یدورپا کا استعفیٰ کرناٹک میں بی جے پی کی چال بھی ہوسکتی ہے! 

ڈاکٹر اسلم جاوید

ریاست کرناٹک میں سیاسی بالادستی کی جو لڑائی بی جے پی نے شروع کی تھی اس سے خود بھارتیہ جنتا پارٹی نے دست برداری کا اعلان کردیا اوراسمبلی میں فلور ٹیسٹ کرائے جانے سے قبل ہی  بی جے پی حکومت اوندھے منہ گرگئی اور ریاست کے نووارد وزیر اعلیٰ نے 50گھنٹے کے اندر ہی استعفی دیدیا۔  حالانکہ یدورپا اور بی جے پی اعلیٰ کمان خم ٹھونک کر یہ دعوے کررہا تھا کہ وہ اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کردیں گے۔  لیکن واقعہ نے اس کھوکھلے دعوے کی ساری ہیکڑی باہر نکال دی اور جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر بھاجپائی گورنر وجو بھائی والا نے جو قدم اٹھایا تھا اس سے ہرطرف اس اعلی اور مقتدر عہدہ کی جگ ہنسائی بھی شروع ہوگئی ہے۔ ہرطرف بی جے پی اور آئین کے ذریعہ دی گئی پاور کا غلط استعمال کرنے پر گورنر کی تنقید گزشتہ کئی روز سے جاری ہے اور سپریم کورٹ میں معاملہ آنے کے بعد اس کا سلسلہ اور زیادہ تیز ہوگیا ہے۔ خود بی جے پی کے سابق رہنما اور مرکزی وزیر یشونت سنہا نے ٹوئٹ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ’اب بی ایس یدورپا کے بعدگورنر کو بھی استعفیٰ دینا چاہیے‘۔

گورنر کے اس آمرانہ فیصلے پر خود بی جے پی کے لیڈران جن کا ملک کے آئین اور جمہوریت پر بھروسہ ہے انہوں نے   بھی استعجاب کا اظہار کیا تھا۔  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو حکومت بنانے کیلئے مدعو کرنے کے گورنر وجوبھائی والا کے فیصلے کو کانگریس صدر راہل گاندھی نے ’جمہوریت کی شکست‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا  کہ واضح اکثریت نہیں ہونے کے باوجود حکومت بنانے کی بی جے پی لیڈروں کی ضد نے آئین کا مذاق اڑایا ہے۔ یہ بات راہل گاندھی نے نہیں کہی ہے، بلکہ اس قبل خود بی جے پی کی ڈھائی آدمی کی سرکار کے آدھا آدمی یعنی وزیر مالیات ودفاع ارون جیٹلی نے گوا اور دیگر کئی ریاستوں میں زیادہ سیٹ لانے والی جماعت کو نظر انداز کرکے بی جے پی کی کولیشن کو سرکار بنانے کی دعوت دینے کی تائید کرتے ہو ئے کہی تھی اور اس عمل قطعی آئین کے مطابق بتایا تھا۔

اب جبکہ کرناٹک میں بی جے پی اگرچہ زیادہ سیٹیں لے آئی ہے، لیکن پھربھی وہ اکثریت سے کافی پیچھے رہ گئی، جبکہ کانگریس اور جے ڈی ایس کا کولیشن واضح اکثریت اپنے پاس رکھتا تھا۔  مگر وجو بھائی والا نے آئین سے بالاتر ہوکر بی جے پی کو یہ جانتے ہوئے کہ اس کے پاس اکثریت نہیں ہے سرکار بنانے کی دعوت دیدی، ظاہر سی بات ہے کہ ارون جیٹلی کے سابقہ بیان کی روشنی دیکھاجائے تو کرناٹک میں گورنرکی کار کردگی کو قانون کا مذاق اڑانے سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ راہل گاندھی نے ٹوئٹ کر کے کہا تھا’’کرناٹک میں واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجوود بی جے پی لیڈروں کی حکومت بنانے کی غیر منطقی ضد کچھ اور نہیں بلکہ آئین کا مذاق ہے۔  آج صبح جب بی جے پی اپنی کھوکھلی جیت کا جشن منا رہی ہے تو ملک جمہوریت کی شکست پر ماتم کررہا ہو گا‘‘۔  کانگریس کے علاوہ ملک کی جمہوریت اور آئین کو باریکی سے جاننے والے ماہرین بھی  گورنر کے اس فیصلے کو’’جمہوریت کا قتل‘‘ قرار دیتے ہوئے ان پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ بی جے پی کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔  میری محدود معلومات کے مطابق غالبا یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب کسی ریاست کا گورنر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے تنقیدوں کا نشانہ بن رہا ہے۔

قابل غور ہے کہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 104، کانگریس کو 78، جنتا دل (ایس) کو 37، بہوجن سماج پارٹی کو ایک اور آزاد کو دو نشستوں پر فتح حاصل ہوئی ہے۔ لیکن کانگریس اور جنتا دل (ایس) نے ہاتھ ملا کر حکومت بنانے کا دعوی پیش کیا تھا۔  بی جے پی سب سے زیادہ نشستیں جیت کر سب سے بڑی واحد پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور گورنر نے  یہ جانتے ہوئے بھی کہ بی جے اگرچہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے اس کے باوجود اس کے پاس اکثریت نہیں ہے اور آئندہ بھی یدورپا کیلئے اکثریت ثابت کرنا مشکل ہوگا۔ مگر سنگھ اور بی جے پی سے تعلق نبھاتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کو حکومت بنانے کے لئے مدعو کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق جے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کمار سوامی جلد ہی وزیر اعلیٰ عہدے کے لیے حلف لے سکتے ہیں۔  اسی کے ساتھ کانگریس کے دلت لیڈر کو ڈپٹی سی ایم بنایا جا سکتا ہے۔ جے ڈی ایس اور کانگریس حکومت سازی سے قبل کئی پہلو پر غور کررہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق  حکومت کے قیام کیلئے  کانگریس اور جے ڈی ایس کے درمیان  بات چیت جاری ہے۔  ذرائع کے مطابق  دونوں جماعتوں کے سینئر لیڈران کے درمیان ملاقات میں  قلمدان کی تقسیم میں تال میل بٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔  جے ڈی ایس  لیڈر کمارسوامی کو بدھ کے روز وزیراعلیٰ کے طور پر حلف دلایا جائے گا۔  ذرائع  بتاتے ہیں کہ کمارسوامی کے ساتھ، کانگریس کے 17سے20 وزرا، جبکہ 10 سے 13جے ڈی ایس کے وزرا بھی اسی تقریب میں حلف لے سکتے ہیں۔  دریں اثناء دونوں پارٹیوں کے اعلی حکام  میں نائب وزیر اعلی کی نامزدگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

خبریں ہیں کہ ریاست میں دو ڈپٹی چیف منسٹر بن سکتے ہیں۔  کانگریس کی جانب سے  ریاست کے صدرجی پرمیشور کے علاوہ گزشتہ دنوں سیاسی  رسہ کشی کے دوران پارٹی کیلئے ’’سنکٹ موچک ‘‘ کا کردار نبھانے والے ڈی کے شیوکمارکے نام مذکورہ ڈپٹی سی ایم عہدہ کیلئے پیش کئے جاسکتے ہیں۔  پرلطف بات یہ ہے کہ جے ڈی ایس تلنگانہ کی طرح کرناٹک میں بھی کسی مسلم لیڈرکو نائب وزیر اعلی بنانا چاہتی ہے۔  اس کے علاوہ کانگریس کے رہنما اور ریاست کے سینئرلیڈرڈی وی  دیش پانڈے کو اسمبلی اسپیکر کا عہدہ تفویض کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال اس معاہدہ میں مزید تبدیلی وتغیر کے امکانات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اس سارے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فلور ٹیسٹ سے پہلے ہی یدی یورپا کے عہدہ سے استعفی دینے کے پیچھے اصل کھیل کیا ہے؟

 ایسی بحث بھی گرم ہے کہ بی ایس یدی یورپا نے بی جے پی ہائی کمان کے کہنے پر عہدے سے استعفی دیا ہے۔  بی جے پی اپنی اس ہار کودوسرا رخ دے کر  عوام کے درمیان 2019 انتخابات میں جانا چاہتی ہے۔  یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چند دنوں کے بعد بی جے پی اپنی روایت کے مطابق جوڑ توڑ میں لگ جائے اور حلیف جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو لالچ دے کر بغاوت پر آمادہ کردے، جس کے بعد اس کیلئے اقتدار تک پہنچنا آسا ہوجائے گا۔ کچھ  دانشوروں کایہ خیال بھی ہے کہ ریاست کرناٹک میں بی جے پی کااچانک  یو ٹرن ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔  بی جے پی کرناٹک میں اقتدار کو کھوکر بھی عوام کے درمیان اپنی کامیابی کو ظاہر کرنا چاہتی ہے۔  سیاسی کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ خرید و فروخت اور دولت و طاقت کے استعمال سے کامیابی حاصل کرنے میں ماہر بی جے پی ہائی کمان نے یہ ساری چیزیں ذہن میں رکھتے ہوئے ہی کرناٹک میں اقتدار سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بہرحال ریاست میں بی جے پی کوئی بھی قدم اٹھاسکتی ہے اور اس کی سابقہ کاکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ بھگوا بریگیڈ اقتدار تک پہنچنے کیلئے کسی بی حد تک جاسکتی ہے۔ اب یہ ذمہ داری کانگریس پارٹی کو جواں عمر قائد راہل گاندھی اور جے ڈی ایس کے جہاندیدہ رہنما ایچ ڈی دیویگوڈا کی ہے کہ وہ ہرقسم کے حالات پر پینی نظر رکھیں اور دونوں رہنما اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو بی جے پی کی شاطرانہ چال سے بچاتے ہوئے ریاست کی ترقی کیلئے ابھی سے محنت شروع کردیں، تاکہ2019کا سنگھی قوتوں کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔