حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran  قسط (1)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

’’قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ‘‘اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتی کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا صدمہ لگتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء میں تیار کی گئی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا شاک لگتا ہے۔
ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق کوئی بھی ایسی کتاب جو کسی ٹھیٹھ صحراء میں تخلیق دی گئی ہو، اس کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہی ہو نا چاہیے ۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیاہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنوروغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نماہوتا ہے۔
اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہازراں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہازراں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمدؐ کوئی جہازراں تھے………..؟
یعنی اس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سیمتعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ تھا۔ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’’ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرانشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہازراں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے، اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظرکشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو، ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں:
(أَوْ کَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا )(النور: 40) ’’یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔‘‘
مذکورہ بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہواور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کی گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔
یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید ومربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرانشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔
بعثتِ محمدیﷺ سے بہت پہلے دنیا میں ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ(Theory of Atom) موجود تھا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں یونانی فلاسفہ خصوصاً ڈیموکرائیٹس(Democritus) کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے، تا آنکہ بعد میں آنے والی نسلوں میں اس نظریہ کو مسلم الثبوت عقیدہ کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ وہ نظریہ کیا تھا ؟یونانی فلسفہ کی رو سے ہر مادی شے کچھ چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اجزاء(ذرات) اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہماری قوتِ بینائی ان کا ادراک نہیں کر پاتی، اور یہ ناقابلِ تقسیمہوتے ہیں۔
عربوں کے یہاں بھی ایٹم کایہی تصور رائج تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں ذرہ(ایٹم) کا لفظ کسی بھی مادی شے کے ادنیٰ ترین جز پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سائنس کی رو سے کسی بھی شے کا چھوٹے سے چھوٹا جز (ذرہ)بھی عنصری خصوصیات کا حامل ہوا کرتا ہے، اور اس کو اس کے عناصرِ ترکیبی میں بانٹا جانا ممکن ہے۔ یہ جدید نظریہ جس کے واقعاتی شواہد موجود ہیں دورِ حاضر کی پیداوار ہے، اور عصرِ حاضر سے پہلے اس کا وجود علمی دنیا میں ناپید تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی اس دریافت(Discovery) کا تذکرہ چودہ صدی قبل نازل شدہ قرآن میں پایا جاتا ہے۔ (وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ)(یونس:61) ’’کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ اس سے چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ چودہ صدی قبل کے عرب باشندے جو کہ کسی شے کے ادنیٰ ترین جز کو ذرہ کے نا م سے جانتے تھے، ان کو قرآن کی یہ تصریح بڑی غیر فطری اور غیر مانوس معلوم ہوئی ہوگی۔لیکن در حقیقت یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ زمانہ اپنی تیز رفتاری کے باوجود قرآن پر سبقت نہیں لے جا سکتاہے۔
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دیگر تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعتاایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔
یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت وصفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں، لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادئ النظر ی میں غیر مسلموں کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے، ان کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں کر اللہ تعالیٰ نے انمفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں شامل نہیں فرمادیا؟
بعض مسلم دانشوران نے مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم وحکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں نبئ کریمﷺ کی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ(Outdated) سمجھی جانے لگیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ نئی دریافتوں کے بوجھ تلے دب کر کچھ دون ہمت یہاں تک کہہ جائیں:’’نبئ اکرمﷺ کی دی ہوئی طبی ہدایات ہماری جدید معلومات سے متصادم (Contradict)ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کو یہ کہہ سکنے کا موقعہ نہیں دیا کہ’’ قرآن میں تناقض ہے، کیونکہ ایک طرف تووہ ’’لایأتیہ الباطل‘‘ کا دعویدار ہے اور دوسری طرف اس میں غلط طبی معلومات مندرج ہیں‘‘، یا یہ کہ’’ قرآن اور اس کے نبی ﷺکی تعلیمات میں تناقض ہے‘‘۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔
میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گااور مذکورہ بالا فضول بحث ومناقشہ کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تومحمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات ونصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آکر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر وطرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت ،بلکہ اس کیخالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ ہی اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں چیز مفیدِ صحت ہے یا فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفابخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے، اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے ۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیاہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔
اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری وعقلی رجحانات کا کچھ نا کچھ پرتو(Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈھ نکالیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلوپیڈیاز(Encyclopedias) اورنام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمدؐ پر واردہونے والے خیالات وتوہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ اگر ہم اس کو صحیح مان بھی لیں یعنی ہم اقرار کر لیں کہ محمدﷺکو (العیاذ باللہ)کچھ نفسیاتی بیماریاں(Psychological Problems) اور عقلی فتور لاحق تھا اور قرآن انہی علتوں کا خیالی پلندہ ہے، تب بھی ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت ودلائل تلاش کریں۔
لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں؟اس اہم سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن ودماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد ؐ کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔