انتخابی شکست کے بعدمودی کی جگہ گجندر گڈکری کو لانے کی تیاری؟

سید منصورآغا

خبر یہ ہے کہ پانچ اسمبلیوں کے حالیہ انتخاب میں شکست کے بعد بعض بھاجپاممبران پارلیمنٹ نے راحت محسوس کی۔وجہ اس کی انتظامیہ اورپارٹی پر مودی اور شاہ کی سخت پکڑسے پھیلی ہوئی بد دلی کو بتایا جارہا ہے۔ خبر ہے کہ اس سرکار میں وزیروں کے اختیارات محدودکردئے گئے ہیں اورسارے فیصلے پی ایم اوسے ہوتے ہیں۔ وزیرخارجہ کی بے بسی تو جگ ظاہر ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے وزارت داخلہ سے متعلق امورپر وزیرداخلہ کے بجائے وزیرمالیات اوروزیر قانون بیان دہتے ہیں۔ باقی وزیروں نے عموماً خاموشی اختیارکرلی ہے۔ ایسے ماحول میں اگرکوئی وزیر، جو عموماً خاموش رہتا تھا، روز بولنے لگے اورپی ایم کے موقف کے خلاف باتیں کہنے لگے توسمجھ لینا چاہئے کہ یہ بلاوجہ نہیں۔

ان انتخابات کے فوراً بعد 18دسمبرکو جب مودی مہاراشٹراکے دورے پرآرہے تھے ایک سرکاری ریاستی ادارے ’وسنت راؤ شیٹی سوالمبن مشن‘ کے چیرمین کشورتواری نے آرایس ایس مکھیا کو خط لکھ کر مشورہ دیا کہ اگر 2019 کا چناؤ جیتنا ہے تومودی کو ہٹاکر پارٹی کے سابق صدرگجندر گڈکری کو وزیراعظم بنایاجائے۔خیال رہے کہ گڈکری اورتواری دونوں سنگھ کے قریبی ہیں۔ پچھلے چناؤ میں مودی کے زبردست حامی رام دیو نے بھی حالیہ حالات سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ نامورکالم نویس اوربرطانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبرلارڈ میگھناد دیسائی نے اپنے حالیہ کالم میں پیش گوئی کردی ہے کہ آئندہ الیکشن میں مودی کی جملہ بازی چلنے والی نہیں۔

اس ماحول میں گجندر گڈکری کا یہ کہناکہ منصوبوں میں ناکامی کی ذمہ داری لیڈروں کواسی طرح قبول کرنی چاہئے جس طرح کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ ان کایہ کہنا کہ پارٹی کے کچھ لیڈروں کو کم بولنا چاہئے۔ سب سے بڑھ کرجواہرلال نہروکی تعریف کرنا وغیرہ اشارہ کررہے ہیں پارٹی اورسنگھ نے یہ چرچا اس لئے شروع کی ہے کہ عوام میں اورپارٹی کے اندر موڈ کا پتہ لگایا جائے۔ ہمارا خیال ہے ملی قیادت اورصحافیوں کو ان سب حالات پر نظر تو رکھنی چاہئے مگرجذباتی باتوں سے گریزکرنا چاہئے۔ یہ سنگھ پریوارکاداخلی معاملہ ہے ۔ وہ مودی کو کنارے کردیں اوران کی جگہ کسی اورکولے آئیں،ہمارے لیے سب برابر ہیں۔ اس سیاسی چہل پہل سے راجناتھ سنگھ ، ارن جیٹلی وغیرہ میں ضرورفکرمندی ہوگی جو ٹاپ منصب کے مضبوط دعویدار ہیں۔مگرہمیں کیا؟ ہاں بقول میرؔ

ابتدائے عشق ہے، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔