برما کی روہنگیا مسلم کمیونٹی کے ‘اچھے دن’ آنے کی امید

برما کی روہنگیا مسلم کمیونٹی جو طویل عرصے سے اپنے ہی ملک میں قید و بند کی سی صعوبتوں کا شکار ہے ،ان کے لیے گزشتہ ہفتے ترکی کے وزیر خزانہ میولیٹ شاوغلو کا ترکی دورہ امید کی نئی کرن بن کر ابھرا ہے ۔ ترکی کے وزیر خزانہ نے اپنے سرکاری دورے میں طے شدہ تجارتی معاہدوں پر دستخط کے ساتھ ساتھ برما کی اعلیٰ قیادت سے روہنگیا مسلم کمیونٹی کے مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا ۔ انہوں نے اس موقع پر برما کے ارکان صوبے میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے ساتھ افطار کیا، افطار کے بعد ایک بڑے مجمع سے خطاب میں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہم خطے کے روہنگیا مسلم کمیونٹی کے مسائل پر برماکی اعلیٰ قیادت سے بات چیت کر رہے تاکہ ان کی شہریت کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے ۔ اس موقع پر میڈیا نے جب ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک روہنگیا مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود ترجیحات میں شامل ہے انہوں نے کہ ہم صرف مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرتے ہمارے نزدیک خطے میں بسنے والے سبھی محروم طبقات کے مسائل یکساں ہیں ،ہم ان کے لیے یہاں کی حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں اور اپنی جانب سے ہر ممکن مدد فراہم کر نے کے لیے تیات ہیں ۔
انہوں نے آنگ سانگ سوکی ،صدر ہیتین کیاو اور فوج کے اعلیٰ کمانڈرمن آنگ ہیلنگ سے دو طرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کیا ، ترکی اور برما کے درمیان 50 برس بعد قربت کا یہ سلسلہ گزشتہ مارچ میں اس وقت شروع ہوا تھا جب سو کی کے صدر بننے کی راہیں کھلی تھیں ، ترکی نے موجودہ حکومت کی تعریف کی ہے اور اپنی جانب سے برما کو ہر ممکن اخلاقی اور مالی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔غور طلب امر یہ ہے کہ ترکی کے وزیر خزانہ کا اس سرکاری دورے میں ارکان صوبے کا دورہ بھی شامل تھا ،اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ترکی کے نزدیک روہنگیا مسلم کمیونٹی کے مسائل کا حل ترجیحات میں شامل ہے ، اس موقع پر منعقد افطار پرو گرام میں چار ہزار سے زائد روہنگیا مسلم کمیونٹی نے شرکت کی ، وزیر موصوف نے اسٹیج سے اتر کر پروٹوکول کی گھیرا بندی سے نکل کر لوگوں سے معانقہ کیا، ان کا حال دریافت کیا ، انہیں صبر کی تلقین کی ، ہر ممکن مدد کی یقین کرائی ۔
ترکی اس خطے کے مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتا ہے اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی درستگی ، اسکول اور ہسپتال کے قیام کے لیے کوشاں ہے ، ترکی یہ کام ‘ٹرکش کو آپریشن اینڈ کو آرڈی نیشن ایجینسی ‘ کے ذریعے کر رہا ہے ترکی کا کہنا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر دنیا کے کسی بھی خطے کے لوگوں کی مدد کرتا ہے ۔ برما کے روہنگیا مسلمان اپنے ہی ملک میں 2012 سے شدید ظلم و تششد اور ایک خاص قسم کے امتیازی سلوک کے شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ "ہماری کوشش ہو گی کہ ہم حکومتی سطح پر اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کریں ، ہم برما کی حکومت اور یہاں کی مسلم آبادی کے درمیان اپنی مفاہمتی کو ششیں جاری رکھیں گے” ، انہوں نے لوگوں سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں ہم آپ کے پاس آتے رہیں گے ، اس موقع ترک سفارت خانے کے تعاون سے ترک ایجینسی نے افطار کٹ بھی تقسیم کیے ۔
برما کی قیادت پر یاد کیجے عالمی دباو کا یہ سلسلہ جون 2015 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب بھوک اور مشکل ترین حالات سے دوچار افراد کی تصاویر میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچںی تھیں ، تھائی لینڈ کی دارالحکومت بنکاک میں 29 مئی کو 17 ممالک کے وفود اس انسانی مسئلے کو لیکر جمع ہوئے تاکہ خلیج بنگال میں موجود کشتیوں میں سوار ہزاروں برمی تارکین وطن کے مسئلے کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ اس طرح عالمی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے کے اسسٹنٹ ہائی کمشنر فار پروٹیکشن، فولکر ترک نے افتتاحی خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ برما کو روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے جو قتل وغارت گری سے بچنے کے لیے برما کے مغربی علاقوں سے کئی برسوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔
فولکر ترک کا کہنا تھا کہ اصل وجوہ تک پہنچنے کے لیے ”برما کی طرف سے اپنے تمام لوگوں کی مکمل ذمہ داری اٹھائے جانے کی ضرورت ہو گی”۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دیا جانا ہمارا اصل مقصد ہے۔ برما 13 لاکھ روہنگیا مسلما نوں کو شہریت دینے سے انکارکر رہا ہے اور انہیں باقاعدہ نسلی اقلیت کے طور پر تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتا رہا ہے۔ وہ انہیں ‘بنگالی’ قرار دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی ہیں۔
اس لحاظ سے ترک وزیر خزانہ کا برما دورہ یقینا بڑی اہمیت کا حامل ہے ، تجارتی معاہدوں کے علاوہ پہلی بار کسی ملک نے روہنگیا مسلمانوں کے ایشو کو باقاعدہ طور پر اپنے سرکاری دورے کا حصہ بنایا ، ترکی کی اس درخواست کو برما کی اعلیٰ قیادت نے تسلیم کر کے جس وسیع القبی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ برما کے موقف میں یہ تبدیلی یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ سفارتی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے چہار جانب سے پہل کی مزید سنجیدہ کو ششیں ہونی چاہیے ۔ اس موقع پر یہ بھی ظاہر ہوا کہ روہنگیا ایشو پر فوجی حکومت کے موقف سے موجودہ منتخب حکومت اتفاق نہیں کرتی ، البتہ ابھی گفتگوکی تفصیلات کا انتظارہے کہ ترک وزیر خزانہ کی برما کی قیادت سے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل پر کیا بات ہوئی ، کون کون سے امور زیر غور آئے ،اور برما کی قیادت نے اس پر کیا یقین دہانی کرائی ہے ، مزید تفصیلات کے لیے ابھی ہمیں انتظار کر نا ہوگا ۔ طویل عرصے بعد برف پگھلی ہے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے اس پہل کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور امید کی جانی چاہیے کہ برما کی قیادت روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کے حل میں عنقریب مثبت قدم اٹھائے گی.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔