اعلا تعلیمی ادارو ں کا قاتل کون: ملک کو جواب چاہیے؟

صفدر امام قادری

نریندر مودی کی قیادت میں ۲۰۱۴ء میں جیسے ہی حکومت کی تیاریاں شروع ہوئیں تو لوگوں کے ذہن میں سب سے بڑے خدشات فرقہ واریت سے متعلق تھے۔ سب اس بات پر فکر مند تھے کہ یہ لوگ قومی شیرازے کے سکون اور امن کو ضائع کردیں گے مگر خاکی نقطۂ نظر کے لوگ ملک کی معیشت اور پھر تعلیمی نظام کو خاک میں ملا کر رکھ دیں گے، اس کے بارے میں زیادہ اندیشے نہیں پیش کیے گئے تھے۔ مگر اب پونے پانچ برسوں کے بعد جو نتائج سامنے آرہے ہیں ان سے یہ بات اظہر من الشمس ہو رہی ہے کہ صرف فرقہ واریت کی بنیاد پر یہ حکومت ملک کو تباہ و برباد کرنے کی ذمے دار نہیں بننا چاہتی بلکہ زوال اور زیاں کے کچھ اور منصوبے ہیں۔ خاص طور سے معیشت اور تعلیم کے شعبے کو ملیامیٹ کیے بغیر ہندستان کو جہنم زار بنانے کی کوششوں میں انھیں کامیابی کیسے ملے گی؟

نریندر مودی کی ڈگریوں کی بات چھوڑ دیجیے اصلی ہیں یا نقلی، ان پر کیسے بحث ہوگی مگر انھوں نے پہلا وزیر تعلیم اس شخص کو منتخب کیا جس کی ڈگریوں کے بارے میں نریندر مودی سے بھی زیادہ سوالات قائم ہیں۔ دسویں جماعت سے کم تعلیم یافتہ کو تو آج چپراسی بھی بننے نہیں دیا جاتا مگر چمچماتے چہرے کو کسی نامعلوم ارادے اور منصوبے کے تحت ہندستان کے تعلیمی نظام کی سربراہی سونپی گئی۔ اس بات کو مت یاد کیجیے کہ جواہر لال نہرونے ابوالکلام آزاد کو منتخب کیا کہ ہندستان کے تعلیمی نظام کی بنیاد طَے کریں۔ ایسے میں پارٹی سربراہ کی تقریروں سے ہمیں اتنا بھی حوصلہ پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی تعلیمی استعداد کے بارے میں پتا لگائیں کہ حقیقی لیاقت اسکول کی کس سطح کی ہے۔ صورت شکل سے دوسرے وزیر تعلیم بھی نریندر مودی کے دور میں اچھے خاصے متاثر کن نظر آئے مگر آتش کے لفظوں میں ’’جو چیرا تو اک قطرۂ خوں بھی نہ نکلا‘‘ کا حال سامنے آیا۔ گذشتہ پانچ برسوں میں دونوں وزراے تعلیم اور ان کے نائبین نے نہ جانے کن لوگوں کے مشورے سے طرح طرح کی پالیسیاں بنائیں جن کے تباہ کن نتائج آنے شرو ع ہوگئے ہیں اور نہ جانے قوم کو اور کیا کیا بھگتنا پڑے گا۔

بھاجپا کی تعلیم مخالف مہم میں کُمک کے طور پر خود وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے مختلف افراد بالخصوص اندریش کمار اپنی مختلف انداز کی کارکردگیاں پیش کرتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کی خصوصی توجہ شعبۂ تعلیم کی طرف ان کے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا۔ انسانی تاریخ میں کتنی مثالیں موجود ہیں۔ ایک روز کے بادشاہ نے نیا سکہ رائج کرادیا۔ لوگوں نے اپنی زندگی میں مورتیاں نصب کرائیں اور اب خود پر ڈاک ٹکٹ جاری کرانے کا دور شروع ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم نے ۵؍ستمبر ۲۰۱۴ء کو ملک کے منتخب طلبہ کو یومِ اساتذہ کے موقعے سے خصوصی خطاب کیا۔ اقتدار کی ابھی ابتدا تھی مگر استاد کی علمی گہرائی تو چھوڑیے ظاہری سطح پر وہ بردباری بھی نہیں تھی مگر وزیر اعظم کو یہ شوق تھا کہ وہ ملک کے سب سے بڑے استاد کی طرح سے خطاب کرے۔ پھر چار برس کے لیے وزیر اعظم تعلیم کے معاملے میں سو گئے اور اب انھیں ملک کے امتحانات میں پریشان طلبہ اور ان کے سرپرستوں کی اس وقت یاد آئی جب انتخابات قریب ہیں اور حکومت کے چل چلائو کے افسانہ عام ہیں۔ اب کی بار وزیر اعظم کے طلبہ اور سرپرستوں سے گفتگو کرنے کا اندا زپہلے سے بہت بدلا ہوا ہے۔ وہ شخص جس نے پورے ملک کے عوام و خواص کو تناو میں مبتلا کررکھا ہے، کمال یہ ہے کہ وہی اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے معصوم طلبہ کو تناو گھٹانے کے نام نہاد نسخے پیش کررہا ہے۔ وزیر اعظم کبھی ایک ہاتھ بھانجتے ہوئے نظر آئے، کبھی دونوں ہاتھ اور کبھی کرسی کی پیٹھ پکڑے ہوئے۔ امیتابھ بچن یا نصیر الدین شاہ بھی اس سے زیادہ ایکشن کیا کرسکتے ہیں ؟ شاہ رخ یا سلمان کی طرح شاید اچھل کود کرنے میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے انسان کو کچھ دشواری ہو مگر ناٹک منڈلی کے سارے آداب وہاں لٹا دیے گئے۔

وزیر اعظم طلبہ سے اس انداز سے گفتگو کر رہے ہیں جیسے ملک کی پالیسیاں کوئی دوسرا بناتا ہے اور وہ واقعتاً بچوں کے مدد گار یا خیر خواہ کے طور پر ان کی پریشانیوں کا علاج پیش کررہے ہیں۔ ارے صاحب نوکریاں چھین لیں ، نئی آسامیاں پیدا نہیں کیں ، کبھی ایک ریزرویشن پہ روک ، کبھی نیا ریزرویشن فارمولا اور پھر اس پر روک، سرکاری محکموں میں کسی ضابطے کے بغیر ٹھیکے پر تقرریاں ، بڑے اداروں میں نااہل اور نقلی ڈگریوں کے بل پر سویم سیوکوں کی بحالیاں ؛ اب بے روزگار کہاں جائیں ؟ ایک سپاہی کی بھرتی ہوتی ہے اور پی ایچ ڈی پاس طالب علم دوڑ لگانے کے لیے چلا جاتا ہے۔ شرم کی بات صرف سماج کے لیے ہے یا کہ اس کے وزیر اعظم یا پالیسی بنانے والے کی؟ جب ملازمت نہیں رہے گی تو پنکھے سے لٹک کر بچے کیوں نہیں مریں گے؟ ایک ہزار لوگوں کو یونین پبلک سروس کمیشن منتخب کرتی ہے مگر اس کے لیے آٹھ سے دس لاکھ بچے فارم بھرتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو صرف گریجویٹ نہیں ہیں بلکہ جن کے خواب اونچے ہیں اور جو اپنی جان کی بازی لگا کر کچھ پانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ پالیسی نہیں بن سکتی تھی کہ جو پی ٹی کے امتحان میں پاس ہوئے مگر مین تک نہیں پہنچ سکے، انھیں کلرک کی ملازمت دے دی جائے؟ جو مین کے امتحان میں شامل ہو گئے مگر انٹرویو کی منزل تک نہ پہنچے، انھیں کسی کلاس تین کی ملازمت دے دی جائے؟ اور جو لوگ انٹرویو دینے کے باوجود نامراد لوٹیں ، کیا انھیں درجہ دوم کی ملازمت کے لیے اہل نہیں رکھا جاسکتا؟ کیا انھیں صوبائی سول سروس کے لیے نہیں چنا جاسکتا؟ یہ ایک منٹ کا فیصلہ ہے اگر ملک کا وزیر اعظم بچوں کا طرف دار ہو۔ ایک بچہ ملازمت کے لیے پچاس بار امتحان دیتا ہے اور بیس پچیس بار انٹرویو دے کر قسمت میں یاوری لکھی ہے تو کہیں کامیاب ہوتا ہے۔ ہمارے بے روزگاروں کی کسی کی مہربانی نہیں چاہیے، انھیں پہلے ہی امتحان یا انٹرویو میں یہ بتا دیا جائے کہ وہ وائس چانسلر بن سکتے ہیں یا کلرک یا افسر یا اسکول میں ٹیچر۔ انھیں کیا پڑی ہے کہ وہ در در کی ٹھوکر کھائیں۔ مگر ہمارا پورا نظام طلبہ اور بے روزگاروں کے ٹھیک اسی طرح سے خلاف ہے جس طرح کمزور طبقوں ، اقلیت آبادی ، دلت اور عورتوں کے حقوق کے تئیں سرد مہری نظر آتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس کو تعلیم یافتہ ہندستان نہیں چاہیے۔ ہندستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بادشاہ نے ملک میں عمومی تعلیم کی کوئی مہم نہیں چھیڑی۔ دانش اور فہم غلامی کے دشمن ہیں۔ عقل سے تاناشاہ بھی زیر ہوجاتے ہیں۔ نریندر مودی کو آخر کیا پڑی ہے کہ وہ ملک کے تعلیمی نظام کو معیاری بنائیں اور اسے اتنی تیزی اور طراری عطا کریں کہ وہ ایک دن ان کے ہی خلاف کھڑا ہوجائے۔ انھیں جنون اور افیونی سیاست کرنی ہے، اس میں اعلا تعلیم یا آزادانہ تعلیم کا کیا کام؟ اسی لیے مرکزی یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلر نقلی لوگ بنائے جارہے ہیں۔ وہ اساتذہ کی اس ٹیم سے برآمد ہوئے ہیں جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ہاف پینٹ والے ہیں۔ یونی ورسٹیوں میں غنڈوں پر مشتمل سیاسی جماعتیں سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ نئی یونی ورسٹیوں میں مندر بنارہے ہیں اور پوجا پاٹ کا باضابطہ انتظام ہے۔ مگر جمہوری اقدار کی پامالی پر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اس پر طرح طرح کے نئے نئے قوانین لادے جارہے ہیں۔ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کو کلرکوں کے دفتر میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کی آزادانہ شناخت ہوا ہوگئی۔ اساتذہ کی تقرری کے سلسلے سے اتنے نئے ضابطے اور ہر ضابطے میں چور دروازے پیدا کرنے کے لیے نئے قوانین ڈالے جارہے ہیں جس سے آنے والے وقت میں صلاحیت کو درکنار کرکے ایک ایسی قوم یونی ورسٹیوں میں داخل ہوگی جس کے مقاصد تعلیم کے علاوہ سب کچھ ہوں گے۔ آج کی تاریخ میں تقریباً نوے فی صدی جنرل سیٹوں پر اساتذہ قابض ہیں اور ملک کا کھیون ہار نوجوانوں کو انصاف اور صبر کی تلقین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس سے برا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے؟

اب ۱۹۷۴ء کی یاد آتی ہے جب جے پرکاش نارائن نے یونی ورسٹی کے طلبہ کو سڑکوں پر آنے اور ظالم حکومت کے خلاف آخری لڑائی لڑنے کے لیے بلایا تھا۔ بے شک یہ کام راہل گاندھی، لالو پرساد، مایاوتی یا اور کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ یہ سب بھی ان پڑھوں کی جماعت سے ہی نکلے ہوئے سیاست دان ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کے لیے ان کے دل میں وہ جذبہ نہیں ہوسکتا مگر نئے ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے لیے یونی ورسٹیوں کے طلبا اور اساتذہ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ انگریزی میں بوٹ آئوٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، آج بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے لیے یہی وقت آگیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔