حیا سر پیٹتی ہیں، عصمتیں ماتم کرتی ہیں

شھاب مرزا

کبھی ائے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

موجود ہ معاشرے میں مسلم لڑکے لڑکیاں جس طرح سے غیر مسلم کے ساتھ بیاہ کرنے کا رواج عوام ہوتا جارہا ہے۔ اس پر اگر انفرادی وزمینی سطح پر غوروخوص کیا جائے تو اس کے نتائج اتنے مہلک ہوں گے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے شہر میں اس طرح کے سینکڑوں معاملے پیش آئے ہیں۔ کئی مسلم لڑکیاں اپنے والدین سے بغاوت کرتے ہوئے اور شہر میں جاری اسلامی معاشرے کیت حریکات کو جو ں کی توں نوک پر رکھتے ہوئے اپنے غیر مسلم عاشقوں کے ساتھ شادیاں رچا رہی ہیں۔ ہر چند کہ یہ اسلامی معاشرہ تحریکوں دینی درسگاہوں علماء ومفتیوں او رملی وسیاسی قائدین کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ جمہوری نظام سے لا علم علماء اور دین اسلام سے لا علم قائدین ملت کے کانوں پر اسلئے جوں تک نہیں رینگتی کہ

سلطانی بھی مکاری، درویشی بھی عیاری

خداراتیرے سادہ لوح کدھر جائے

یہ واقعات ہماری غیرت کا جنازہ نکالنے کے لئے کافی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہیں کہ لڑکیاں غلط ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ لڑکیاں غلط ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوم کی نکیل مغرب زدہ ہوگئی ہیں اور والدین بھی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ لڑکی کی دوستی، عشق اور شادی ہوئے تک وہ اس پورے معاملے سے لا علم رہتے ہیں۔ پہلے ایسا ہونے پرعزت  کی نیلامی ہوتی تھی۔ اور چہ مئے گوئیاں سے سے بچنے کے لئے لوگ گھر یا علاقہ بدل لیتے تھے۔ اور سوال ہوتا تھا اس خاندان میں ایسا ہوگیا مگر اب ایسا ہوگیا ہے کہ آج کا پہلا سوال ہوتا ہے پہلے تو یہ بتائو کہ مسلم کے ساتھ گئی یا غیر مسلم لڑکے کے ساتھ؟کچھ دنوں بعد یہ ہوگا کہ ارے چھوڑویار بچے ہیں ان کو بھی محبت( گھنائونا پن)کرنے کا حق ہے یہ عزت کی نیلامی تو آج بھی ہے مگر اب اہل خانہ کو معلوم ہے کہ انھوں نے خود آزادی دی ہے۔ خود ہی مخلوط تعلیم پر لگایا ہے او رمانا کہ مخلوط تعلیم پر لگایا مگر اپنے بچوں کو اس قدر کھلی چھوٹ دیدی بے جا آزادی زمانے کے حساب سے مہنگا اور پسند کا موبائل مہیا کروایا۔ اور بھی موبائل کو چیک کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ کہ وہ موبائل کا صحیح استعمال کررہے ہیں یا غلط کہی بھی اکیلے جانے کی آزادی دیدی گئی پھر وہ کس سے ملئے اور کس کے ساتھ وقت گزارے اس سے کوئی سروکار نہیں !

افسوس ! ہمارے پاس عزت کی پاسداری نام کا کوئی جملہ ہی نہیں بچا غرض کہ مسلم نوجوانوں کا خون کھولا دینے والے واقعات روز مرہ پیش آرہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات یہ نہیں کہ مسلم نوجوان لڑکیاں دین اسلام سے اس قدر غافل ہوجائے کہ عشق کا سحران کی غیرت ایمانی کو جلاکر خاکستر کردے بلکہ اس کی ایک وجہ مال حرام سے اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرنا بھی ہیں۔

اس طرح کے واقعات پر روک لگانا او ران کی اصلاح کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اپنے اردگرد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کیجئے۔ جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کو فروغ دی جائے۔ اتداد جیسے قبیح عمل کی قباحت پر توجہ مبذول کروائے ہم سب کو انفرادی طور پر اس پر محنت کرنا ہوگی۔ کوئی تنظیم یا ادارہ بس ہمیں لانحہ عمل دے سکتا ہے مگر گام بہر صورت ہمیں ہی کرنا ہوگا اور خاص طور پر نوجوان طبقے کو اس میں آگے آنا ہوگا۔ ہم نے موبائل دیا ہے تو اس کی جانچ بھی ہمیں کرنی ہوگی لڑکیاں کہاں جارہی ہیں۔ کس سے بات کررہی ہیں ؟ کونسی سہیلی کے گھر دعوت ہے؟ کالجس اور کلاس میں اس کی کس سے دوستی ہے؟ یہی غفلت بعد میں ماتم کرنے پر مجبور کرتا ہیں۔ اگر اب بھی امت ان مسائل پر توجہ نہیں دے گی تو آنے والے وقت میں یہ مسائل ہر گھر میں داخل ہوجائے گا۔ اور اس موضوع پر علمائے اکرام او رمفتی حضرات ہی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. محمد شافع کہتے ہیں

    بہت عمدہ تحریر, آپکو ورق تازہ روزنامہ مہراراشٹر میں مضامین لکھنے کیلئے مدعو کیا جارہا ہے ویب سائٹ پر جاکر رجسٹریشن کرلیں.

    1. شہاب مرزا کہتے ہیں

      جزاک اللہ‎ ھو خیران کثیرہہ
      یہ میری خوش نصیبی ہوگی کے میں آپ کے لئے لکھو

تبصرے بند ہیں۔