ایم جے اکبر کی بھاجپا کیلئے تقریرِ دلپذیر

عبدالعزیز

مبشر جاوید اکبر جو ایم جے اکبر کے نام سے مشہور ہیں ، کبھی بائیں بازو کی سیاست اور صحافت کیا کرتے تھے مگر جب راجیو گاندھی سے دوستی ہوگئی تو کانگریسی بن گئے۔ کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر لوک سبھا کے ممبر ہوگئے۔ اس وقت آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف پرزور تقریریں کرتے اور کانگریسیوں سے داد و تحسین حاصل کرتے۔ جب ہفتہ وار ’سنڈے‘ اور ’روزنامہ ٹیلیگراف‘ کے مدیر تھے تو سنگھ پریوار کی فسطائیت اور فرقہ پرستی انھیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ صفحات کے صفحات سیاہ کر دیتے تھے لیکن جب سے مودی بھکت ہوئے اور سنگھ پریوار میں شامل ہوگئے، فرقہ پرستی اور فسطائیت انھیں انسان دوستی اور دیش بھگتی نظر آنے لگی اور اب تو انھیں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں ۔

 گزشتہ روز (28دسمبر) جب موصوف اسلام اور مسلمانوں کا مذاق بلکہ تضحیک لوک سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کر رہے تھے بھاجپائی خوب داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’اکبر صاحب اور بولئے، تقریر جاری رکھئے‘‘۔ بھاجپائیوں کو بھی مزہ آرہا تھا کہ اکبر دیش بھگت ہوگئے اور مسلمانوں کی خوب اچھی طرح خبر لے رہے ہیں ۔ اکبر نے طلاق بل پر قرآن اور جواہر لعل نہرو کے اقوال کے حوالے دے دیکر کانگریس اور مسلمانوں پر پے درپے حملے کرنا شروع کیا لیکن جب وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی معتبریت (Credibility) پر سوال اٹھا رہے تھے تو بھاجپا کی طرف سے ان کی واہ واہی نہیں ہورہی تھی اور وہ ادھر ادھر بغلیں جھانک رہے تھے۔ موصوف سوال کر رہے تھے۔ بورڈ کی معتبریت کیا ہے؟ کس نے انھیں مسلم فرقہ کی نمائندگی کیلئے منتخب کیا ہے؟ یہ مسلمانوں کی غیر معتبر آواز ہے۔ رعب جمانے کیلئے ایک انگریزی جرنلسٹ مسٹر تایازنکن کے سوانحات سے حوالے دیتے ہوئے کہاکہ جب اس نے دریافت کیا کہ مسٹر پرائم منسٹر آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے تو مسٹر نہرو نے کہا ’ہندو کوڈ بل‘جب اس نے مسلم عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی تونہرو نے کہاکہ ابھی اس کیلئے وقت نہیں آیا ہے۔ جب وہ پارلیمنٹ سے باہر نکل رہے تھے ان کی تقریر پر بہت سے بھاجپائی کھڑے ہوکر شاباشی دے رہے تھے۔

 مسٹر ایم جے اکبر نے شاہ بانو کے مقدمہ کی بات اٹھائی اور کہاکہ 1986ء میں شاہ بانو کو 127روپئے بطور نان و نفقہ نہ دیا جائے اس کیلئے سارے ملک میں مسلمانوں نے احتجاج کیا اور کہاکہ اسلام خطرہ میں ہے، شریعت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اکبر نے یہ بھی کہاکہ 1947ء سے پہلے اسلام خطرہ میں ہے نعرہ لگاکر ملک کو تقسیم کیا گیا اور اب وہی طاقتیں وہی نعرہ لگاکر ملک اور سوسائٹی کو تقسیم کر رہی ہیں ۔ اکبر نے یہ بات نریندر مودی سے سیکھی ہے کیونکہ مودی جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں ماسٹر ہیں ۔ کسی مسلمان نے نہ 1947ء سے پہلے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’اسلام خطرہ میں ہے‘ اور نہ ہی آج کسی نے اس طرح کا نعرہ بلند کیا۔ اسلام کا دوسرا مطلب حق ہے یا سچائی کبھی خطرہ میں نہیں ہوا کرتی۔ خطرہ میں وہ ہوتا ہے جو حق اور سچائی کو نہیں مانتا اور ناکام بھی وہی ہوتا ہے جو حق اور سچائی پر ایمان نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کو پختہ یقین ہے کہ حق کبھی نہ خطرہ میں ہوتا ہے اور نہ ناکام ہوتا ہے۔ خطرہ میں وہ دنیا ہوتی ہے جو حق کو نہیں مانتی۔ ناکام وہ دنیا ہوتی ہے جو حق کو تسلیم نہیں کرتی۔

 شرعیہ یا شریعت کی بات لوک سبھا کے ممبروں کو اکبر نے سمجھانا شروع کیا اور چاروں اماموں (ائمہ اربعہ) کا نام لے کر یہ باور کرانا چاہا کہ وہ شریعت سے واقف ہیں مگر جب انھوں نے یہ کہاکہ چاروں کے الگ الگ قانون ہیں تو اپنی جہالت کا مظاہرہ کیا کیونکہ ان کو یہ نہیں معلوم کہ چاروں اماموں نے جو کچھ قرآن اور احادیث سے استنباط کیا ہے اس میں بنیادی کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ طلاق کے معاملے میں چاروں ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ آج ایسا شخص فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں کا ترجمان اور نمائندہ بن گیا ہے۔ اسے اسلام اور قرآن کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے ذرا بھی پس و پیش نہیں ہے اور ایک ایسا فرد جس نے اسلام اور مسلم فرقہ کی تذلیل اور تضحیک کرنا اپنا فرض اور کرتب سمجھا ہے وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی نمائندگی اور معتبریت پر سوال اٹھا رہا ہے جس میں مسلمانوں کی ساری تنظیمیں شامل ہیں ۔ خود کیا ہیں ؟ انھیں خود بھی پتا نہیں ہے؟

 لوک سبھا کے بعض ممبران نے بل کی خامیاں بیان کیں کہ اگر شوہر کو جیل بھیج دیا گیا تو پھر بال بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ان کے کھانے پینے کا نظم کیسے ہوگا؟ مگر اکبر اور ان کی زعفرانی پارٹی کی نمرودیت اس پر توجہ دینے سے قاصر رہی۔ بل خامیوں کا پلندہ ہے۔ طلاق تین دی جاتی ہو یا ایک، طلاق ہوجاتی ہے۔ یہی شریعت ہے۔ مسلمان عورت ہو یا مرد یہی تسلیم کرتا ہے۔ جو لوگ تین مانتے ہیں وہ بھی ایک مسلک ہے اور جو ایک مانتے ہیں وہ بھی ایک مکتبہ فکر ہے۔ دونوں شریعت کے دائرے میں آتاہے۔ ایک ماننے والے رجوع بھی کر لیتے ہیں ۔لیکن جو قانون بن رہا ہے اس کے مطابق تین طلاق غیر قانونی ہے اور قابل جرم ہے، جس میں بیوی میاں کو تین سال کیلئے جیل بھجواسکتی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آنے والے قانون کے مطابق طلاق ہوتی نہیں اور وہ بیوی رہتی ہے۔ تو کیا بیوی اپنے میاں کو تین سال جیل بھجوادینے کے بعد وہ اپنے میاں کے ساتھ رہ سکتی ہے یا میاں بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے؟ اگر اتنی بات بھی یہ خر دماغ قانون ساز نہیں سمجھتے تو اور کیا سمجھ سکتے ہیں ؟

  اکبر اپنوں پر انگلی اٹھانے کے بجائے وہ سارے مسلمانوں کو یہ کہہ کر جاہل کہہ رہے تھے کہ مفسر قرآن اور ترجمہ نگار عبداللہ یوسف نے ترجمہ قرآن کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ خدا کا نام لے کر عورتوں پر ظلم کر رہے تھے۔ اکبر نے کہاکہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو خدا کا نام لے کر جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ اکبر اچھی طرح جانتے ہیں کہ افسانوی خداؤں کا نام لے کر سارے ملک میں کون جہالت کامظاہرہ کررہا ہے اور کون کہہ رہا ہے کہ بھگوان گنیش دودھ پیتے ہیں اور کون کہہ رہا ہے کہ پلاسٹی سرجری سب سے پہلے بھگوان گنیش کی ہوئی ہے۔ مسٹر اکبر ذرا اس اخبار کے آج کے اداریہ کو پڑھئے جس کے کبھی آپ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے کہ ملک کے سائنسدانوں کے حوالے سے کیا لکھا گیا ہے:

          "Myths become history when polarization and dominance are the only aims of the reigning dispensation. There could have been no Ramjanmabhoomi saga without this substitution. Rewriting history to glorify ancient India not only to demonstrate the superiority of its civilization but also to prove that this superiority belonged to what is now the majority religion requires exercises in fiction that must throw overboard historical facts as well as scientific reasoning. Such an approach is an attack on science, and "attack” was the word that scientists speaking in Pune at the 83rd Anniversary General Meeting Programme of the Indian National Science Academy also used. The meeting is important because recent news about science projects has been dispiriting, with reports of funds going into the research on the greatness of panchagavya, for example. But scientists in Pune expressed their worry about the "pernicious political landscape” that was affecting research – ironically, India keeps gifting the rest of the world with brilliant scientists at the forefront of overseas projects – and said that the problem of paucity of funds, about which they complain, actually ran much deeper. The implication was that the same political landscape was the cause for funds being held back from research.”

ذرا فرمائیے جہالت کا مظاہرہ کس کی طرف سے ہورہا ہے ۔ ہمیں تو دکھ نہیں ہے کہ آپ نے اندھیروں سے مصالحت کرلی ہے یا سمجھوتہ کرلیا ہے۔ ملال تو یہ ہے کہ اب آپ میں صبح کی طلب بھی نہیں رہی۔ اندھیروں نے پورے طور پر آپ کو کھالیا ہے۔

 آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ’دی ٹیلیگراف‘‘ کے اداریہ کا آخری پیرا گراف بھی ملاحظہ فرمالیں ۔ آپ کو اور آپ کی پارٹی کو اپنی جہالت کا پورا اندازہ ہوجائے گا۔

          "ـEqually important was the reiterated exhortation by scientists to their colleagues to speak up "in unison”. Remaining "non-reactive” to "bizarre statements” being made – plastic surgery on Ganesh, for example, ancient air travel and numerous others, especially in papers in the session on ancient Indian science through Sanskrit at the Indian Science Congress in 2015 – has cost scientists the people’s respect. The suggestion here is of resistance. The Indian scientific community seems to have realized that ignorance, when dominant and politically ill-intentioned, will not go away by itself. It has to be tackled in no uncertain terms. Nurturing and developing the scientific temper among the people was one of the challenges for the leaders of the newly independent India. The Bharatiya Janata Party has been trying to push the country back into a mental space of unscientific beliefs, superstition and irrational faiths and hatreds for the purpose of full political domination. To create a culture of ignorant dependence, it is necessary to suppress learning and research. The only way out is to fight ignorance with knowledge, unreason with reason. India needs to grow that resistance.” (29.12.2017)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔