بہت دیر کی مہرباں جاتے جاتے

عبید الکبیر

11/9 کے سانحے کے بعد افغانستان پر امریکی افواج کی یلغار کا دورانیہ یو ایس ملیٹری کی تاریخ کا سب سے طویل ترین  دورانیہ ہے۔ طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں کی جانے والی اس فوجی کاروائی کو تین مرحلوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا مرحلہ 11 ستمبر 2001  کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد سے شروع ہوتا ہے جس کا مقصد القاعدہ اور طالبان کی مزعومہ شدت پسندی کا سر کچلنا تھا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہےکہ افغانستان میں امریکہ کے مطلوبہ دہشت گرد وں کی ٹولی اوراس کے سر خیل اسامہ بن لادن وہی لوگ تھے جنھیں  24 دسمبر 1979 کو افغانستان پر کمیونسٹ روسی یلغار کے بعد اپنے ملک سے روسی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی مدد حاصل تھی۔ روس کے خلاف لڑنے والی یہ جماعت جو بعد میں عالمی پیمانے پر شدت پسندی کی علامت سمجھی جانے لگی ان دنوں امریکہ کی منظور نظر تھی۔ مگرجب 1996 میں اسی جماعت نے افغانستان میں زمام اقتدار سنبھالی تو امریکہ کا رویہ اپنے پرانے حلیف کے تئیں  یکایک بدل گیا۔ مبینہ طور پر  اس تبدیلی کی وجہ 11/9 کے واقعے کو قرار دیا جاتا  ہے، اگرچہ عالم اسلام کے تئیں امریکہ کی مجموعی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے یہ عذر بڑا مضحکہ خیز بلکہ لغو معلوم ہوتا ہے۔

امریکہ پر نو گیارہ کے حملے کے بعد، بش انتظامیہ پہلی فرصت میں طالبان سے نمٹنے اور اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے کمر بستہ ہوگئی۔ امریکہ نے اسامہ کی سپردگی کا مطالبہ کیا اور تسلیم نہ ہونے کی صورت میں جنگ چھیڑ دی گئی۔ افغان جنگ کی تمہید کے طور پر 26 ستمبر کو سی آئی اے کی ایک ٹیم افغانستان پہنچی جس نے طالبان مخالف مقامی عناصر کےساتھ  اشتراک وتعاون کرکے تختہ پلٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اس فنکاری کے ذریعہ وہ افغانستان میں کسی بڑی جنگی کارروائی سے بچ جائیں گے تاہم ایسا ہوا نہیں اور بالآخر شمالی اتحاد کے ساتھ تعاون اور دیگر منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مسلح کارروائیوں کا آغاز ہوگیا۔ افغان جنگ اب دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی، جو 2002 سے 2008 تک چلا۔ اس کے بعد2009 سے اس جنگ کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا، اس اثنا میں صدر بش کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا۔ امریکہ کی تاریخ میں سفید فام صدور کی ایک طویل تاریخ کے بعد کسی سیاہ فام کا منصب صدارت پر فائز ہونا ایک تاریخی واقعہ تھا۔ دنیا کو اس تبدیلی  سے بہت کچھ امیدیں تھیں خصوصاً عالم اسلام کے تناظر میں اوبامہ کی آمد کو بڑے مثبت انداز میں دیکھا جارہا تھا مگر اوبامہ انتظامیہ کی پالیسیاں مجموعی طور پر خلاف توقع ثابت ہوئیں۔

 افغان جنگ میں اوبامہ نے مزید افواج بھیج کر اس تصویر کو صاف کردیا کہ افغانستان پر امریکی یلغارآیا کوئی ناگزیر ضرورت تھی یا کچھ اور۔ بعد ازاں 2011 سے اس میں تخفیف  بھی ہوئی، امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا اور چھوٹے بڑے پیمانے پر مقامی افواج کو اختیارات تفویض کیے جانے لگے۔ تاہم افغانستان کے حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ گزشتہ پالیسیوں کی طرح حالیہ اقدامات بھی بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ اس دوران ملک کی داخلی سلامتی ایک حساس مسئلہ بنی رہی۔ سیکوریٹی حکام کی کارکردگی  صورت حال کو قابو کرنے میں بری طرح ناکافی ثابت ہوئی۔ ان کی مسلح اور منظم سرگرمیوں کے مقابلے میں مقامی عناصر کی چلت پھرت بہت بڑھ گئی اور مجموعی طور پر امریکی افواج طالبان کے اثر ورسوخ اور گرفت کو ختم کرنے میں یکسر ناکام ہوئے۔

 یہ رسمی طور پر افغانستان میں یو ایس اور ناٹو افواج کی مسلح کارروائیوں کا خاتمہ تھا جو دسمبر 2014 میں ہوا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا دورانیہ کے لحاظ سے یہ امریکی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ ہے۔ دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حلیف جس ٹھاٹ باٹ اور سج دھج کے ساتھ میدان کارزار میں اترے تھے اس کا کیا نتیجہ نکلا  ؟ کیا وہ اغراض ومقاصد حاصل ہوگئے جن کے لیے دودہائیوں تک مسلسل ایک خطہ زمین کے امن وامان کو تاراج کیا جاتا رہا۔ آج طالبان سے مذاکرات کے لیے پیش رفت  جاری ہے، بلکہ ان کو منانے کے امکانا ت تلاش کیے جارہے ہیں۔ امریکی افواج واپسی کا رخت سفر باندھنے میں مصروف ہیں۔ افغانستان سے امریکہ جس نیاز مندانہ شان سے واپس جا رہا ہے وہ کہانی کو سمجھنے میں بڑا مددگار ہے۔ افغانستان پر چڑھائی کے وقت بش انتظامیہ کی اجمالی اور تفصیلی دفاعی منصوبوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کی بیخ کنی  کے لیے باقاعدہ اور منظم طور پر جو کچھ کیا گیا وہ محض ایک اضطراری کارروائی نہیں تھی۔ بلکہ اس کے پس پردہ  عالم اسلام کی  پر امن اور مستحکم حکومتیں امریکی توسیعی منصوبوں کا ہدف تھیں۔ اس کی بڑی مثال دوسال بعد ہونے والی عراق کی جنگ ہے جس میں امریکہ نے  جوہری ہتھیاروں کا بہانہ بنا عراق پر کر دھاوا بول دیا تھا۔ عراق کی جنگ سردست ہمارا موضوع نہیں ہے تاہم اتنا جان لیجیے کہ عراق کو تہس نہس کرنے اور صدام کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد  صدر بش نے میں خود اپنے شک سے رجوع کیا تھا۔ افغانستان میں امریکہ کی والہانہ آمد اور قریب دو دہائیوں تک معصوم انسانوں پر آتش وآہن کی بارش، کشت وخون کی گرم بازاری اور پھر اس کی معصومانہ واپسی کو اگر خالص انسانیت کے پس منظر میں ایک انسانی المیہ کے طور پر دیکھا جائے تو یہ ساری کارستانی بے جواز قرار پاتی ہے۔ اگر طالبان کا مکمل صفایا مقصود تھا تو امریکہ اپنا ہوم ورک  مکمل کیے بغیر واپس کیوں جا رہاہے؟

یہ واقعہ کس قدر عبرت ناک ہے کہ امریکہ جس جن کو بوتل میں بند کرنا چاہتا تھا آج اسی جن کی بلائیں لے رہا ہے۔ عالمی میڈیا میں  جو گھن گرج پچھلے پندرہ سالوں سے سنائی دے رہی ہے اس کا زمینی سچائی سے کچھ زیادہ تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ ملک اگر چہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے تاہم حالات بتا رہے ہیں کہ وہ کم ازکم ایک ثانوی قوت اور کنگ میکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طویل ترین انسانیت کش کارروائی  کے تجزیے سے کچھ حقائق سامنے آتے ہیں۔ یعنی  پہلے شدت پسندی کے ذیلی عنوان سے اسلام اور دہشت گردی کا بہانہ بنا کر دنیا بھر کے لوگوں کا اخلاقی تعاون حاصل کیا گیا۔ پھر اسی  موقعہ غنیمت میں امریکہ ملک در ملک اپنی پینگیں بڑھاتا رہا اوریکے بعد دیگرے مسلم ممالک کو جنگ یا کم ازکم خانہ جنگی سے دوچار کرتا رہا۔ افغانستان میں ہر ممکن کوشش کے باوجود جب بات بنی  نہیں تو اب ایک ہی راستہ بچا تھا مرتے کیا نہ کرتے۔

نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیے

اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہوگئی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔