منافق آستین کے سانپ ہوتے ہیں۰۰۰!

گھریلو سانپ کو عزت اور تحفظ کے آستینوں میں بٹھانا منع ہے

عبدالعزیز
ہم مسلمان منافقت اور منافق کی اصطلاح سے کما حقہ واقف ہیں مگر اس کی جو پہچان اللہ کے رسولؐ نے بتائی ہے شاید کم لوگ واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے سے اچھے لوگ اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں مگر ان کو اپنی بیماری کا حال معلوم نہیں ہوتا اور جو لوگ معاشرہ کو پاکیزہ اور بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اگر ایسے لوگوں کو جو منافقت کے مرض کے شکار ہیں انھیں ان کی حالت سے آگاہی نہیں دیتے تو دوسرے لوگ بھی اس بیماری میں دیر سویر مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ منافقوں کی منافقت کو ایک عرصہ تک در گزر کرتے رہے لیکن جب اسلام اور مسلمانوں کو طاقت مل گئی تو اللہ کی طرف سے ان کے ساتھ سختی برتنے کا حکم دیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی اللہ نے رسولؐ کو منع کر دیاتھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ’’اے نبی! تم خواہ ایسے لوگوں کیلئے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی انھیں معاف کر دینے کی درخواست کروگے تو اللہ انھیں ہر گز معاف نہیں کرے گا‘‘ (سورہ توبہ 80)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چار صفتیں بیان کی ہیں:
’’چار صفتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب بولے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرجائے اور جب لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
خدا نخواستہ کوئی ان چاروں خصلتوں کا پیکر ہو تو اسے پکا اور خالص منافق کہا گیا ہے۔ اب ہر شخص مذکورہ حدیث کی روشنی میں اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ آیا وہ منافقت کی لعنت میں مبتلا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی ایک صفت بھی کسی میں منافق کی ہے تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے اور جس قدر جلد ممکن ہو اسے چھوڑ دے۔ اگر چاروں خصلتیں ہوں تو ایک ایک کرکے اسے چھوڑ دے اور توبہ کرے کہ آئندہ ان بد خصلتوں سے دور رہے گا۔ جو لوگ ان خصلتوں کے حامل ہوتے ہیں منافقت کو چھوڑ دینے کی فکر نہیں کرتے ان کو دنیا میں بھی بہت بڑی رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخرت میں انھیں سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جہنم میں منافق سب سے نیچے درجے میں رہے گا۔
قرآن مجید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، آخر کار ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے‘‘ (سورہ توبہ:73)۔
سورہ توبہ میں بڑی تفصیل سے منافقوں پر لعنت و ملامت کی گئی ہے۔ آیت 73میں ان سے سختی سے پیش آنے کی بات بھی کہی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہورہا تھا اور اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جو لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے، ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کیلئے کافی موقع دینا مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہورہا تھا، اس لئے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہوگیا تھا تاکہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرکے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کرسکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے 9 سال تک سوچنے، سمجھنے اور دین حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جاچکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی، اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لئے حکم ہوا کہ کفار کے ساتھ ساتھ اب ان منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے، اسے ختم کرکے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے۔
منافقین کے خلاف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ در اصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے جو چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آئندہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرز عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسولؐ اور اہل ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے تو اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کیلئے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کیلئے بند رہے، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے‘‘۔
یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے بھی محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کی پرورش و پرداخت کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لئے پھرتا ہے۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہوجائیں اور یہ خیال عام ہوجائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے کیلئے اخلاص، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہار، ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کرکے بھی یہاں آدمی پھل پھول ہوسکتا ہے۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ ’’جس شخص نے کسی صاحب بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ در اصل اسلام کی عمارت ڈھانے میں مددگار ہوا‘‘۔
قرآن اور احادیث میں پڑھنے یا سننے کے بعد بھی کوئی شخص اپنی منافقت سے اگر باز نہیں آتا تو اس کی بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ ایسے بدنصیب شخص سے دوری بنائے رکھنا ہی بہتر ہے۔ کیوں کہ منافق کبھی کسی کا نہیں ہوسکتا۔ اداروں اور تنظیموں میں اس طرح کے لوگ زہر ہلاہل سے کم نہیں ہوتے۔ یہ ایک دوسرے کو لڑانے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ان سے اگر ادارے پاک نہیں ہوتے تو اداروں یا تنظیموں کی ترقی رک جاتی ہے۔ اسی طرح معاشرہ میں بھی اگر ان کی چلت پھرت پر نظر نہ ہو اور ان کو بے نقاب نہ کیا جائے تو معاشرہ بھی تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔