زیست زندان مقفل کے سوا

عبدالکریم شاد

زیست زندان مقفل کے سوا

کچھ نہیں کرب مسلسل کے سوا

دل سے آتی نہیں صدا کوئی

یاد جاناں! تری ہلچل کے سوا

چاہنے والا مجھے دنیا میں

کون ہوگا کسی پاگل کے سوا

بیٹھیے پاس بزرگوں کے کبھی

رہنما یہ بھی ہیں گوگل کے سوا

تو نے کیا اور دیا ہے مجھ کو

زندگی! جاتے ہوئے پل کے سوا

اور سائے ہیں مرے چہرے پر

تیرے اس ریشمی آنچل کے سوا

شاد! اک برق بھی ہے لہرائی

اس امنڈتے ہوئے بادل کے سوا

تبصرے بند ہیں۔