تحمل اور رواداری کی روایت، موجودہ رویہ اور نصیر الدین شاہ

سید منصورآغا

مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے گزشتہ جمعہ (21دسمبر) لکھنؤ میں کہاکہ ’’رواداری اوربرداشت جتنی کشادہ دلی سے ہندستان میں عا م ہے،ویسی دنیا میں کہیں اورنہیں۔  ‘‘ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا،’’ ہندستان واحد ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ امن وچین کے ساتھ مل جل کررہتے ہیں۔‘‘ یہ اعتراف بھی کیا کہ مختلف مذہبوں کے لوگوں نے اس ملک کی تعمیروترقی میں،  اس کواپنے قدموں پرکھڑاکرنے اوراس کی خوشحالی میں اہم رول اداکیا ہے۔‘‘

ہم اپنے وزیرداخلہ کی کہی ہوئی ان باتوں کی تردید نہیں کرسکتے،ہندستان بیشک ان خوبیوں والا ملک رہا ہے اوراس میں لازمی طور سے آٹھ سوسالہ مسلم دورحکومت کارول ہے جس کو اب رات دن کوسا جارہا ہے اورتاریخی نشانیوں کو مٹایا جارہا ہے۔ اگرمسلم حکمرانوں نے یہاں کی ہندورعایا کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہوتا، ان کومذہبی آزادی نہ دی ہوتی توملک میں ایسی فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور رواداری نہ ملتی۔ اتنا ہی نہیں، وہ اگرزورلگاتے تو ملک کی موجود ہ اکثریت اقلیت میں بدل گئی ہوتی۔ اورتواور انہوں نے مسلمانوں کی الگ شناخت بنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔  یہی وجہ ہے اکثروبیشترمسلم باشندوں کا لباس، رہن سہن، کھانا پینا اوربہت سی رسمیں وہی ہیں جو مقامی غیر مسلم آبادی کی ہے۔

لیکن محترم وزیرداخلہ نے یہ باتیں نصیرالدین شاہ کے جس بیان کے پس منظرمیں کہی ہیں،  یہ اس کا جواب نہیں۔ مسٹرشاہ نے بلندشہرمیں ایک پولیس انسپکٹرسبودھ کمارسنگھ کی’گؤ رکشکوں کے ہجومی تشدد‘ میں موت پریوپی سرکار کے رویہ کے حوالہ سے کہا تھا، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض علاقوں میں گائے کی موت،ایک پولیس افسرکی موت سے زیادہ اہم ہوگئی۔۔۔ ہمیں صورتحال میں جلد کوئی بہتری نظرنہیںآرہی ہے۔‘‘

نصیرالدین شاہ کے عقائد سے بحث کے بجائے دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا ان کی اس فکرمندی میں فرقہ پرستی کی کوئی رمق نظر آتی ہے؟سبودھ کمارسنگھ کی جن حالات میں ناگہانی موت ہوئی اس پرافسوس اورتشویش اور ان کے اہل خاندان سے تعزیت اپنے ملک کے باشندوں سے محبت اوررواداری کی اسی روایت کی پاسداری ہے جس کاذکر مرکزی وزیرداخلہ نے کیا ہے۔ لیکن جوکچھ انہوں نے کہااس سے رواداری کی را ہ روشن نہیں ہوجاتی بلکہ ان رواداری دشمنوں کا حوصلہ بڑھا ہوگا جن کے ہاتھ انسپکٹرسنگھ کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔

مذہب اورگائے کے نام پر جو لاقانونیت پچھلے ساڑھے چارسال میں بڑھی ہے اورکئی لوگوں کی جان لے چکی ہے، وہ ہرمحب وطن اورانسانیت دوست کے لیے تشویش کی بات ہے۔ہم مرنے والے کا مذہب، قوم اور ریاست نہیں دیکھتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ماحول بنادیا گیا ہے جس میں فرقہ ورانہ نفر ت کو بھڑکا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو بے رحمی سے ماردیا جاتا ہے۔ مہاسمند میں افرازل کو مارنے اورجلانے کا ویڈیو اس نفرت کی شدت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے قتل کے جرم میں چند لوگ پکڑلیے جائیں، لیکن جن سیاست دانوں کا یہ سب کیا دھرا ہے، قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچتے۔ حکومت کرنے والی پارٹی میں اس پرتکلیف و تشویش کے بجائے لیپا پوتی کی جاتی ہے اورگناہ گاروں کو بچا لیا جاتا ہے۔

مسٹرشاہ کے بیان پر مرکزی وزیر مختارعباس نقوی نے بھی کہاہے،’’ہندستان ایک رواداری والا ملک ہے۔ رواداری اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی ملک کے خون میں شامل ہیں۔کوئی بھی ملک کی اس مضبوط روایت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ مسٹرشاہ کو اپنے بچوں کے بارے میں کسی اندیشے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارا ملک آئین کی بنیاد پرآگے بڑھ رہا ہے۔‘‘ کاش وزیر صاحب یہ خیال فرماتے کہ بچہ کسی کا بھی ہو، اس ملک کا شہری ہے۔ فکر اپنی اولاد کی طرح سب کی ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں کوئی اپنے مذہب کامارا جائے تواس پر تو ماتم ہو اورغیرمذہب بے قصورافسراپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہوا جنونیوں کے ہاتھوں ماردیا جائے توخاموش رہا جائے۔

بیشک جیسا نقوی صاحب نے کہا ہماراملک صدیوں سے رواداری اورفرقہ ورانہ خوش ہمسائیگی کا گہوارہ رہا ہے۔ مگراب اس ماحو ل بگاڑا جا رہا ہے اورجولوگ اس بگاڑ کوپھیلارہے ہیں اور قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں ان کو حکومتی تحفظ مل رہا ہے، جیساکہ بلند شہرکے تازہ واقعہ سے ظاہر ہے۔ وزیراعلیٰ نے پولیس افسر کے قتل کی فکرکے بجائے کہہ دیا، یہ تو ایک حادثہ ہے اورپھرکہا کہ یہ سیاسی سازش ہے، اوران کی پولیس گائے کی مبینہ ہلاکت کی جانچ کو ترجیح دینے لگی۔

آج (26دسمبر)کی خبرہے کہ مہارشٹرا کے ایک پرامن گاؤں کوواڈ،  ضلع کولہا پورمیں مسلح نقاب پوش غنڈو ں نے کل کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کی دعائیہ تقریب پر حملہ کردیا جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔پہلے گوڑگاؤں میں کھلے میں نماز جمعہ پروبال ہواتھا،اب نوئیڈا میں بھی ماحول بگاڑا جارہا ہے۔یوپی کے دادری میں اخلاق کی موت سے لے کرہریانہ میں حافظ جنید اورراجستھان میں افرازل اورپہلوخان کے بہیمانہ قتل،  گجرات میں دلتوں کی پٹائی، اور پیٹ پیٹ کرہلاکت اور اب انسپکٹر سنگھ کی ہلاکت اورایسے ہی دوسرے واقعات کس طرف اشارہ کررہے ہیں؟ تحمل اوررواداری کی ہماری قدیم روایت کی طرف یا اس کے مخالف سفرکی طرف؟ اورجب مظفرنگر فسادات میں ملوث افرادکو پارٹی برسرعام اعزازدے، ٹکٹ دے، وزیربنادے، اورہجومی تشدد میں قتل کے ملزمان کو وزیرپھول مالائیں پہنائے، وزیراورایم پی ایک فرقہ کو ملک بدرکرنے کی دھمکی دیں تو اس سے رواداری کو نقصان پہنچے گا یا تقویت ملے گی؟ ان کو برداشت کرناہی رواداری کو گلا گھوٹنا ہے۔

ہماری موجودہ سرکار کی روش یہ ہے کہ عوام کو جن مشکلات میں پچھلے ساڑھے چارسال میں دھکیل دیا گیا ہے اس کے لیے سابق حکومتوں کوالزام دیا جاتا ہے اورپچھلے زمانوں میں اچھائی کی جوچادرملک کی زینت رہی اس کا کریڈت خودلے لیا جائے، لیکن جو سوراخ اس میں کئے جارہے ہیں ان پرنظرنہیں جاتی۔ماحول میں فرقہ اور ذات برادری کے نام جو زہر گھولاجارہاہے، قانون شکنی کو نظرانداز کیا جارہا ہے،  اسی نے نصیرالدین شاہ کو اجمیر ادبی میلہ میں جانے سے روک دیا۔ رام دیو کی نگاہ میں شاہ ’’غدار‘‘ ہیں اوروہ سب یہ جو یہ کچھ کررہے ہیں دودھ میں دھلے ہیں۔ تلوین سنگھ نے بجا طور سے ایسے شدت پسند ’قوم پرستوں‘ کو قوم کا دشمن کہا ہے۔ ہماری سرکار ایسے بیانات پرچپ رہتی ہے اورتکلیف ہے تویہ شاہ نے انسپکٹرسنگھ کی موت کا ذکرکیوں کردیا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔