشمن  لگتا ہے مجھے

ظالم جفا کر کے وہ کام کر گئے

پردا ہوا فاش، کچھ دور چلنے کے بعد

بہروپ کا کھیل تھا، جو سر شام کر گئے

وفا پہ اب بھی نہ یقین ہو تو کیا کریں

پروانہ کی مجلسوں میں،  ہم   نام کر گئے

اہل ہوس تو مست ہیں زاہد بے جاں بلب

 میخانہ کا اس طرح سے انتظام کر گئے.

رحم کیجئے خود ہی دل نوتواں پہ بدر

چین و  سکون  سب، وہ حرام کر گئے

تبصرے بند ہیں۔