اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیان کر لیں

 جمالؔ کاکوی

اجازت دے کہ اپنی داستانِ غم بیان کر لیں
پھپھولے دل کے پھوڑے بزم میں آہ وفغاں کر لیں

میرے ہر شعر میں ،ہر شعر میں ہو غم کا افسانہ
قلم جو ساتھ دے دے زخم دل سارے عیاں کر لیں

بنائے نقش وہ قرطاس پہ خو ں بار آنسو سے
کھلائے پھول بوٹے ہر ورق کو گلستاں کر لیں

نہ صحرا میں گزارا ہو نہ بستی میں ٹھکانہ ہو
اگر تقلید میری دو گھڑی مجنوں میاں کر لیں

حرم اک اور بن جائے رخِ کعبہ بدل جائے
کبھی واعظ بھی اک سجدہ اگرسوئے بتاں کر لیں

سنور جائے یہ دنیااہلِ دنیا کے رویے سے
زمیں پر مہرباں ہو کر فلک کو مہرباں کر لیں

بہاروں میں بھی خطرہ ہے گلستاں کے اجڑنے کا
چمن کی فکر، سنجیدہ چمن کے باغباں کر لیں

ہمارے نونہالوں پریہ کلچر کا دباؤ ہے
پھریں آوارہ اور اپنے جسم کو عریاں کرلیں

ذہن بیدار ہوجمالؔ قلب و نظر بھی روشن
فکرصالح سے طلوع اک نیئرِ تاباں کر لیں

تبصرے بند ہیں۔