دہشت گردی کےدوچہرے؟

احمد جاوید

 عالمی استعمار بھی ہمارے ان نام نہاد قوم پرستوں سے کسی طرح کم نہیں ہےجوسہولت کے مطابق جب چاہتے ہیں دنگائیوں کی پیٹھ پرکھڑے ہوجاتے ہیںجب چاہتے ہیں رخ پھیر لیتے ہیں۔ دنیا کو دہشت زدہ کرنے کے لیے یہ دہشت گردی کی پرورش بھی کرتاہے اور استبدادقائم رکھنےکے لیے اس سے لڑتا بھی رہتاہے۔گویا اس دجال کے بھی دونوں ہاتھوں میں جنت ہے۔

جمعرات کو جس وقت عراقی فوج فلوجہ کے گورنرہاؤس پر عراق کا پرچم لہراکر داعش کی پسپائی کااعلان کررہی تھی عین اسی وقت شمالی شام میں روس کے طیارے ان باغیوں کے کیمپوں پر بمباری کررہے تھے جو یہاں داعش سے برسرپیکار ہیں۔اسی کے ساتھ امریکی میڈیا میں زوروشورسے یہ خبریں آنے لگیں کہ جمعرات کو شمالی شام میں ہونے والی اس بمباری سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہےاور دنیابھرکے ذرائع ابلاغ نے اس کو تواتر کے ساتھ دوہرانا شروع کردیا۔ اس سے ایک دن قبل امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے روس اور شام کو خبردار کیا تھا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کا احترام کرے۔ دوسری طرف روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف کا الزام ہے کہ امریکہ شام کی قانونی حکومت کو گرانے کے لیے دہشت گردگروہ الجبھۃ النصرۃ سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہے۔سرگئی لاروف نے یہ بات کوئی ڈھکے چھپے انداز میں نہیں کہی، سینٹ پیٹرس برگ کے بین الاقوامی اقتصادی اجلاس میں شام سے متعلق امریکی پالیسی کے بارے میں انہوں نے بالکل صاف صاف کہا کہ وہ بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے دہشت گرد گروہوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتاہے۔یہ سب کچھ اس وقت ہورہاہے جب امریکہ اور روس شام کے نئے آئین کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔اگرسرگئی لاروف کا یہ دعوی بےبنیاد نہیں ہے کہ شام کی خانہ جنگی نہ رکنے کی ایک اہم وجہ النصرہ اور اس کے حلیف گروہوں کی امریکی پشت پناہی ہےاورامریکی حکام دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کے ذریعے شام کی قانونی حکومت کو گرانے کا کھیل کھیل رہے ہیں توگویاسرحد کی اس پارفلوجہ میں امریکہ عراقی افواج کے ساتھ جن دہشت گردوں سےلڑرہاہے، اس پار حلب اورشام کے دوسرے شہروں میں بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے ان ہی دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی کررہاہے۔جو جبھۃ النصرہ عراق میں دہشت گرد وں کی جماعت ہے وہی شام میں انقلابیوں کا گروپ۔

  دہشت گردی کے یہ دونوں چہرے اور عالمی طاقتوں کا یہ دوہراکھیل نیا نہیں ہے۔اوریہ کھیل امریکہ پہلی بار شام میں نہیں کھیل رہاہے۔یہی کھیل اس نے افغانستان میں کھیلا، اسی کھیل نے عراق کو اس کے زیر دام لایا، یہی کھیل وہ پاکستان میں کھیلتا آیاہے اور یہی کھیل وہ اب شام میں کھیل رہا ہے۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی مانیں تو دہشت گردی امریکہ کے لیے ایک ہتھیار اورایک آلہ کار ہے۔ جہاں دہشت گردی کی آڑ میں اپنے مفادات کا حصول ممکن نظر آتاہے وہ اسکی کہیں کھلی اور کہیں چھپی پشت پناہی کرتاہےاور جہاں جہاں صورت اس کے برعکس ہوتی ہے، یہی دہشت گردی نہ صرف امریکہ اپنے لیے بلکہ دنیا کے لیے سب سے بڑاخطرہ بن جاتی ہے۔اس طرح دیکھیں تو عالمی استعمار دنیا کو دہشت زدہ کرنے کے لیےدہشت گردی کی پرورش بھی کرتاہے اوردنیا پر قابض رہنے کے لیے اس سے لڑتا بھی رہتاہے۔گویا اس دجال کے دونوں ہاتھوں میں جنت ہے۔

 دہشت گردی کے اس دوہرے کھیل میں مارے جاتے ہیں انسان، تباہ ہوتی ہے انسانیت، میدان جنگ بنتے ہیں مشرق کے وہ ممالک جہاں قدرتی وسائل کے قیمتی ذخائر ہیں یا جہاں ہتھیاروں اور اشیائے مصارف کے بازار ہیں۔کسی زمانے میں وطن عزیز کے ایک بڑے قومی رہنما نے کانگریس کی صدر اور اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ اندراگاندھی کے تعلق سے کہا تھا’ محترمہ مسائل کا بیج بوتی ہیں، ان کو سینچ کربڑا کرتی ہیں لیکن جب اس کے کانٹے خود ان کو چبھتے لگتے ہیں تو پیڑ کو ہلادیتی ہیں تاکہ وہ سوکھ جائیں‘۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہ فارمولہ ہربار یکساں نتائج نہیں دیتا۔خود اندراگاندھی کی اس پالیسی کا کیا انجام ہوااس پر آج کسی تبصرے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔امریکہ نے اس کی کونسی فصل افغانستان میں کاٹی یا عراق کو غیر مستحکم کر کے دنیاکتنی محفوظ ہوئی یا کتنی غیرمحفوظ ہوگئی ،یہ حقیقت اب کس سے پوشیدہ رہ گئی ہے۔لیکن اس دنیا کا اصل المیہ یہ ہے کہ کسی نے آج تک اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔نہ امریکہ اپنے اعمال سے تائب ہوتا ہے نہ دنیا کے دوسرے ممالک اور ان کے ارباب سیاست و اقتدار اس کھیل سے باز آتے ہیں۔

دور کہاں جاتے ہیں،گجرات کے 2002ء کے مسلم کش فسادات کے دوران احمد آبادشہر کی ایک خوشحال کالونی (گلبرگ سوسائٹی) پر فرقہ پرستوں کا منظم حملہ اورسوسائٹی کے باشندوں کو زندہ جلایا جانا آپ کی نگاہوں میں ہوگا اور اب جو اس کیس میں چودہ برسوں کی قانونی لڑائی کے بعد جو فیصلہ آیاہے وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔اس فیصلہ کے آنے کے بعد اس جماعت کے ایک بڑے لیڈر نے نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ کہا کہ گجرات میں اس سے پہلے بھی فسادات ہوئے ہیں، 1967ء میں تو تین ہزار لوگ مارے گئے تھے لیکن کیااب تک کسی فساد کے مجرموں کو کوئی سزاہوئی۔پہلی بارفسادات کے مجرموں کو سزاسنائی جارہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گجرات کی موجودہ حکومت قانون اور انصاف کی حکومت ہے۔اگر عدالتوں اورتحقیقاتی کمیشنوں کے وہ تبصرے غلط نہیں ہیں جن میں حکمراں جماعت کے لوگوں اور اس کے حمایت یافتہ گروہوںکو بے گناہوں کےقتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایاگیاہے تواس پر اس سے زیادہ کیا کہا جاسکتاہے کہ یہ ایک ہی عفریت کے دو چہرے ہیںاور یہ دونوں انسانیت کا خون پیتے ہیں۔اسی سیاست نے اپنی آتش فشانی سے دنگے بھڑکائے، شعلوں کو ہوادی، انسانوں کو بھیڑبکروں کی طرح ذبح کرایااور ان کی لاشوں پررقص حیوانیت کیااوراب اسی سیاست کا حوصلہ دیکھیے کہ مجرموں کو سزاسنائی گئی تو جشن منارہی ہے کہ دیکھ لو ہماری ریاست میں انصاف کا راج ہے۔یہ دوہراکھیل کسی ملک یا صوبے میں ہو یا اقوام عالم کے درمیان اور بین الاقوامی سطح پرجب تک چلتا رہے گا، انسانیت چین کا سانس نہیں لے سکتی۔

  جمعہ کو جس وقت ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار یہ کہہ رہاتھا کہ روس کے طیاروں نے شمالی شام میں داعش سے برسرپیکار ان باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے اچھا نہیں ہےجنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے، عین اسی وقت سی آئی اے کا سربراہ جان برینن یہ کہہ رہاتھا کہ داعش کے ہزاروں شدت پسند دنیا بھر میں پھیل چکے ہیںاور یہ بین الاقوامی دہشت گردگروہ اب بھی دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے۔دوسری جانب

جان کیری کے یہ الفاظ فضا میں گونج رہے تھے ’روس کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا صبر لامحدود نہیں ہے‘۔

امریکہ 2015ء کے اوائل سے شام میں اپنےپسندیدہ  باغیوںکی تربیت کے لیے ایک پروگرام چلا رہا ہے۔وہ اس پروگرام کو داعش کے خلاف اعتدال پسندباغیوں کی تربیت کا نام دیتاہے۔اس کا دعوی ہے کہ اس کے اس پروگرام کو محدود کامیابی حاصل ہوئی ہے اور امریکہ کے محکمہ دفاع نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے باغیوں کی پوری یونٹوں کے بجائے محدود تعداد کو تربیت دینا شروع کی ہے لیکن اسے اس حقیقت کا قطعی کوئی احساس نہیں ہے کہ اس کی اسی حکمت علمی اور اسی قسم کے تجربوں نے دنیاکے متعدد ملکوں میں دہشت گردی پھیلانے اور اس وبا کو لاعلاج بنانے کا کام کیا ہے کیونکہ تشدد شیرکی سواری ہے جس پرچڑھناآسان ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔