خدا بندوں کی پکار کا جواب دیتا ہے

وہ سب سے قریب بھی ہے اور مجیب بھی ہے

عبدالعزیز
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ہم بندہ کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘ (ق:16)۔ اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک ہم جانتے ہیں‘‘ (ق:16)۔ یعنی دنیا میں کوئی فرد کوئی چیز اللہ سے زیادہ بندوں کے قریب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فرد یا شئے بندوں کے حالات سے اللہ سے زیادہ باخبر ہے۔ اللہ انسان کے اندر ابھرنے والے وسوسوں سے اور جذبات سے بھی باخبر ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ اللہ کے سوا کسی اور کا نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے کیونکہ بندوں کا خالق، مالک، حاکم اور پروردگار وہی ہے۔ وہی زندگی اور موت کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے۔ وہی ایک دن ہر انسان کے چھوٹے بڑے کاموں کا حساب لے گا۔ جو لوگ اللہ کے منکر ہیں اللہ دیکھئے انھیں کس طرح سمجھاتا ہے اور ان کو اپنی نشانیوں کی طرف کیسے متوجہ کرتا ہے؟
’’تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اس رحمن اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ (اس حقیقت کو پہچاننے کیلئے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کیلئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
صاحب تفہیم القرآن نے سورہ بقرہ کی 164 اور 165 کی آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے اور ضد یا تعصب سے آزاد ہوکر سوچے تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں، اس نتیجے پر پہنچانے کیلئے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق حکیم کے زیر فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کیلئے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کا خدا ہے، اس کے سوا کوئی دوسری ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور الوہیت میں اس کا کوئی حصہ ہو۔
خدائی کی جو صفات اللہ کیلئے خاص ہیں، ان میں سے بعض کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا ان میں سے بعض حقوق یہ لوگ ان دوسرے بناوٹی معبودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلۂ اسباب پر حکمرانی، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دعائیں سننا اور غیب و شہادت ہر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اسی کو مقتدر اعلیٰ مانیں، اسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سر جھکائیں، اسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجوع کریں، اسی کو مدد کیلئے پکاریں، اسی پر بھروسہ کریں، اسی سے امیدیں وابستہ کریں اور اسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیت کیلئے حلال و حرام کے حدود مقرر کرے، ان کے فرائض و حقوق معین کرے، ان کو امر و نہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کن کاموں میں کن مقاصد کیلئے استعمال کریں۔ اوریہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبع قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختار سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں ا س کے فرمان کو فیصلہ کن قرار دیں اور ہدایت و رہنمائی کیلئے اسی کی طرف رجوع کریں۔ جو شخص خدا کی ان صفات میں سے کسی صفت کو بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے اور اس کے ان حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اسے خدا کا مد مقابل اور ہمسر بناتا ہے اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ ان صفات میں سے کسی صفت کا مدعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی در اصل خدا کا مد مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے‘‘۔
قریب اور مجیب: سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ثمود کی طرف ہم نے اس کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمیں سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے۔ لہٰذا تم اس سے معافی کی طرف پلٹ آؤ یقیناًمیرا رب قریب ہے اور دعاؤں کا جواب دینے والا ہے‘‘ (ہود:61)۔
’’یہ دلیل اس دعوے کی جو پہلے فقرے میں کیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی خدا اور کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ مشرکین خود بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ان کا خالق اللہ ہی ہے۔ اسی مسلمہ حقیقت پر بنائے استدلال قائم کرکے حضرت صالح ان کو سمجھاتے ہیں کہ جب وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کے بے جان مادوں کی ترکیب سے تم کو یہ انسانی وجود بخشا اور وہ بھی اللہ ہی ہے جس نے زمین میں تم کو آباد کیا تو پھر اللہ کے سوا خدائی اور کس کی ہوسکتی ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے کہ تم اس کی بندگی و پرستش کرو۔
اب تک جو تم دوسروں کی بندگی و پرستش کرتے رہے ہو اس جرم کی اپنے رب سے معافی مانگو۔
یہ مشرکین کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا رد ہے جو بالعموم ان سب میں پائی جاتی ہے اور ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جنھوں نے ہر زمانہ میں انسان کو شرک میں مبتلا کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ کو اپنے راجوں مہاراجوں اور بادشاہوں پر قیاس کرتے ہیں جو رعیت سے دور اپنے محلوں میں داد عیش دیا کرتے ہیں جن کے دربار تک عام رعایا میں سے کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی، جن کے حضور میں کوئی درخواست پہنچانی ہو تو مقربین بارگاہ میں سے کسی کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور پھر اگر خوش قسمتی سے کسی کی درخواست ان کے آستانۂ بلند پر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کا پندارِ خدائی یہ گوارا نہیں کرتا کہ خود اس کو جواب دیں، بلکہ جواب دینے کا کام مقربین ہی میں سے کسی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ اس غلط گمان کی وجہ سے یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ایسا سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے کہ خداوند عالم کا آستانۂ قدس عام انسانوں کی دست رس سے بہت ہی دور ہے۔ اس کے دربار تک بھلا کسی عامی کی پہنچ کیسے ہوسکتی ہے۔ وہاں تک دعاؤں کا پہنچنا اور پھر ان کا جواب ملنا تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ پاک روحوں کا وسیلہ نہ ڈھونڈا جائے اور ان مذہبی منصب داروں کی خدمات نہ حاصل کی جائیں جو اوپر تک نذریں، نیازیں اور عرضیاں پہنچانے کے ڈھب جانتے ہیں۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس نے بندے اور خدا کے درمیان بہت سے چھوٹے بڑے معبودوں اور سفارشیوں کا ایک جم غفیر کھڑا کر دیا اور اس کے ساتھ مہنت گری (Priesthood) کا وہ نظام پیدا کیا جس کے توسط کے بغیر جاہلی مذاہب کے پیرو پیدائش سے لے کر موت تک اپنی کوئی مذہبی رسم بھی انجام نہیں دے سکتے۔
حضرت صالح علیہ السلام جاہلیت کے اس پورے طلسم کو صرف دو لفظوں سے توڑ پھینکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ قریب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ مجیب ہے، یعنی تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ وہ تم سے دور ہے اور یہ بھی غلط ہے کہ تم براہ راست اس کو پکار کر اپنی دعاؤں کا جواب حاصل نہیں کرسکتے۔ وہ اگر چہ بہت بالا و برتر ہے مگر اس کے باوجود وہ تم سے بہت قریب ہے۔ تم میں سے ایک ایک شخص اپنے پاس ہی اس کو پاسکتا ہے، اس سے سرگوشی کرسکتا ہے، خلوت اور جلوت دونوں میں علانیہ بھی اور بصیغۂ راز بھی اپنی عرضیاں خود اس کے حضور پیش کرسکتا ہے۔ اور پھر وہ براہ راست اپنے ہر بندے کی دعاؤں کا جواب خود دیتا ہے۔ پس جبسلطان کائنات کا دربار عام ہر وقت ہر شخص کیلئے کھلا ہے اور ہر شخص کے قریب ہی موجود ہے تو یہ تم کس حماقت میں پڑے ہو کہ اس کیلئے واسطے اور وسیلے ڈھونڈتے پھرتے ہو‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔