سائنس، فلسفہ اور مذہب (قسط چہارم)

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

سائنس، ٹیکنالوجی  اورفلسفہ  انسانی  جسم سے نکلتی ہوئی روح کو روک نہیں سکتے،نہ ہی اسے واپس لوٹاسکتےہیں یعنی کہ زندگی کی تاریک ہوتی ہوئی شب کو سحر میں تبدیل نہیں کرسکتے تو کس طرح جنوں، فرشتوں،عالم برزخ، جنت دوزخ، اورانبیاء و رسل اورسب سے بڑھ کر رب کائنات جو بدن اورروح  اوران تمام کا خالق ہے اس کے وجود کو سمجھ سکتے ہیں۔یااسفا!

گزشتہ سے پیوستہ

حقیقتِ روح

آئیں  یہاں سب سے پہلے روح کے بارے میں چند سوالات اٹھاتے ہیں جنہیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے دریافت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پھر قرآن وحدیث سے اس روح کی حقیقت  کے بارے میں کچھ کلام کیا جائے گا۔

روح کے بارے میں سوالات

محض سائنس سے رہنمائی کی بات چھوڑیئے اگر اس سلسلے میں سائنس فلسفہ سے بھی تعاون حاصل کرلے تو بھی یہ صرف ایک انسانی وجود اوراس کی روح سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے کجاء یہ کہ خالقِ روح کے متعلق بحث کریں۔ مثلاً:

1۔ روح کیاہے؟

2۔ روح اگر حقیقت ہے تو اس کا وجود کس سے بنا ہے؟

3۔ کیا روح قابل مشاہدہ ہے؟

 4۔انسان کے جسم میں روح کہاں ہے؟

5۔ مرجانے کے بعد بھی کیا روح ہوگی؟اور کہاں  رہے گی؟

6۔ روح جسم کے کس حصہ سے زیادہ قریب ہے اور کس حصے سے دور ہے؟

7۔ کیا جسم کی طرح روح بھی ناپاک اورگندی ہوتی ہے اگر ہے تو اس کی پاکی کیسے حاصل ہوگی؟

8۔ جسم کے کسی حصہ کے کٹ جانے یاتلف ہوجانے کی صورت میں کیا روح میں بھی کچھ کمی واقع ہوتی ہے یانہیں؟

9۔ کیاانسان کے وجود کی تخلیق سے قبل روح تھی؟تھی تو کہاں؟

10۔ اور کیا سائنس اورفلسفہ اس کے متعلق ہمیں حقیقت سے آشکار کرسکتے ہیں؟

یہ اوراس نوعیت کے دیگر سوالات جب سائنس اورفلسفہ  کے سامنے پیش کیے جائیں تو یہ یہ دونوں اس نوعیت کے جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اگرسائنس کی جانب دیکھاجائے تواگرچہ سائنس وٹیکنالوجی نے ہمارے جسم پر توکسی حد تک تصرف حاصل کرلیا ہے لیکن روح نہ کبھی اس کے تصرف میں آئی ہے اورنہ آئے گی۔دراصل سائنس علمی ترکیب سے کسی حد تک ظاہری شکل وہیئت میں   مادہ کا قالب تو بناسکتی ہے لیکن زندگی قائم رکھنے والی چیز بنانے سے قاصر ہے۔اسی طرح اس روح کونکلنے سے روکنے میں بھی بے بس ہے۔ بس وہ اتنا ہی کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ  زندگی عناصرمیں ترتیب کا نام ہے جب یہ نظم ٹوٹ جائے یہ ترتیب بکھرجائے تو یہ انسان کا اختتام ہے۔بقول  چکبت برج نارائن

زندگی کیا  ہے عناصرمیں ظہورترتیب

موت کیاہے انہی اجزا کاپریشاں ہونا

اس وقت ہمارے اذہان میں یہ شعرگونجتاہوا محسوس ہوگا:

معلوم   ہوئی   نہ    کچھ   حقیقت

میں کیا ہوں کون ہوں کدھرہوں

 (اثر)

  اگر انسان اپنی تخلیق اور اپنی ذات پر کماحقہ سائنس اورفلسفہ کی مدد سے واقفیت و آگاہی حاصل نہیں کرسکتا ہے اور اپنے جسم سے نکلتی ہوئی روح کو روک نہیں سکتا،نہ ہی اسے واپس لوٹاسکتا ہے یعنی کہ اپنی زندگی کی تاریک ہوتی ہوئی شب کو سحر میں تبدیل نہیں کرسکتا تو کس طرح جنوں، فرشتوں،عالم برزخ، جنت دوزخ، اورانبیاء و رسل اورسب سے بڑھ کر رب کائنات جو اس کے بدن اورروح کا خالق ہے اس کے وجود کو سمجھ سکتا ہے۔اس پرہر عقلِ سلیم رکھنے والا صرف حیرت وافسوس سے یہی کہہ سکتاہے!بقول اقبالؒ

ڈھونڈنے والاستاروں  کی  گزرگاہوں کا

اپنے   افکار   کی   دنیا   میں   سفر کر   نہ  سکا

اپنی   حکمت   کے خم   و پیچ  میں الجھاایسا

آج   تک   فیصلۂ   نفع   و  ضرر   کر   نہ   سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کوگرفتار کیا

زندگی کی  شب  تاریک  کو سحر کرنہ سکا

روح کی وضاحت قرآن سے:

روح کے متعلق جاننے کے لیے اگرہم مذہب (اسلام) کی طرف رجوع کریں تو وہ اس کی حقیقت  سے کچھ  یوں پردہ اٹھاتا ہے کہ یہ "امرِ ربی” یعنی  خدا کا حکم ہے۔ حکم ایک قوتِ نافذہ ہے  جس کا نہ جسم ہے، نہ لمبائی، نہ چوڑائی، نہ اونچائی ہے  اورنہ ہی کوئی شکل وصورت۔ قرآن مجید میں ہے: قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي(الاسراء:85) (آپ فرمادیجئے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے۔)اس  آیہ مبارکہ کی وضاحت میں امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

"روح اللہ کے جملہ کاموں میں سے ایک کام ہے اور عالم امر سے ہے۔” نیز فرماتے ہیں: "اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اورحاکم ہونا۔”( نسخۂ کیمیاء اردو ترجمہ کیمیائے سعادت، امام غزالی صفحہ 17)

اس آیہ مبارکہ کے ضمن میں ڈاکٹرحامد حسن بلگرامی اس کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں :

 ’’اپنی روح کواس حکمِ الٰہی سے متعلق رکھو، روح کی ماہیت،اسرار تم پر خود تمہاری استعداد اورعمل کے مطابق کھلتے جائیں گے۔یہ بتانے کی چیز نہیں پانے کی چیز ہے امر سے آمر کی شان کا پتہ چلتاہے۔آمر کی شان یہ ہے کہ جہاں چاہتا ہے اپنا امر ظاہر کرتاہے، وحی سے جس قدرباقی رکھنا چاہتاہے اس کا خود محافظ بن جاتاہے جو حکم وقتی ضرورت کے لیے خاص ہو اسے نسخ بھی کردیتاہے اورمحو بھی کردیتاہے۔‘‘( فیوض القرآن، ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی)

ظاہری دنیامیں اس کی ایک مثال یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ پاکستانی کرنسی کے 1000 روپے کے نوٹ میں جو قوت خرید ہے وہ حکومت پاکستان کےحکم سے ہے۔حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ جب چاہے وہ اسے منسوخ کردے۔ اوراگر آج یہ حکم واپس لے لیا جائے تو وہ نوٹ آپ کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود بے وقعت  اورمحض ردی کا ایک ٹکڑاہوگا اور اس کی قطعاً کوئی قیمت(Market Value)  نہ ہوگی۔جیسا کہ ماضی میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعدحکومت پاکستان نے اس وقت کی تمام کرنسی کو منسوخ کردیاتھا۔ جس کے بعد وہ نوٹ ردی کے ٹکڑے کی حیثیت رکھتے تھے۔

یہی حال انسان کی روح کے بارے میں جسم اگر صحیح سالم ہی کیوں نہ ہو لیکن حکمنامہ واپس لے لیاگیا تو پھر یہ بے جان لاشہ میں تبدیل ہوجائے گا۔

” روح جب جسم سے کنارہ کش ہوتی ہے تو جسم کے ذرات گل سڑکر منتشر ہوجاتے ہیں لیکن جسم سے باہر نکلنے کے عین مابعد روح میں کثافت باقی رہتی ہے اس لئے اس کا اول مقام اعراف کہلاتا ہے۔ جہاں قدرت کی طرف سے کثافتوں کودورکرنے کا موقعہ دیاجاتاہے اورجوارواح ان کثافتوں سے پاک صاف ہوکرجاتی ہیں وہ براہ راست مقام اعلیٰ پر پہنچ جاتی ہیں۔”(اعجوبہ اسرار، نقی محمد خان خورجوی:ص87)

نیز اس روح کا جسم سے نکلنے کے بعد اپنے تعلق والوں (اہل قرابت، متعلقین) سے تعلق رہتاہے۔وہ ان کے بارے میں فکرمند بھی ہوتی ہے۔

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ط قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۔ بِمَا غَفَرَلِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُکْرَمِيْنَ۔

حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا،بولا کاش میری قوم کومعلوم ہوجاتا(کہ مجھے ایمان کا کیاحسین صلہ ملا) کہ میرے رب نے مجھے بخش دیااورمجھے عزت دی والوں میں شامل فرمایا(مومن زندگی میں بھی لوگوں کا خیرخواہ ہوتاہے اپنے رب پاس پہنچ کر اس کی خیرخواہی اوربڑھ جاتی ہے۔) (سورہ یٰس:26،27،ترجمہ فیوض القرآن،ڈاکٹرسید حامد حسن بلگرامی)

جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان(نیکوکارمومن)  اپنے متعلقین کی نجات اورہدایت کامتمنی ہوتاہے۔

 اس تمام کے بعد بھی قرآن نے یہ وضاحت کی ہے:وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا :تم لوگوں کو توبہت تھوڑا سا علم دیاگیاہے(الاسراء:85) یعنی  روح کے متعلق تمہیں انتہائی کم علم دیاگیا۔

سائنس کی  علمی بے وقعتی

سائنس کی کم فہمی، کم علمی اورکم مائیگی بلکہ درماندگی کی حالت تو یہ ہو اور اس کے باوجود دعوے ایسے بلند وبانگ اورخلاف حقیقت جیسا کہ  theory of everything, everything is possible, we can do everything اور اس فرعونیت کے بعد بعض سائنس دانوں کا یہ کہنا کہ”سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا سب سے زیادہ الم ناک اور بدترین ڈھونگ تھا”۔(یااسفا)

ان حقائق کا ادراک اور ان کے متعلق علم ہمیں صرف وحی ربانی، کلام الٰہی اورکلام نبوی ﷺ سے حاصل ہوسکتا ہے، وحی ہی معلم عقل ہے اورعقل کو وحی کے تابع ہی رہناچاہئے کیونکہ وحی کے ذریعے جو علوم ہمیں حاصل ہوتے ہیں ان کا آغاز ہی ان علوم(فلسفہ وسائنس) کی انتہائی بےبسی، بے کسی، درماندگی اورعجز سے ہوتا ہے۔نیزیہ بھی ذہن سے محونہ ہونا چاہئے کہ ابوالحکم سے ابوجہل کاسفر صرف اسی عقل کو وحی پر غالب کرنے کا نتیجہ ہے۔(ابوجہل کی کنیت پہلے ابوالحکم تھی لیکن وحی کے انکار کی وجہ سے اس کی کنیت ابوجہل مشہور ہوگئی)۔عقل انسان کو نفس پرستی کی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ بذات خود انسان کی خودی (نفس) کی  قید سے باہر نہیں نکل سکتی۔ ایسی بے شعور عقل انسان کو خدا تک کیسے لے جاسکتی ہے؟ شاعرِ تصوف  جناب خواجہ میر درد صاحب عقل کی اس درماندگی کو کیا ہی بہترین پیرائے میں بیان فرماتے ہیں:

باہر   نہ   آسکی  تو  قید   خودی   سے    اپنی

اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا

(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔