علما اور انگریزی زبان وتعلیم سے متعلق ان کا موقف: ایک مطالعہ

پروفیسر وارث مظہری

۱۸۵۷کی جنگ کی ناکامی کا بطور خاص روایتی علما کے ذہنوں پر جو اثر مرتب ہوا، اس نے انھیں انگریز قوم اور انگریزی حکومت کے تعلق سے شدید نفسیاتی ردّعمل میں مبتلا کردیا۔ یورپ کے راستے سے آنے والی ہر چیز علما کے لیے باعث نفرت بن گئی چونکہ شروع سے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی قیادت علما کے ہاتھوں میں رہی، اس لیے ایسے امور و معاملات میں جن کا تعلق تحفظ دین و عقائد سے ہو، عوام کی اکثریت علما کے ساتھ رہی۔ چنانچہ علما نے جب انگریزی کی تعلیم کی مخالفت کی تو عوام نے ان کا ساتھ دیا۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ علما بالکلیہ انگریزی زبان کی تعلیم کے مخالف کبھی نہیں رہے، بعض شرائط کے ساتھ ان کے جائز ہونے کا انھوں نے بار بار اظہار و اعلان کیا۔ تاہم ان کا ذہن مجموعی طور پر یہی بنا رہا کہ انگریزی پڑھنا اپنے دین و عقائد کی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے مسمار کرنا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں :

                ’’ہر وہ چیز جو اس قوم (انگریز) کی طرف منسوب تھی فطرتاً اس سے مسلمان بھڑکتے تھے، بلکہ چڑھتے تھے۔ انگریزی مدارس اور ان مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا۔ اس کے تصور سے بھی وہ لرزہ براندام ہوجاتے تھے۔ ’’جو انگریزی پڑھے گا وہ کافر ہوجائے گا‘‘، مولویوں کی طرف سے اس تکفیری لطیفے کو مسخروں نے جو منسوب کررکھا ہے۔ بجائے خود افترا و بہتان کی یہ جتنی بھی شرمناک مثال ہو، لیکن اس کا شاید انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی آبادیوں کی فضا کچھ اس قسم کی صدائوں سے معمور ضرور تھی۔ کس نے فتویٰ دیا؟ کب دیا؟ ان سوالوں سے بے تعلق ہوکر کچھ کہنے والے اس قسم کی باتیں کہہ رہے تھے اور اسی نوعیت کے چرچے عموماً پھیلے ہوئے تھے‘‘۔(۱)

                حقیقت یہی ہے کہ علما نے (کچھ استثنا کے امکان کے ساتھ) انگریزی سیکھنے کے حرام و ممنوع ہونے کا فتویٰ کبھی نہیں دیا۔ تاہم یہ بات اتنی ہی صحیح ہے کہ انھوں نے آخری حد تک اس کی مخالفت کی اور عوام کو یہ تلقین کی کہ دین و عقائد پر انگریزی حکومت کے شب خون سے بچنے کے لیے اس سے دور رہنا ضروری ہے۔ علما کے اس رویّے کا اگر ہم تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان کا یہ رویّہ بے اساس اور ان کی یہ حساسیت بلا وجہ نہیں تھی۔ جیساکہ گزشتہ سطور میں اس کا تذکرہ آچکا ہے کہ۱۸۵۷ کی بغاوت کی ناکامی کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مساجد و مدارس کو مسمار و نذر آتش کردیا گیا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں علما کو پھانسی دے دی گئی تھی اور جلاوطن یا ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا۔ مشنریوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ان کی کوششوں سے بہت سے ہندو اور مسلمان اپنے مذہب کو ترک کرکے عیسائیت کو اختیار کرتے جارہے تھے۔ خود عیسائی مبشرین اور سیاست دانوں کی طرف سے اس تعلق سے فخریہ بیانات شائع ہورہے تھے اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کے عزائم کا اظہار کیا جارہا تھا۔ جدید تعلیمی اداروں میں تبدیلی مذہب کے واقعات پیش آنے لگے۔ جس سے پریشان ہونا فطری بات تھی۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی تعلیم اور عیسائیت کی تبلیغ ایک حد تک لازم و ملزوم ہوکر رہ گئے تھے۔

مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی اپنے ایک خطبے (۳۶۸۱) میں کہتے ہیں :

 ’’ہندوستان میں یورپین علوم کا جس قدر چرچا بڑھتا جاتا ہے۔ اسی قدر وہ ہمارے تہذیب و تمدن اور ہمارے اصول مذہبی سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ مذہبی (عیسائی) اصول ہی ہماری تہذیب و تمدن کا ماخذ ہیں۔ ہندوستان میں تبلیغ مسیحیت کو جو کامیابی ہورہی ہے، اس میں شبہ کی گنجائش نہیں اور اس سے ہر عیسائی کو خوش ہونا چاہئے‘‘۔(۲)

                سرسید احمد خاں انگریزی زبان کے سب سے بڑے حامی اور انگریزی تہذیب و ثقافت کے سب سے بڑے دل دادہ تھے۔ ان کی کوششوں کا اہم محور انگریزی باجدید علوم و ثقافت کی مسلمانوں میں ترویج تھی جسے وہ قوم کی بقا و خوش حالی کے لیے ضروری تصور کرتے تھے، وہ بھی یہ بات لکھنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ:

 ’’مسلمانوں کا یہ خیال عام تھا کہ انگریز آہستہ آہستہ انھیں عیسائی بنانا چاہتے ہیں اور ان کے اس شبہ کے لیے قوی بنیادیں موجود تھیں۔ یہ درست ہے کہ انگریزوں نے اپنے ابتدائی زمانے میں اس طرح کی مداخلت کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ عیسائی مبلغین، پادری اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے مامور ہوئے اور انگریزی حکومت کی انھیں حمایت حاصل ہوئ۔(۳)

                انگریزی زبان اور تعلیم سے نفرت کا اندازہ ڈپٹی نذیر احمد کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ان کے والد کسی بھی صورت میں ان کے انگریزی پڑھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ دہلی کالج کے پرنسپل نے اس تعلق سے انھیں رضامند کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اس بیٹے، نذیر احمد دہلوی کا مرجانا منظور، اس کا بھیک مانگنا قبول مگر انگریزی پڑھانا گوارہ نہیں۔ (۴)

                وقتاً فوقتاً علما کی طرف سے ایسے فتاویٰ دئے جاتے رہے تھے جن میں فی نفسہٖ انگریزی پڑھنے کو مباح و جائز تصور کیا گیا تھا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان فتاویٰ کی زبان حد سے زیادہ تحفظ پسندانہ تھی۔ انگریزی سیکھنے کے لیے جو گنجائش نکالی گئی تھی وہ حالت اضطرار میں شریعت کی گنجائش کی مترادف تھی جس کی بنا پر (مثلاً جان بچانے کے لیے) قطعی محرمات بھی حلال ہوجاتی ہیں۔ انگریزی سیکھنے سے متعلق سب سے پہلا باضابطہ فتوی شاہ ولی اللہ دہلوی کے وارث شاہ عبدالعزیز نے  ۱۸۰۳دیا تھا۔ اس کی زبان صاف ہے اور اس میں تحفظ پسندی کی وہ شدت نہیں پائی جاتی جو بعد کے علما مثلاً مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہ کے یہاں پائی جاتی ہے:

 ’’انگریزی کو اس لیے پڑھنا کہ انسان کتابیں پڑھ سکے، خط لکھ سکے اور الفاظ کے مخفی معنوں کو معلوم کرسکے، جائز ہے۔ کیونکہ حضرت زید ابن ثابت نے رسول کریم کے حکم سے یہود و نصاریٰ کی زبان اور لغت پڑھی تھی تاکہ وہ ان خطوط کا جواب لکھ سکیں جو رسول کریمؐ کو یہود و نصاریٰ کی طرف سے آتے تھے۔ لیکن اگر کوئی شخص انگریزی زبان کو اس لیے پڑھتا ہے کہ اس سے عیش و عشرت حاصل ہو یا انگریزوں کا تقرب اور خوش نودی حاصل ہو تو یہ حرمت و کراہت میں داخل ہے‘‘۔(۵)

                اس کے مقابلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کے فتویٰ زبان ملاحظہ فرمائیں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ مولانا تھانوی اسے جائز سمجھتے ہوئے اس کو سیکھنے کی دوسروں کو اجازت دینے کے روادار نہ تھے:’’انگریزی مثل اور زبانوں کے ایک مباح زبان ہے‘‘۔اس اطلاقی حکم کے بعد وہ آگے لکھتے ہیں: ’’مگر تین عوارض سے اس میں خرابی آجاتی ہے۔ اول بعض علوم اس میں ایسے ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں اور (چونکہ لوگوں کی) شریعت سے واقفیت نہیں ہوتی۔ اس لیے عقائد خلاف ہوجاتے ہیں۔ جس(کذا) میں سے بعض عقائد قریب کفر بلکہ کفر ہیں۔ دوسرے ایسے علوم کی بھی نوبت نہ آئے تو اکثر صحبت بددینوں کی رہتی ہے۔ ان کی بددینی کا اثر اس شخص پر آجاتا ہے۔ کبھی اعتقاداً جس کا حکم اوپر معلوم ہوچکا، کبھی عملاً جس سے نوبت فسق کی آجاتی ہے۔ تیسرے اگر صحبت بھی خراب نہ ہو یا وہ موثر نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور ہے کہ یہ نیت رہتی ہے کہ اس کو ذریعہ معاش بنائیں گے خواہ طریقہ معاش حلال ہو یا حرام۔۔۔ ان عوارض ثلاثہ کی وجہ سے گاہے کفر و الحاد تک، گاہے فسق ظاہری تک، گاہے صرف فسق باطنی تک نوبت پہنچ جاتی ہے‘‘۔(۶)

                مولانا تھانوی کی زبان میں تحفظ پسندی کی جو شدت اور احتیاط کی روش اختیار کرنے میں جو مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کی چنداں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ مولانا تھانوی کے وقت تک(یہ فتوی ۵جمادی الاولی ۱۳۲۶ ھ کوتحریر کیا گیا ہے) ملکی سیاست کا مطلع کافی صاف ہوچکا تھا۔ انگریزی حکومت کے تئیں نفرت و اجنبیت کی وہ شدت باقی نہیں رہ گئی تھی اور خود مسلمانوں میں انگریزی دانوں کا ایک طبقہ ابھر کر سامنے آرہا تھا جس میں مولانا محمد علی جوہر جیسے دین دار انگریزی داں بھی شامل تھے۔

                نسبتاً اپنی ایک بعد کی تحریر (۱۳۴۵ھ) میں مروجہ پردے کے مخالف ایک تجدد پسند مسلمان کے مضمون کی زد میں انھوں نے مذکورہ بالا فتویٰ کی زبان اور لہجے سے زیادہ شدید ترلہجہ اختیار کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کی رائے انگریزی کے حق میں اخیر تک شدت پسندانہ اور غیرمعتدل ہی رہی:

  ’’مضمون نگار میں اگر ایمان و انصاف کا کوئی حصّہ ہوتا تو وہ ان لوگوں کی رائے کی قدر کرتا جو انگریزی پڑھنے کو کفر کہتے تھے۔ کیونکہ واقعات نے ان کے خیالات کی صحت کو روز روشن کی طرح صحیح ثابت کردیا۔ آج جس قدر فتنے اسلام اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کررہے ہیں، سب انگریزی پڑھنے کے(کذا) برکات ہیں۔ ۔۔ ان بزرگوں کی رائے نہایت صحیح تھی جو انگریزی کو اسلام کے لیے خطرناک سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے بچنے کی رائے دیتے تھے‘‘۔(۷)

                حالانکہ ان کے پیش رو دیوبندی اکابرین: مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اورمولانا محمود حسن دیوبندی وغیرہ کا رویہ انگریزی کے تعلق سے ان کے مقابلے میں زیادہ لچک دار اور مثبت تھا۔ مولانا نانوتوی خود انگریزی سیکھنے کے خواہش مند تھے۔ لیکن عمر نے وفا نہ کی۔ مولانا مناظر حسن گیلانی کے بقول اگر یہ ضرورت پیش آجاتی تو دارالعلوم کی علمی تحریک کا رنگ یقینا کچھ اور ہوتا۔ مولانا نانوتوی پر ا نگریزی یا جدید تعلیم جس کا واسطہ انگریزی زبان تھی کی اہمیت پوری طرح واضح تھی۔ وہ اس سے بے اعتنائی کو قوم کے حق میں نقصان دہ تصوّر کرتے تھے۔ لیکن ان کی رائے تھی کہ دینی تعلیم کے ساتھ انگریزی تعلیم کو شامل نہ کیا جائے بلکہ مدارس کے طلبہ دینی تعلیم کے حصول کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوں۔ وہ دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد جدید تعلیم کے حصول کو فضلا ے مدارس کی تعلیم و صلاحیت کا تکملہ تصور کرتے تھے۔۱۲۹۰ھ کے جلسہ تقسیم انعام کے موقع پر انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا:’’اگر طلبہ مدرسہ ہذا مدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موید ہوگی”۔(۸)

  مولانا مناظر احسن گیلانی مولانا نانوتوی کے اس ارشاد پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اللہ اللہ ایک طرف اس زمانے میں مولویوں کا ایک طبقہ تھا۔ بلکہ ان کی اکثریت یہ باور کیے بیٹھی تھی کہ جو کچھ انھوں نے پڑھ لیا ہے، اس کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے جسے سیکھا اور پڑھا جائے۔ انھی مولویوں کے درمیان پکارنے والا پکار رہا ہے کہ مولویوں میں اپنے علمی کمالات میں جو مزید فروغ اور زیادہ وزن پیدا کرنا چاہتا ہے،اس کو چاہئے کہ یورپ کے جدید علوم و فنون کا مطالعہ کرے، ان کی علمی زبانوں کو سیکھے جو سرکاری مدارس میں سکھائی جاتی ہیں ‘‘۔(۹)

                ندوۃ العلماء وہ پہلی درسگاہ تھی جہاں پہلے پہل انگریزی زبان کو نصاب میں جگہ دی گئی۔ بانی ندوہ مولانا سید محمد علی مونگیری کا ذہن اس باب میں نہایت روشن تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریزی زبان کی تحصیل کے بغیر علما اسلام کی دعوت اور نمائندگی کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ ان کی نگاہ میں ایک ایسے طبقہ علما کی ضرورت تھی جو انگریزی میں اسلام کے تعارف کا ضروری لٹریچر تیار کرے۔ انگریزی زبان سیکھ کر یورپ کے ملکوں میں جاکر وہاں اسلام کی تبلیغ کی خدمت انجام دے۔(۱۰)وہ لکھتے ہیں :’’ تبلیغ اسلام کے لیے ضروری ہے کہ انگریزی زبان سیکھی جائے کیونکہ اب ان (اہل یورپ) کو غلبہ ہے اور مسلمان مغلوب ہیں اور غالب مغلوب کی زبان سیکھنے پر مجبور نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اگر مغلوب کو ان سے ضرورت پیش آئے تو بالضرور اسے غالب کی زبان سیکھنی ہوگی‘‘۔(۱۱)انگریزی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کے سب سے پُرجوش موید مولانا شبلی نعمانی تھے۔ ان کے ذہن میں ندوۃ العلماء کے تعلیمی نصاب و نظام تعلیم کا جو خاکہ تھا، وہ ایک جدید طرز کی اسلامی یونیورسٹی کا تھا جس میں اسلامی علوم اعلا درجے تک پڑھائے جائیں۔ جس میں یورپین علوم کا کافی بندوبست ہو اور جس کے تعلیم یافتہ انگریزی زبان میں وعظ اور مذہبی لکچرس دے سکیں ‘‘۔(۱۲)ان کے مقالات اور خطبات میں ان کے نظریات تعلیم کی جو تصویر سامنے آتی ہے،اگر صرف ندوہ میں بھی اس پر عمل کرلیاجاتا تو مدارس کے روایتی منظرنامے میں خوش گوار تبدیلی پیدا ہوچکی ہوتی۔ انھوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ اب نئے تعلیم یافتوں کی مذہبی واقفیت کا مدار انگریزی کی کتابوں اور اسلامی کتابوں کے ترجموں پر رہ جائے گا‘‘۔(۱۳)شبلی نے ۱۸۹۹ میں اپنے ذہنی خاکے کے مطابق، انگریزی زبان کو ندوہ کے نصاب میں داخل کرنے کی تجویز پیش کی۔ سید سلیمان ندوی کے بقول یہ وہ زمانہ تھا جب عام مسلمانوں کا انگریزی پڑھنا کفر نہیں رہا تھا لیکن علما کا انگریزی جاننا جرم عظیم سمجھا جاتا تھا۔ مولانا نے اس جرم کا ارتکاب کیا لیکن علما اس بدعت کو اپنانے کے لیے کسی بھی طرح خود کو آمادہ نہ کرسکے۔ (۱۴)البتہ مولانا شبلی کے اصرار پر۱۹۰۳ میں ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب کردی گئی۔

                بہرحال اوپر کی بحث کوپیش نظررکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ علما انگریزی زبان وتعلیم کے مخالف تھے اور اس وجہ سے قوم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی، صریح طورپرغلط ہے۔ لیکن  اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض علما کی جانب سے جس شدت کے ساتھ انگریزی زبان وتعلیم کی مخالفت کی گئی وہ بے وجہ نہ ہونے کے باوجود نقصان دہ ثابت ہوئی۔عوام کا مذہبی طبقہ اپنی نسل کوجدید تعلیم اورمغربی زبان کے حصول سے دوررکھنا مذہبی تقاضا تصورکرتا رہا جس کی قوم کوقیمت چکانی پڑی۔موجودہ ضرورت یہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی زبان کی تعلیم کوایک سطح تک لازمی قراردیا جائے۔ متعدد مدارس نے اس طرف پیش قدمی کی ہے جس کے خوش گوار نتائج کی توقع ہے۔

حواشی وحوالہ جات

(۱)سوانح قاسمی،ج،۲،۲۸۱۔۲۸۲

(۲) خطبات گارسان دتاسی، مترجم محمد حمیداللہ و دیگر، انجمن ترقی اردو، پاکستان کراچی، ۹۷۹۱، ص:۸۷۳

(۳)اسباب بغاوت ہند ۶۷۹۱، ص: ۱۲۱-۳۲۱

(۴)افتخار احمد صدیقی، مولوی نذیر احمد دہلوی- احوال و آثار، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۷۹۱، ص: ۴۵

(۵)فتاویٰ عزیزی، مطبع مجتبائی، دہلی، ۱۴۳۱ھ، ص: ۵۸۱-۶۸۱

(۶)امداد الفتاویٰ مرتبہ مرتبہ مولانا محمد شفیع، مکتبہ دارالعلوم کراچی ۸۲۴۱ھ، ص: ۷۵۱-۸۵۱

(۷)مولانا اشرف علی تھانوی: اسلام میں پردے کی حقیقت، فرید بک ڈپو، نئی دہلی، تاریخ اشاعت ندارد، ص: ۳۴

(۸)محبوب رضوی: ۱ج،ص،۱۷۳

(۹)سوانح قاسمی: ص ۲، ۲۸۲ مکتبہ دارالعلوم دیوبند، سنہ ندارد

(۱۰)سیرت مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء، ۴۸۹۱، مجلس نشریات اسلام کراچی، ص: ۴۹۱-۵۹۱

(۱۱)ایضاً

(۱۲)خطبات شبلی،ص،۱۰۱

(۱۳)حیات شبلی: دارالمصنّفین اعظم گڑھ، ۶۰۰۲ص،۶۷

(۱۴)ایضاً، ص: ۷۴۳

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔