صبح رونے بیٹھے ہم شام کر گئے
حبیب بدر ندوی
صبح رونے بیٹھے ہم شام کر گئے
جگر کے ساتھ کچھ ایسا کام کر گئے
…
کس طرح اعتبار قائم ہو میرا؟
بہلا کے دل، زیر دام کر گئے
…
دوست بھی دشمن لگتا ہے مجھے
ظالم جفا کر کے وہ کام کر گئے
…
پردا ہوا فاش، کچھ دور چلنے کے بعد
بہروپ کا کھیل تھا، جو سر شام کر گئے
…
وفا پہ اب بھی نہ یقین ہو تو کیا کریں
پروانہ کی مجلسوں میں، ہم نام کر گئے
…
اہل ہوس تو مست ہیں زاہد بے جاں بلب
میخانہ کا اس طرح سے انتظام کر گئے.
…
رحم کیجئے خود ہی دل نوتواں پہ بدر
چین و سکون سب، وہ حرام کر گئے
تبصرے بند ہیں۔