کیا مذہبی اور ثقافتی تہوار ایک چیز ہیں؟

ادریس آزاد

لگ بھگ ہر مذہبی تہوار میں ثقافتی تہوار والی تمام تر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اینتھروپولوجی کے نزدیک تو مذہبی اور ثقافتی تہوار دراصل ایک ہی چیز ہیں۔ بلکہ مذہبی تہوار قدرے زیادہ بڑا ثقافتی تہوار ہوتاہے کہ اس پر عمل کرنے والوں میں مذہبی مقاصد کے حصول کے طلبگاروں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں قدرے گرم دماغ کے نوجوانوں اور بعض اوقات تو شادی میں ناکام ہوجانے والے بزرگوں میں بھی ایک روایت پائی جاتی ہے کہ عیدِ قرباں سے لے کر دوبارہ عیدِ قربان تک پیش آنے والے تمام مذہبی تہواروں کو ملعون جبکہ ثقافتی تہواروں کو احسن قرار دیاجائے۔

سچ یہ ہےکہ مذہبی عوامل، تقریبات اورتہوار اپنی نیکیاں اور ثواب ضرور رکھتے ہونگے لیکن یہ تو فقط بندے اور خدا کا ذاتی معاملہ ہے جس سے ہم تُم واقف نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک ان تہواروں کی ظاہری صورت ہے تو کہیں بھی اس بات سے منع نہیں کیا گیا کہ انہیں ثقافتی خوبصورتی کے ساتھ  منایا جائے۔

رمضان پر بہت اعتراضات ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں پرویز صاحب مرحوم کی ویڈیو کیسٹ، ’’ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتاہے‘‘ دیکھ کر ہم بھی پرویز صاحب کے ساتھ رونے لگ جاتے تھے۔ آج بہت مدت بعد سمجھ آتی ہے کہ رمضان ہو یا عیدالفطر یہ ہمارے جینے کے بہانے ہیں۔

ہم ایک تہذیب ہیں۔ دنیا کے نقشے پر ہم مسلم تہذیب کہلاتے ہیں۔ تہذیب بغیر ثقافت (کلچر) کے ممکن ہی نہیں۔ اگر مذہبی عوامل کو ثقافتی رنگ نہیں دیا جائے گا تو وہ تہذیب کا حصہ بننے کے اہل نہیں ہوسکتے۔ بایں ہمہ کسی تہذیب کو اسلامی تہذیب نہیں کہا جاسکے گا۔

ایک دنیا مانتی ہے کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ ایک تہذیب کا نام ہے۔ جیسے آج ایک دنیا مانتی ہے کہ امریکی تہذیب ایک تہذیب کا نام ہے۔ امریکی تہذیب بھی تو متنوع قسم کی ثقافتوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔ اسلامی تہذیب بھی  متنوع ثقافتوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔

عرب تہذیب میں اسلام سے قبل منائی جانے والی عیدیں، آج اسلامی تہذیب کے تہواروں میں سے ہیں۔ رمضان بھی پرانا ہے۔ محرّم بھی پرانا ہے۔ قربانی والی عید بھی پرانی ہے۔ اسلام نے تو فقط یہ کیا کہ اچھی باتیں رہنے دیں اور بری رسمیں ختم کردیں۔
اسی طرح باقی علاقوں کی اچھی باتیں بھی باقی رکھیں، اور جو بری تھیں وہ ختم کردیں۔ اسی کو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا جاتارہاہے۔ معروف عمل کون سا عمل ہے؟ ’’وہ عمل جو آپ کے لوگ خوش دلی سے قبول کرتے ہوں‘‘۔ معروف کے لفظی معنی ہی یہی ہیں ’’جو جانا پہچانا ہو‘‘۔

ہم جہیز کو خوشدلی سے قبول نہیں کرتے چنانچہ یہ رسم جس بھی قوم سے مسلمانوں میں داخل ہوئی ہوگی، بری ہی کہلائے گی۔ بائی دہ وے، ڈاوری اور دہیج تو سِرے سے ہی ہیں عجمی رسومات۔ اسلام نے جب یہ کِیا کہ جن علاقوں تک پھیل گیا، وہاں کی اچھی رسمیں اور ثقافتی تہواروں کو بھی باقی رہنے دیا اور جو بری رسمیں تھیں انہیں ختم کیا تو  ایک مشترکہ اسلامی تہذیب قائم ہوگئی۔ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی تو تھا کہ ’’اچھی بات مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں سے ملے، لے لو‘‘۔
ہم پاکستانی اور ہندوستانی اپنے رنگ میں اسلامی تہوار مناتے ہیں۔ عرب اپنے رنگ میں مناتے ہیں۔ ایرانی اپنے رنگ میں مناتے ہیں تو مشرق بعید کے لوگ اپنے رنگ میں مناتے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی کا بھی رنگ اسلامی شریعت کی رُو سے برا ہونا چاہیے۔

خیر! رمضان جہاں اللہ کو راضی کرنے کے لیے ایک نہایت مذہبی پہلُو کا حامل ہے وہاں یہ ایک تہوار کا نام بھی ہے۔ یہ ایک مسلسل تہوار ہے۔ جیسے مسیحیت میں پچیس دسمبر سے شروع ہوکر نئے سال کے پہلے ہفتے تک مسلسل تہوار کی سی کیفیت رہتی ہے، رمضان کا مہینہ مسلم اُمہ میں ایک مسلسل تہوار کی سی ثقافتی حیثیت رکھتاہے۔

یہ کہنا کہ ’’غریبوں کے پاس کھانے کو نہیں اور مسلمان افطاری میں اتنا کھانا ضائع کرتے ہیں‘‘، خلاف ِ اُصول ہے۔ اگر غریبوں کے پاس کھانے کو نہ ہو تو کسی ثقافتی تہوار میں کھانا ضائع کرنا بھی  اتنا ہی برا ہوگا جتنا کہ کسی مذہبی تہوار میں ہوسکتاہے۔ سب سے پہلے ، ساری قوم مل کر غریبوں کا کچھ سوچے اور پھر اپنے تہوار منائے۔ لیکن اگر وہ ساتھ کے ساتھ اپنے ثقافتی تہوار مناتے آرہے ہیں تو رمضان بھی انہیں بھرپور طریقے سے منانا چاہیے۔

اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جب دل یہ تسلیم کرتاہو کہ خدا کا وجود ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ رمضان کے مذہبی مقاصد بھی مدنظر ہونگے اور زیادہ بہتر رمضان منایا جائے گا لیکن اگر کسی کے دل میں یہ خیال موجود ہے کہ خدا نہیں ہے تو پھر بھی اسے رمضان منانا چاہیے کیونکہ یہ ہمارا مشترکہ تہذیبی تہوار بھی ہے۔

اس آیت کے الفاظ کہ ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے‘‘ ایک لحاظ سے اسی بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہ عمل ثقافتی پہلُو بھی رکھتاہے۔

مثلاً ایک خالص ثقافتی تہوار ہے ۔ مثلاً بیساکھی کا میلہ ہے۔ اب اس میلے میں شرکت کرنے والوں کی اپنی اپنی قسمیں ہونگی۔ کچھ لوگ تو وہ بھی ہونگے جو کبڈی کے میدان میں زور آزمائی کرینگے۔ کسی ثقافتی تہوار میں پائی جانے والی ساری چیزیں کسی مذہبی تہوار میں بھی پائی جائیں تو اسے کیونکر غیر ثقافتی مانا یا کہا جاسکتاہے؟

روزہ رکھنا۔ سحری کے وقت کھانا، کھانا۔ پھر کچھ نہ کھانا۔ شام کو ایک اہتمام کے ساتھ کھانا۔ یکدم روٹین کی زندگی میں اتنی بڑی بڑی تبدیلیاں کرلینا۔ مل کر کھانا۔ سحری کے وقت ہنسنا اور افطاری کے وقت غصے کا مظاہرہ کرنا۔ بچوں کا روزہ رکھنا۔ افطاری کے بعد ایک خاص قسم کی خوشی کا مظاہرہ کرنا۔ گھومنے نکلنا۔ تراویح پڑھنے جانا۔ مسجد میں سب سے ملنا۔ روزے کی باتیں کرنا۔ سحری کے سامان کی باتیں کرنا۔ آدھی رات کو اُٹھ کر بازار دہی لینے کے لیے جانا۔ چھوٹوں بڑوں کا ایک خاص قسم کی گہماگہمی کے عالم میں رہنا۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کیا ہے؟ یہ سب ’’مَنانا‘‘ ہی تو ہے۔ اور منائے تو تہوار جاتے ہیں۔ اسی طرح عید کے بارے میں کہا جاسکتاہے۔ اسی طرح دیگر مذہبی تہواروں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جو رمضان کو یا عیدِ قربان کو اپنے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں، ان تہواروں کے ثقافتی پہلو کی طرف نظر نہیں کرتے، اس لیے کُڑھتے ہیں۔

زندگی شکایتوں سے مشکل ہوجاتی ہے۔ جتنی شکایتیں بڑھتی جاتی ہیں زندگی اور زیادہ مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہم جب یہ شکایات کا بھنڈار کھول بیٹھتے ہیں تو دارصل ہم چیں بہ چیں ہورہے ہوتے ہیں، ہم ڈپریشن کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں اور وہ بھی خواہ مخواہ یعنی اپنی ہی کسی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے۔

کُڑھنا بھی تو نفسیاتی بیماری ہی ہے بلکہ سیدھی سیدھی اعصابی کمزوری ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں فقط اپنی رائے بدل کر ہم خوش رہ سکتے ہیں۔ ہم رمضان پر کڑھنا چاہیں تو کم باتیں نہیں ہیں کُڑھنے کے لیے لیکن اگر ہم اسی پورے مہینے کو اپنے لیے خوبصورت ترین وقت بنا کر جینا چاہیں تو بھی رمضان کی بانہیں کھلی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔