سائنس، فلسفہ اور مذہب (آخری قسط)

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص مرعوب ہوجائے تو اس کی آنکھیں جھک جاتیں ہیں اور وہ مقابلہ سے پہلے ہی خود سپردگی کرتے ہوئے شکست قبول کرلیتا ہے نتیجۃً  وہ ہرحق وناحق وجائز و ناجائز امرکو قبول کرلے گا۔ لیکن اگردل مرعوب نہ ہو بلکہ حب الہی اورعشق مصطفوی، قوت ایمانی اورمومنانہ فراست سے مالا مال ہو تو پھر سامنے آنے والا کتنا ہی بااثر، طاقتور اورعیار شعبدہ باز کیوں نہ ہو وہ آخر کار خود ان سے متاثر ہوجائے گا۔

گزشتہ سے پیوستہ

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے دورمیں ہم بھی سائنسدانوں اورمغربی مفکرین سے متاثراورمرعوب ہونے کے بجائے ان عظیم شخصیات کی سیرت وافکار کامطالعہ کریں جن میں حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ، حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ، ڈاکٹر حافظ محمدفضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ وغیرہ شامل ہیں کہ جب ہم ان کی زندگیوں اورافکار میں غوروفکرکرتے ہیں تویہ حضرات باوجود یہ کہ یورپ وامریکہ کے بیشتر ممالک کے دورے پر گئے، وہاں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی، سیاسی، فکری اورعسکری شخصیات سے ملاقاتیں کیں لیکن نہ تو وہاں کی مادی ترقی سے مرعوب ہوئے  اورنہ ان کی فکری قوت سے مغلوب ہوئے۔ اس مرعوب نہ ہونے کی حقیقت خود ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کے سنہری حروف میں ملاحظہ کریں:

"آج اس میدان کے ٹھیکیدار عملاً مغربی مفکرین بن گئے ہیں۔ مگرچونکہ ان کے پاس "فرقان” نہیں اس لئے ان کی فکر، باوجود ضوابط علمی کے بے مہار ہے۔ وہ روحانی اعتبار سے مفلس ہیں۔ اس لئے ان کے صحیح افکار بھی دنیا کو تازگی نہیں بخش سکتے۔ مگر ان کی عملی وجاہت اورمادی شوکت وسطوت نے بہرحال ان کو دنیا کی قیادت کا حامل بنادیا ہے ان کی اس قیادت نے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے بیشتر افراد کواحساس کمتری میں مبتلاکرکے ذہنی غلامی میں گرفتارکردیا ہے۔ ( صقالۃ القلوب، ص 20)

ڈاکٹرانصاری اوران کی قبیل کے افراد تو وہ اہل نظر وفکروکردارکے حامل افرادہیں جوجانتے ہیں کہ یہ اہل مغرب خودروحانی حوالے سے مفلس، قلاش اورمحتاج ہیں۔ توان کی  سائنس اور جدیدسائنسی آلات و مشینیں ان کو کیسے مرعوب کرتیں یا ان کے مغربی افکار اورتہذیب کیسے اپنی  چکاچوندسے ان  کی آنکھیں خیرہ کرتیں۔

نیزان حضرات میں مومنانہ فراست اورمجاہدانہ جرأت کے ساتھ ساتھ حب الہی اورحب رسول ﷺ کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی اوریہ حضرات اس حقیقت سے کماحقہ واقف تھے کہ جب کوئی شخص مرعوب ہوجائے تو اس کی آنکھیں جھک جاتیں ہیں اور وہ مقابلہ سے پہلے ہی خود سپردگی کرتے ہوئے شکست قبول کرلیتا ہے نتیجۃً  وہ ہرحق وناحق وجائز و ناجائز امرکو قبول کرلے گا۔ لیکن اگردل مرعوب نہ ہو بلکہ حب الہی اورعشق مصطفوی، قوت ایمانی اورمومنانہ فراست سے مالا مال ہو تو پھر سامنے آنے والا کتنا ہی بااثر، طاقتور اورعیار شعبدہ باز کیوں نہ ہو وہ آخر کار خود ان سے متاثر ہوجائے گا۔ جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ اسبابِ ظاہری نہ ہونے کے باوجود جب مسلمان افواج کے قاصد دوسرے سلاطین کے دربارمیں جاتے توخود مرعوب ہونے کے بجائے ان پر اپنا اتناگہرا اثر چھوڑتے کہ ان کے دل کانپ جاتے اور وہ ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور ان کی سلطنتوں کے ظاہری جاہ و حشمت کے محل ان کے سامنے ریت کے محلات ثابت ہوتے ہوئے زمیں بوس ہوگئے ۔

کپڑوں   پر  پیوند  لگے ہیں تلواریں بھی ٹوٹی ہیں

پھربھی دشمن کانپ رہے ہیں آخرلشکرکس کا ہے

اسی طرح ان حضرات ذی وقار نے اگرچہ کبھی تقدیر امم کے جاننے کا دعویٰ تونہیں کیا لیکن اپنی مومنانہ فراست سے ان باتوں، اشاروں، کنایوں کو ضرور سمجھ لیا کہ اہل اللہ کا بھروسہ رب العزت کی ذات پر ہوتا ہے اور ان مادہ پرست ابلیسی فرنگی ادیبوں سائنسدانوں، شاعروں اور فلسفیوں کواپنی بے جان مشینوں سے حاصل کردہ عارضی، فانی اوردھوکہ دینے والی قوت پر وبھروسہ ہے جو علیٰ شفا جرف ھار فانھار بہ فی نار جہنم(التوبۃ:١٠٩) (کہ ان کی بنیاد گرجانے والی کھائی کے کنارے جوانہیں لے کر جہنم میں گرجائے گی) کی مصداق انتہائی کمزور اورناتواں ہے اوریہ اپنا انجام عنقریب دیکھ لیں گے۔ ان سے ہمیں مرعوب ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال ؒ

اللہ  کو  پامردئ  مومن  پہ   بھروسا

ابلیس کو  یورپ  کی  مشینوں  کاسہارا

تقدیرِ امم  کیا  ہے کوئی  کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو توکافی ہے اشارا

یہی سبب ہے کہ سائنسی علوم کو ان  نفوس قدسیہ نے کبھی بھی پیمانہ امتیاز خیر وشرنہیں بنایا اورنہ ہی ان سے ابدی، حتمی، بنیادی حقائق (Ultimate Reality) کو جاننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے وحی ہی کافی ہے۔ یہی صحیح انداز فکر ہے جوہمیں اپنانی چاہئے کہ ہم بھی آج ایمان پر دلوں کے مطمئن ہونے کے بعد(یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ہم سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں) جو ہمارے آقا ﷺ نے فرمایا ہے وہی عین حق اورفطرت ہے اورپھر اس کی حکمت ومصلحت کی تلاش کی کوشش کریں تو وہ تلاش بھی عین حصول ثواب قرارپائے گی۔ رہی بات حکمت ودانائی کے حصول کی تو اس کے قبول کرنے میں کوئی قباحت یا حرج نہیں ہے کیونکہ

 "الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا”( ترمذی شریف )

 (حکمت ودانائی مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں کہیں اس کو پائے وہ اس کا زیادہ حقدارہے) کے تحت اس کوضرور بالضرور بلاکسی لیت ولعل قبول کرلیناچاہیے اور یہی ان حضرات نے بھی کیاکہ ایمان پر دل مطمئن ہوتے ہوئے مرعوب اورتشکیک زدہ اذہان کو سمجھانے کی خاطرعلوم سائنس اورفلسفہ میں مہارت و بصیرت بھی حاصل کی اوران کی اچھائیاں قبول بھی کیں  لیکن ان کی خامیوں کوتاہیوں سے آگاہی اورواقفیت رکھتے ہوئے ان خامیوں کے تدارک کی بھی کوشش کی۔

 سائنس مطلقاً شر نہیں ہے بلکہ سلیم الفطرت سائنس دان جب اس کائنات کے اسرار ورموز سے واقف ہوتے ہیں  تووہ  خود  قرآن کی اس آیت

"سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ”الحشر:1

(اللہ ہی کی پاکی بیان کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اورزمین میں ہیں)پر ایمان لے آتے ہیں کیونکہ اب واقعی وہ ایمان بالغیب اورچشم بصیرت کے بجائے چشم سرسے مشاہدہ کرتے ہیں۔ انہیں  کائنات کے ہر ذرے، ہرقانون قدرت اورتھیوری سے اللہ رب العزت کے وجود اور وحدانیت  کی گواہی ملتی ہے۔ اوروہ اس کا اقرارکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہر قانون قدرت رب کی تعریف وحمد وثناء میں مشغول ہے۔ جیسا کہ ماریہ مشعل نے 1866 میں تحریر کیاتھا:

Every formula which expresses a law of nature is a hymn of praise to God.

ہر وہ فارمولہ جو قانون قدرت کااظہار کرتاہے وہ اللہ کی حمد ہے جس میں اس کی تعریف ہے۔

( Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 489)

یہاں ان باتوں کے ذکر سے مقصود ومطلوب یہ ہے کہ اگرعلوم نقلیہ کوچھوڑ کر صرف سائنس اورعقل پر اکتفاء وانحصار کیاجائے گا تو یہ صرف وہم یاتوہم پرستی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی لوگ مادہ پرستی، حصول لذات اورنفس کی بندگی میں اس حد تک پستی میں گرجائیں گے کہ لوگوں کی جان ومال کی ان کے نزدیک  کوئی اہمیت نہ رہے گی (جیسا کہ آج کل ہورہاہے )۔ کیونکہ یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں  کہ سائنس میں خیر وشر دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ جیسا کہ  کلفورڈ اے پک اوور  اپنی کتاب میں لکھتاہے:

“The laws enable humanity to create and destroy sometimes they change the very way we look at reality itself.” (Archimedes to Hawking, Clifford A_ Pickover, Oxford University Press, 2008, pg 16)

"قوانین انسان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ کچھ تخلیق کریں یا تباہی لائیں اوربعض اوقات وہ راستہ ہی بدل دیتے ہیں جس پر ہم خودحقیقت دیکھتے ہیں۔ "

دورحاضر کے علوم و فنون کی ترقی روحانیت کے زوال کا سبب ہے۔ ایک وقت تھا جب سائنس کا علم مسلم سائنسدانوں کے پاس تھا تو اس وقت سائنس بھی مسلمان تھی اورآج جب کہ سائنس مادہ پرست اورسیکولر غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہے اب جن سائنسدانوں کو رب کے قہار وجبار ہونے کا یقین نہ ہواوراس کا کوئی خوف نہ ہو یا ان کے اندر مذہبی اقدار نہ ہوں تو ان کی لائی ہوئی یہ ترقی ہمیں تباہی کی طرف لے جاتی رہی تھی ہے اورلے جاتی رہے گی۔ سائنس کی ترقی خلق خدا کی فلاح وبہبود کے لیے نہیں بلکہ ان کی بربادی کے لیے ہے۔ تباہ کار آلاتِ حرب کی ساخت  اورشناخت ان مہلک گیسوں اورہتھیاروں کے ایجاد کے لیے  تھی جو آنِ واحد میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ اور ایک وقت آئے گا جب یہ اقوام اپنی تمام ترقی کے باوجود خود تباہ و برباد ہوجائیں گی۔ بقول  شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ:

وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا فطرت کی طاقتوں کو

اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطرمیں ہے اس کا آشیانہ

جملہ معترضہ:

میری اس تمام تر بحث سے یہ قطعا مراد نہیں کہ فلسفہ  اورسائنسی علوم کی تحصیل  گمراہی کا باب ہیں کہ ان علوم کو حاصل کرنے والا لازماً گمراہ ہوجاتاہے۔ ہاں  وہ افراد  جو اپنے عقائد وایمانیات پر پختہ نہ ہوں   اورسائنس وفلسفہ کو حرف آخر سمجھتے ہوں وہ ضرورذہنی طورپر تشکیک کا شکار ہوجاتےہیں۔ یہ افراد بالآخر ان  عقائداسلامیہ جن پر ایمان کی پختگی ضروری ہے  اس میں بھی تشکیک وتذبذب کاشکارہوجاتے ہیں اوریوں گمراہی کی عمیق گہرائیوں میں گرتےچلےجاتےہیں۔ ایسا  ہونے کی عموما دوبنیادی وجوہات ہیں۔

اول:عقل کو وحی پر فوقیت دینے کے باعث  یعنی شریعت کے دائرہ سے نکلنے کی وجہ سے۔

دوم:بعض اوقات ایسا  کم علمی کی بنا پربھی ہوتاہے کیونکہ کسی بھی علم کی سطحی اور ناقص تحصیل انسان کے نقصان، بگاڑ اور گمراہی کاسبب بن سکتی ہے لیکن گہرائی، کلیت اورجامعیت کے ساتھ اس علم کی تحصیل انسان کو گمراہی اورتشکیک سے باہرنکلنے میں مدد کرتی ہے۔ یہی کلیہ اورقاعدہ فلسفہ کے لئے بھی ہے۔ جس کی تائید عظیم فلاسفر اورسائنسدان بھی کرتے ہیں۔ جیسا کہ مشہور انگریز فلسفی اورسائنسدان فرانسس بیکن (Francis Bacon 22 January 1561 – 9 April 1626) کا  ایک قول ہے:

“A little philosophy inclineth man’s mind to atheism, but depth in philosophy bringeth men’s minds about to religion.”

فلسفہ کا سطحی علم انسانی ذہن لادینیت اورانکارِخدا کی  طرف مائل کرتاہے لیکن اس کی گہرائی اوروسعت  انسانی ذہن  کو دین کی طرف رجوع کرنے والا بنادیتی ہے۔

اسی لئے جب ہم ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ کی تعلیمات کی  جانب دیکھتے ہیں توڈاکٹرصاحب علیہ الرحمہ نے علم فلسفہ کی حقیقت، حیثیت اوراس کی حدود  ضروربیان فرمائی ہیں لیکن اس  کے حصول کوگمراہی نہیں کہا بلکہ اس کی نہ صرف خود تحصیل کی بلکہ اپنے طلبہ کی بھی اس کے حصول کی طرف رہنمائی فرمائی۔

درحقیقت علم فلسفہ، منطق ، سائنسی علوم اورٹیکنالوجی بذات خود برائی نہیں بلکہ مثلِ ہتھیار ہے کہ کسی ملحد کے ہاتھ میں ہوگا تو وہ اسے اسلام کے خلاف استعمال کرے گا لیکن اگر یہی ہتھیار مسلمان، موحد، عاشق رسول  ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا تو اس میں وہ صلاحیتیں پیدا ہوجائیں گی جو اسے کائنات، ارض و سماء، خود اپنی ذات کی معرفت سے آگاہ کرتے ہوئے اسے رب تک پہنچادیں گی۔

”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ”

جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

یہ حقیقت ہے کہ جو اپنے نفس کا عرفان رکھتا ہے وہ عرفانِ خدا بھی حاصل کرلیتا ہے کیونکہ عرفان خودی ہی عرفان ذات ہے اور جس کے بغیر  معرفت  خدا ممکن نہیں۔ بقول شاعر

بکشائے پردہ چشمِ حقیقت نمائے را

خود را شناس تا بشناسی خدائے را

حضرت علامہ ڈاکٹرفضل الرحمن الانصاری علیہ الرحمہ نے بھی نہ صرف  فلسفہ وسائنسی علوم کی تحصیل کی بلکہ ان علوم ہی سے گمراہ ودین دشمنوں کی عیاریوں اورچالبازیوں کا سدباب کیا۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر آپ نے جامعہ علیمیہ کے نصاب  میں فلسفہ کو داخل کیا۔

خلاصہ کلام :

سائنس اورٹیکنالوجی خیر اورانسان کی بھلائی کا ایک ذریعہ ہے، کوئی بھی ذریعہ، طریقہ، راستہ بذات خودنہ باعث گناہ ہے اورنہ ثواب۔ گناہ  وثواب ہماری نیت پر منحصر ہے۔ یعنی فسق ہماراہوس کی بنیاد پر یاکسی اورسبب اس کی برکتوں کوزحمتوں میں بدلنے اوراسلام سے دور ہونے میں ہے۔ یہ ساری ایجادات، جدید سائنس اورماڈرن ٹیکنالوجی دراصل اللہ نے انسان کی خدمت اوربھلائی کے لیے پیدافرمائی ہے،

هُوَالَّذِيْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا(البقرۃ:29)

 اس زمین میں اس نے جو کچھ پیدافرمایاہے یہ سب تمہاری خدمت اورفائدے کے لیے ہے (نہ کہ ان کے آگے سربسجود ہوکرآدمیت کی تذلیل کی جائے کہ ایک وقت تھا ابوالبشرحضرت آدم علیہ السلام کے سامنے یہ تمام سربسجود تھے اورآج حضرت آدم  کی اولاد خود ان کے سامنے سربسجود ہوگئی۔ یااسفا!)

اب یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ جدید سائنس اورماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیسے اورکہاں کرتاہے اوراس اختیار کے استعمال کا ہی کل بروز حشر اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا ہے اوراسی پر جنت یا دوزخ کے ملنے کا انحصار ہے۔ یہ ایجادات مانند ہتھیار ہیں چاہے اسے ملک میں امن و سلامتی کے لیے استعمال کیاجائے خواہ اسے مزید فساد، انتشار، وابتری کے لیے کام میں لایاجائے۔ اور اس ٹیکنالوجی کی مدد سے طلبہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان آلات کے استعمال سے تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ سہل اور مؤثر بنایاجاسکتاہے۔ لیکن اس کو وحی کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔ لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلام کے ہر ہر حکم کو ٹھوک بجاکر دیکھ لو اسے سائنس پر پیش کرکے اس سے ثبوت اورسند حاصل کرو، ہر حکم کی حکمت و مصلحت سمجھ کر چلو اگر نہ سمجھ آئے تو اسے چھوڑ دو تو ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکرکرنی چاہئے۔ "لَآ اِکْرَاهَ فِي الدِّيْنِ(البقرۃ:٢٥٦) ” کہ اسلام میں داخل ہونے میں کوئی جبر نہیں لیکن ایک دفعہ ایمان لے آئے تو يَاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ کَآفَّةً )البقرۃ:٢٠٨)”اے ایمان والو!پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ”، ویؤمنون بالغیب  (اوروہ ایمان لاتے ہیں غیب پر) اب پورے کے پورے اور وہ بھی غیب یعنی ان دیکھے اوربناپوچھے ہر اس بات پر ایمان لاناہوگا جس پر ایمان لانے کا اسلام ہمیں حکم دیتاہے۔

ایمان لانے سے پہلے اوربعد کے سوالات اورطریقہ واندازمیں فرق ہوناچاہئے۔ قبولیت ایمان سے پہلے پوچھنے کے انداز میں اگرچہ تشکیک پائی جاتی ہو لیکن قبولیت ایمان کے بعد اس کی حقانیت پر ایمان ہوناضروری ہے۔ کیونکہ اگر ایک دفعہ قائل کی حقانیت، صداقت، امانت، دیانت، متانت فطانت، ذہانت، صیانت پر یقین آجائے تو پھر ان کے احکام، اقوال، اعمال، افعال، پر مکمل یقین وایمان لانا چاہئے اورپھر کسی قسم کی دلیل، حکمت ومصلحت کا تقاضا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگرانسان اپنی علمی بے بضاعتی وبے کسی سمجھ لے اور”وَفَوْقَ کُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْم( سورۃ یوسف:76)”پر ایمان لائے کہ العلیم تورب کی ذات ہے اورحضوراکرم ﷺ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ تو اس کے بعد وہ ہر ہر شے، ہر ہرحکم ربی، اور حکم مصطفوی ﷺ کی فلسفیانہ اورسائنٹفک توجیہ نہیں مانگے گا۔ اب وہ اس بات کا ادراک حاصل کرچکا ہوگا کہ یہ وہ ذات ہے جہاں میری ناقص عقل اورمیراعلم نہیں پہنچ سکتا۔ اس نکتہ  کو اکبرالٰہ آبادی اس خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہیں:

بس  جان  گیا  میں  تری پہچان یہی ہے

تودل میں توآتا ہے سمجھ میں نہیں آتا

 ہاں جس ذات نے رب کائنات کو سمجھا ہے وہ نبیﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ اب حضور ﷺ پر ایمان لانے کے بعد آنکھیں بند کرکے اُن(ﷺ) کی کامل لیکن غیرمشروط پیروی کی جائے۔ ان کے کسی حکم کی حکمت و مصلحت بطورگرفتاری تشکیک دریافت نہ کی جائے۔ ہاں حکمت و مصلحت سمجھنے کی کوشش ضرورکی جائے تا کہ متلاشیان حق کی صحیح رہنمائی اور اغیار، کفار، غیرمسلمین ومعترضین کے فتنہ پرور سوالات کے جوابات کا رد کیا جاسکے۔ لیکن اگرحکمت نہ بھی سمجھ آئے توپھربھی یہ اقرار کرے کہ میں تو قطعی ایمان لاچکاہوں اوریہی حق، فطرت اورخیرو بھلائی ہے۔ ویسے بھی سچائی اورحق خود بخود اثرچھوڑتے ہیں اورصالح ونیک طینت قلوب خود بخود انہیں قبول کرلیتے ہیں دلائل سے منوائے نہیں جاتے۔

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت  خود  کو  منوالیتی  ہے   مانی   نہیں  جاتی

تبصرے بند ہیں۔