کانگریس کیلئے گجرات الیکشن کا سبق آموز نصیحت

محمد شمشاد

 الیکشن جہاں جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں کسی ایک پارٹی کی جیت اور دوسرے کو ہار تسلیم کرنا پڑتا ہے لیکن بعض الیکشن میں یکطرفہ نتائج سامنے آتے ہیں تو کبھی مقابلہ برابر کا ہوتا ہے ان حالات میں ہارنے والی پارٹی کو بھی الیکشن جیت کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور وہ پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہتی ہے اسکی مثال بہار،جمو و کشمیر،منی پور اورگوا کی حکومتیں ہیں بہار اور جمو کشمیر کی عوام بھاجپا کے مخالفت میں تھی اوروہ کسی بھی حال میں بھاجپا کو نہیں چاہتے تھے لیکن بھاجپا کے امیت شاہ اور نریندر مودی کی جوڑی نے ڈنڈے کے زور پہ ان دو ریاستوں میں  حکومت کی کرسیاں تھام لیاور وہاں کی عوام انکا منہ دیکھتے رہ گئے ۔

گجرات جہاں 182 سیٹوں کی اسمبلی ہے جس بھاجپا کے 117 اور کانگریس کے پاس کل 61 سیٹیں تھیں اس میں ایک جدیو کے پاس بھی تھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں 80 پر پاٹیدارو ں کا اثرو رسوخ مانا جاتاتھا اور ان میں 44 پر پاٹیدار ممبر اسمبلی تھے جس کی قیادت اس وقت پاٹیدار نوجوان ہاردک پٹیل کر رہے ہیں دوسرے نوجوان رہنما الپیش ٹھاکر ہیں جو او بی سی ایکتا منچ کی قیادت کر رہے ہیں اوبی سی گجرات کے 110 سیٹوں پر اثر رکھتے ہیں اور انہوں نے با ضابطہ طور سے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی جبکہ تیسرے رہنما جنس تیواری ہیں گجرات میں 7% دلت ووٹر ہیں 11% قبائلی ہیں ریاست کی کل 182 سیٹوں میں 40 سیٹیں ایسی ہیں جن میں 27 قبائلی اور 13 دلتوں کے لئے مخصوص ہیں جو دلت و قبائلی کے لئے مخصوص ہیں 10 د لت اکثریت سیٹیں ہیں اسکے علاوہ 26 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں یہ جیت اور ہار کا فیصلہ کرتی تھیں گزشتہ اسمبلی 2012 میں قبائلی سیٹوں پر کانگریس کا دبدبہ تھا وہیں شیڈول کاسٹ کی سیٹوں پر بھاجپا کا دبدبہ تھا ایس ٹی کے 13 سیٹوں میں صرف تین سیٹوں پر کانگریس کو کامیابی ملی تھی جبکہ بھاجپا کو10 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اسی طرح27 قبائلی حلقہ کو دیکھیں تو ان میں کانگریس کو 16 بھاجپا کو 10 اور جدیو کو ایک سیٹ پر کامیابی ملی تھی لیکن اس بار دلت اور پاٹیدار تحریک کی وجہ کر ان 40 اسمبلی میں کانگریس کافی مضبوطی کے ساتھ نظر آئی ہے ۔

دراصل یہاں تجزیہ کرنا اس لئے بھی دلچسپ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے 40،امیت شاہ کی 55اور یوگی آدیتیہ ناتھ کی 32 سبھا ئیں ، تقریبا سبھی مرکزی وزراء،بھاجپا کے سبھی وزرائے اعلی اور ممبر پالیا منٹ کی محنت کے باوجود بھاجپا صرف 99پہ کیسے اٹک کر رہ گئی انکے پانچ وزراء ہار گئے بھاجپا کو احمدآباد، سورت،راجکوٹ اور وروڈرا کے55 سیٹوں میں 46 پر کامیابی ملی جبکہ باقی گجرات کی127 میں سے صرف 53 سیٹیں ہی مل سکی دلچسپ بات یہ کہ گجرات کے سات ضلعوں میں بھاجپا کو ایک سیٹ بھی نہ مل سکی اور آٹھ ضلعوں میں اسے صرف اے ایک سیٹ پر کامیابی ملی اسکے علاوہ بھاجپا کی ان 99 سیٹوں میں 16 سیٹیں ایسی ہیں جن میں بہوجن پارٹی کی وجہ سے کانگریس کو ہار ہوئی ہے ساتھ ہی ساتھ 14 سیٹیں کی جیت ایسی ہے جن پربہت معمولی  فرق یعنی دو ہزار سے کم ووٹوں سے بھاجپا کو جیت ملی ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے گھرلو سیٹ بڈنگر سے بھی بھاجپا کی ہا ر ہوگئی اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ گجرات کے دیہی علاقے کے ووٹروں نے بھاجپا کومستر د کردیا ہے اور انہوں نے بھاجپا کو ووٹ نہیں دیا ہے یہاں بھاجپا نے حکومت تو بنا لی ہے لیکن اسکے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ گجرات کے دیہی عوام یعنی کسان، مزدور اور وہاں کا عام شہری اس سے اتنا خفا کیوں ہے اگر بہوجن پارٹی بھاجپا کے بی ٹیم کے طور پر کام نہیں کرتی تو اسکے لئے حکومت سے ہاتھ دھونا بھی لازمی تھا دوسری طرف کانگریس کو 80 سیٹیں ملیں دیہی علاقے میں کانگریس کامیاب رہی جبکہ شہروں میں ناکام۔

یہ حقیقت ہے کہ کانگریس صدر راہل گاندھی نے گجرات کے اسمبلی الیکشن تین مہینے بھر پور محنت کی تھی جس کے نتیجہ میں انہیں 80 اسمبلی میں کامیابی ملی اس لئے راہل گاندھی اور کانگریس گجرات کے نتیجہ سے مطمئن بھی ہیں لیکن اسکے باوجودکانگریس کواس بات پہ غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اسکے حکمت عملی میں ایسی کون سی کمی رہ گئی تھی جس کے بنا پرانہیں چند سوووٹ کم ملے اور کانگریس کو تقریبا20 سیٹیں گوانی پڑیں سوال یہ بھی اٹھنا لازمی ہے کہ اگر ہاردک پٹیل، الپیش ٹھاکر اور جگنیش موانی انکے ساتھ نہ ہوتے تو کانگریس کا کیا حال ہوتا یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت پورے بھارت میں ریاستی سطح پر کانگریس تنظیمی طور پر بالکل الگ الگ خیموں میں بٹی ہوئی ہے کانگریس کا ہر بڑا لیڈر اپنی اپنی ڈفلی بجا نے میں لگا ہے اس جانب کانگریس نے کبھی کوشش اور پیش رفت نہیں کی ہے کہ انکے لیڈران مل بیٹھ کر انتخاب کی کامیابی کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں اور اسے اپنے مرکزی رہنمائوں کو پیش کریں کہ کس طرح سے کانگریس کو پنچایت سے لیکر ریاستی سطح پر فعال بنا یا جا سکتا ہے کہاں پہ کون کانگریس میں پہلی صف کا رہنماء ہوگا کب کسے کیا رول ادا کرنا ہوگا کسی نیشنل پارٹی کے لئے اس سے بڑی اور بد قسمتی اور شرم کی بات اورکیا ہو سکتی ہے کے انکے سابق صدوراور سینئر رہنما کانگریس کو چھوڑنے کے ساتھ ہی بھاجپا یا این ڈی اے کی کسی پارٹی کوجوائن کر لیتے ہیں یا اسے پوری طریقے سے نقصان پہنچانے کے لئے کوئی نئی پارٹی بنا کر انتخابی میدان میں کود پڑتے ہیں

سیاسی ماہرین مانتے ہیں کہ گجرات ہو یا کوئی بھی ریاستی الیکشن میں جب جب بہوجن پارٹی تنہا الیکشن لڑتی ہے تو اس کا خمیازہ کانگریس اور سیکولر پارٹیوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ کئی الیکشن میں زور آزمائش کے باوجود مایا وتی کو اب تک کوئی بھی کامیابی نہیں مل پائی ہے لیکن اسکے باوجود بھی کئی سیٹوں پراس نے ہار اور جیت کے فیصلہ میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے صرف گجرات ہی نہیں بلکہ علاقائی پارٹیاں اور کانگریس جہاں جہاں بھاجپا کو ہرانے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں مایا وتی جی کی بہوجن سماج پارٹی بھاجپا کی بی ٹیم بن کر سامنے آجاتی ہے اترا کھنڈ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور مہاراشٹرا اسکی مثال ہیں اسی طرح اس نے گجرات میں اپنا کام پوراکردیا ہیدوسری بات یہ ہے کہ چند سو ووٹوں سے کئی سیٹوں پر ہار کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک دو فیصد کی کمی رہ گئی تھی جسے بہت چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار بھی کانگریس کو ہرانے کا کام کر دیتی ہیں جسے عام طور پر بہوجن سماجوادی پارٹی کرتی رہی ہے الیکشن کے قبل کانگریس کو ان پارٹیوں سے کوئی معاملہ طے کرنا چاہئے جس طریقے سے کانگریس نے بہار میں راشٹریہ جنتادل کے ساتھ کیا تھا

 قابل غور بات یہ ہے کہ اس انتخاب کے 1985 میں کانگریس گجرات کی 149۱ سمبلی پر قبضہ کیا تھا لیکن 1990 میں وہ 33سیٹ پر سمٹ گئی 1995 میں 45،پھر 1998 میں 53،2002میں 51،2007 میں 59 اور 2012 میں 61 نشستیں ملی تھیں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں بھاجپا 59% ووٹ لیکر 26 سیٹیں جیتیں تھی جبکہ کانگریس کو صرف 33%اورکوئی بھی سیٹ نہیں ملی تھی اور دونوں کے ووڈوں میں 26% کا فاصلہ تھالیکن اس انتخاب میں یہ فاصلہ گھٹ کر صرف 7% رہ گیا ہے اگر شہری علاقے میں کانگریس کی پوزیشن تھوڑی بہتر ہوجاتی تو شاید کانگریس بھاجپا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کہیں آگے نکل سکتی ہے

 سال 2018 میں کرناٹک،مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ،راجستھان سمیت آٹھ اسمبلی الیکشن ہونا ہے کانگریس کو اس بات پہ غوروفکر کرنا چاہئے کہ ان ریاستوں میں پارٹی کو پنچایت، بلاک،ضلع اور ریاستی سطح پرکیسے فعال بنایا جائے تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو گھر سے نکال کر ہر بوتھ تک لے کر آئیں اوروہ اپنے ووٹوں سے کانگریس کو کامیاب بنا سکیں اگر راہل گاندھی اس چلینج کو قبول کرنے کو تیار ہیں تو پھر سے کانگریس میں جان لائی جاسکتی ہے ورنہ راہل گاندھی کو کانگریس کا بننے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا

80 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر کے کانگریس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اب اقتدار کے قریب آچکی ہے قابل ذکر بات یہ ہے کہ کانگریس نے بھاجپا کے گڑھ گجرات میں اپنی ترقی کی منزلیں اسوقت حاصل کی ہے جب بھاجپا کا سب سے قدآور رہنما نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم کی کرسی پرہیں اوربھاجپا صدر امیت شاہ بھی گجرات سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں کی جوڑی ایک کے بعد ایک ہر ریاستی انتخاب جیتی آرہی ہے یہ حقیقت ہے کہ 2013 کے بعد سے جس طرح سے کانگریس انتخاب ہا رہی تھی اس کانگریس مکت بھارت کا بھاجپا کا خواب حقیقت کی جانب رواں دواں تھا لیکن گجرات کے انتخاب میں برتری دکھانے کے بعد کانگریس کا حوصلہ بڑھنا طے ہے بلکہ 2019 کے انتخاب کی تیاری کے لئے کانگریس میں جان پھوکنے کے لئے بہت بہتر نتائج تسلیم کیاجارہا ہے بلکہ اسے 2019 کے عام انتخاب کا فاتح تسلیم کیا جارہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔