زیست زندان مقفل کے سوا
عبدالکریم شاد
زیست زندان مقفل کے سوا
کچھ نہیں کرب مسلسل کے سوا
…
دل سے آتی نہیں صدا کوئی
یاد جاناں! تری ہلچل کے سوا
…
چاہنے والا مجھے دنیا میں
کون ہوگا کسی پاگل کے سوا
…
بیٹھیے پاس بزرگوں کے کبھی
رہنما یہ بھی ہیں گوگل کے سوا
…
تو نے کیا اور دیا ہے مجھ کو
زندگی! جاتے ہوئے پل کے سوا
…
اور سائے ہیں مرے چہرے پر
تیرے اس ریشمی آنچل کے سوا
…
شاد! اک برق بھی ہے لہرائی
اس امنڈتے ہوئے بادل کے سوا
تبصرے بند ہیں۔