بے نقاب ہورہے ہیں سیکولرزم کے لبادہ میں چھپے دشمن!

میم ضاد فضلی

گزشتہ 21ستمبر 2018 کو حسب توقع  بی ایس پی سپریمو مایا وتی نے عوام اور سیکولر ہندوستا نیو ں کے ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے چھتیس گڑھ میں اجیت جوگی کی پارٹی کے ساتھ اتحاد اور مدھیہ پردیش میں تنہا انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ سنادیا۔اگرچہ مایا وتی کے اس اعلان پر  امن پسند ہندوستا نیوں کو تعجب بھی ہوا ہوگا۔ مگر جو سیاسی تجزیہ نگار ان کی سابقہ تاریخ اور موقع پرستی سے واقف ہیں ان کیلئے اس فیصلہ میں استعجاب جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ وہ  ہمیشہ اپنی زبان سے بی جے پی پر فقر ے کستی رہی ہیں، مگر ان کی کار کردگی بتاتی ہے کہ اقتدار اور ذاتی فائدہ کیلئے مایاوتی نے کبھی بھی موقع پرستی کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ چاہے وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں متعدد بار سرکار بنا نے کا معاملہ ہو یا سیکولر فورس سے بغاوت کرکے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ۔ وہ ہمیشہ سیکولرزم کی آنچ پر اپنے مفاد کی روٹی سینکتی رہیں ہیں۔

ملک کی سیاسی سرگرمیوں کا  باریکی سے معاینہ کرنے والے لوگ    اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ سیکولر فورس کو منتشر کرکے ہی بی جے پی پولرائزیشن کی  سازشوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگر بی جے پی سیکولر فورس کو آپس میں لڑانے میں ناکام رہ جاتی اور سیکولر سیاسی جماعتیں بی جے پی کی اس سازش کا ادراک کرلیتیں تو 2014 میں بھی مودی اور ان کی جملہ باز ٹیم کو پسپائی سے دوچار ہونا پڑتا،لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو ملک تہذیب اور بقائے باہم کی روایت کو باقی رکھنے سے زیادہ اپنی اناکی تسکین پیاری تھی، لہذا کسی نے بھی اس یرقانی سازش کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی سیکولر فورس اپنی اناکی پیاس بجھا نے میں مصروف رہی اور بی جے پی اپنی ہم خیال پارٹیوں کو  متحد کرکے انتخابی معرکہ میں اترنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہناتی رہی۔ اس موقع پر بی جے پی نے  پورے ملک میں کہیں بھی اپنی اناکو اتحاد کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا، جبکہ غیر بھاجپائی پارٹیاں اپنے اپنے مفاد کی روٹیاں سینکنے میں منہمک  اور اصلی صورت حال سے بے نیاز مست ہاتھی کی طرح اپنے پاگل پن میں دیوالیہ ہوتی رہیں۔

سیکولر اقدار اور ملک کی مشترکہ تہذیب میں ہی ترقی کے قیمتی راز پوشیدہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی غیر بی جے پی جماعتیں خواب خرگوش میں مبتلا تھیں اور فسطائیت نے بازی مار لی۔ حالا نکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ملک میں یہ ساری تبدیلیاں آناً فاناً ہوگئی تھیں، جس کو سمجھنے کا انہیں موقع نہیں ملا ہو، بل کہ زعفرانی انتہاپسندوں نے یہ ساری منصوبہ بندی 2013میں ہی مرتب کرکے اس پر عمل بھی شروع کردیا تھا۔ ملک  اور مشترکہ تہذ یب و سیکولرزم سے محبت کرنے والے دانشور اور سیاسی مبصرین بی جے پی اور سنگھ کی سازشوں کو تاڑ گئے تھے   اور اپنی تحریروں، تجزیاتی رپورٹوں اور اسٹوریز کے ذریعہ یوپی اے میں شامل سبھی جماعتوں کو اس جانب متوجہ کررہے تھے کہ اس وقت ملک  کی پر امن اور محبت کی متلاشی فضا میں نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے اور ہر طرف صرف پولرائزیشن کی سازش  مرتب کی جارہی ہے، جسے عملی شکل دینے اور بار آور بنانے کیلئے آر ایس ایس نے پوری تیاری کرلی ہے، اپنے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے بڑے بڑے میڈیا ہاؤ س کے مالکان،  ضمیر فروش صحافیوں اور ٹی وی پر بی جے پی کی ترجمانی کرنے کیلئے کھنکھتاتے سکوں کے سامنے اپنی آبرو قلم کے وقار وعظمت کو گروی رکھ دینے والے اینکروں کو خریدا جاچکا ہے۔ لہذا اپنے مفادکی عینک اتار کر ملک کے حالات کا جائزہ لیں اور سیکولرزم کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں۔ اس وقت کس کو کتنی سیٹیں مل رہی ہیں، اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ بی جے پی اور یرقانی قوت کا پھن کیسے کچلاجائے اس پر غور فکر کی جائے اور اس اہم مسئلہ  اپنی توجہ مرکوز رکھی جائے۔ خیال رہے کہ 2014 کے عام انتخابات کو زمین سے آسمان تک اورنگ آباد سے آپریٹ کیا جارہا تھا، اس وقت گودی میڈیا اور ’’بھونپوں پترکاروں ‘‘ نے بھی اپنا سب کچھ بیچ کر سارا نظام آرایس ایس کی مٹھی میں دے رکھا تھا، سارے ہندوستان میں یرقانی فوج دندنا رہی تھی اور سب کا ریموٹ کنٹرول راسٹریہ سیویم سنگھ نے اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔نتیجہ کار فسطائی قوتیں سیکولر فورس کو منتشر کرنے میں کامیاب رہیں اور آسانی کے ساتھ دہلی کے لوٹین زون سمیت رائے سینا ہلز پر ان قبضہ ہوگیا۔اب سوال یہ ہے کہ اس کا اصل ذمہ دار کسے مانا جائے، کس نے اپنی اناکی تسکین کیلئے سیکو لرزم کے شیش محل کو چکناچور کیا۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس حمام میں تمام سیکولرپارٹیاں ننگی نظر آئیں گی۔ ساری جماعتیں ملک کی اکثریت یعنی سیکولرفورس کو اتحادکی اہمیت کا احساس کراتی رہیں اور سب نے اپنی مرضی کے مطابق سیٹیں نہ ملنے پر ’’ایکلا چلو‘‘ کی ملک دشمن پالیسی اختیار کرلی۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ملک کی سالمیت اورفرقہ پرست قوتوں کی سرکوبی سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے، لہذا انہوں نے اپنے مفاد کیلئے سیکولرزم کا گلا گھونٹنے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کی۔اور اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔

 اللہ کا شکر ہے کہ اس بار سیکولرزم کے کلیدی دشمنوں اور اقلیتو ں اور دلتوں کے استحصال کا حوالہ دیکر مگرمچھ کے آنسوبہانے والی پارٹیوں اور اس کے سربراہوں کا اصلی روپ جانے انجانے میں خود وقت سے پہلے ہی سامنے آنے لگا ہے۔اس سمت سب سے پہلے مایاوتی نے قدم بڑھایا ہے جو خلاف توقع بھی نہیں ہے، چھتیس گڑھ میں اجیت جوگی کی پارٹی سے جگل بندی کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا ہے وہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں تنہا میدان اتریں گی۔ اب دیگر سیاسی قائدین کا امتحان ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وہ ملک میں سیکولرزم کی بالادستی کو فوقیت دیتی ہیں یا اپنے سیاسی فائدے کیلئے بی جے پی اور سنگھ کے تلوے چاٹتے ہیں اور اقتدار میں اس کی واپسی کی راہ آسان کرتے ہیں۔ فی الحال مایاوتی اور شیوپال یادو نے اپنا نقاب اتار دیا ہے، دعاء کیجئے کہ ایک ایک کرکے سارے موقع پرستوں کا چولہ اتر جائے اور عوام کیلئے دوست و دشمن میں تمیزکرنا آسان ہوجائے۔ملایم سنگھ یادو کے چھوٹے بھائی شیو پال یادونے اپنے مفاد کی بازیابی کیلئے سیکولر فورس کو چوٹ پہنچانے کا سلسلہ 2015 کے آخری سہ مای سے شروع کردیا تھا۔ بہرحال بعدکے ایام میں اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا یہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی نمایاں سیاسی جماعت جس نے لوہیا کے خوابوں کی تعبیر کو ہی اپنی سیاست کامحور بنایا تھا وہ جما عت شیو پال یادو کی وجہ سے ہی اپنی ساری قوت اور ملایم سنگھ یادو جیسے قدآور رہنما کی آ نکھوں کے سامنے زوال سے دوچار ہو گئی، نتیجہ کار صوبے کو ہمہ جہت ترقی سے روشناس کرانے والے جواں عمر لیڈر اکھلیش یادو اپنے چچاکی بچھائی ہوئی بساط میں الجھ کر رہ گئے اور سماجوادی پارٹی اقتدار سے دور ہوگئی۔ اس میں شبہ نہیں کہ یادو خاندان کے ساتھ ریاست کے سیکولرعوام اور سماجوادی پارٹی کو تاش کےپتے کی طرح بکھیر دینے کی ساری سازش ٹھاکر امر سنگھ نے تیار کی تھی، شیوپال تو صرف ایک مہرہ کے طور پر استعمال ہوئے۔ البتہ بعد میں چچا بھتیجہ کے رشتے میں امر سنگھ کے ذریعہ ڈالی گئی ترشی نے دشمنی کی کھائی کو مزید گہرا کردیا۔ امر سنگھ نے یہ سازش کیوں رچی بعد کے ایام نے اس کا ثبوت خود ہی فراہم کردیا۔ جب 2017کے انتخابات میں بی جے پی کو اس دشمنی کے بدلے واضح اکثریت سے ناقابل تسخیر کامیابی مل گئی اور سنگھ نے دنیاکو یہ جتادیا کہ اس نے آدھا ہندوستان فتح کرلیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ شیوپال یادو نے اگر اس زمانے میں خود کو امرسنگھ کی سازش سے بچالیا ہوتا جو یرقانی گروہ کے اشارے پر رچی گئی تھی اور جس کا مقصد سیکولر فورس کو منتشر کرکے بھگوا بریگیڈ کی راہ آسان کرنا تھا تو آج بھی ریاست میں سماجوادی برسر اقتدار ہوتی اور یرقانی گروہ کو ریاست میں نفرت پھیلانے کی اتنی چھوٹ نہیں ملی ہوتی۔اے کاش! اگرشیوپال یادونے اپنے مفاد سے زیادہ سیکولر اقدار کی ضرورت کواہمیت دی ہوتی تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنی درگت کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی شیوپال کوئی سبق لینے کو تیار نہیں ہیں اور اپنا علیحدہ محاذ بناکر انہوں نے سیکولر فورس کو یہ پیغام دید یا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ کس کے مفاد کیلئے کام کرنے والے ہیں۔ یہ سبھی لیڈر اپنی اصلیت کا پتہ دیتے جارہے ہیں، اب اسے سمجھنا اور راہ عمل متعین کرنا ہم رائے دہندگان کی ذمہ داری ہے۔

تبصرے بند ہیں۔