کرناٹک کا فیصلہ: ناٹک نہ کر!

عالم نقوی

اپوزیشن اگر متحد ہو اور جھوٹ، مکر اور فریب کا مقابلہ  اگر دیانت دارانہ حکمت عملی یا ’حکیمانہ دیانت‘ سےکیا جائے تو دولت کی طاقت کے غلط استعمال کودولت ہی  کے صحیح استعمال سے بے اثر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی کرناٹک کا سبق ہے۔ اور سپریم کورٹ کا پیغام یہ ہے کہ   جاہل، جھوٹے، مکار اور شاطر سیاست دانوں کو عدلیہ پر پوری طرح  قابض ہو جانے کا خواب دیکھنا بند کر دینا چاہئے۔ اور مشترکہ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں سنگھ پریوار کی دہشت کی حکومت کا صفایا ممکن ہے!

پچھلے مہینے  اپریل ۲۰۱۸ کی ۱۸ تاریخ کو لندن کے مشہور اخبار گارجین میں ایک مضمون شایع ہوا  تھا جس کا عنوان تھا ’’انڈیا از ا ے ریپبلک آف فئیر ( ہندستان ایک  جمہوریہ خوف ہے  )‘‘۔اس کے خالق ایک ہندستان نژاد صحافی امرت وِلسن تھے۔ سنگھ پریوار کے تھنک ٹینک ونایک دامودر ساورکر کا ایک قول اس میں نقل کیا گیا ہے کہ ’’مسلمان عرت کی عصمت دری جائز ہے اور جو ہندو مسلمان عورت کی عصمت ریزی نہیں کرتا وہ شریف اور بہادر نہیں ’بزدل ‘ ہے ‘‘ یہ مضمون نریندر مودی کے دورہ لندن کے موقع پر شایع ہوا تھا جہاں ان کے خلاف برطانوی شہریوں نے زبر دست مظاہرے کیے تھے۔ امرت ولسن نے لکھا تھا کہ برطانوی حکومت کو چاہئیے کہ وہ مودی پر اپنا دباؤ جاری رکھے اور انہیں عصمت دری کے ان واقعات کا ذمہ دار قرار دےجو بھارت میں ہندو نیشنل ازم کے نام پر جاری ہیں ۔ نریندر مودی اناؤ عصمت دری واردات جس میں ایک بی جے پی ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر ملوث ہے اور کٹھوعہ جموں  کے ایک مندر  کے گربھ گرہ کے نیچے واقع محفوظ ترین مقام پر  آٹھ سالہ  آصفہ کی اجتماعی  عصمت دری اور قتل کی وارداتوں  کے  فوراً بعد لندن پہنچے تھے۔

امرت ولسن نے لکھا تھا کہ کٹھوعہ کی واردات بھارت میں عورتوں کے خلاف کثرت سے ہونے والے عام بہیمانہ جرائم  جیسی کوئی واردات نہیں  بلکہ مسلم بکروال خانہ بدوش گوجروں کو سبق سکھانے کی غرض سے کی جانے والی ایک  منصوبہ بند بہیمانہ واردات تھی جو ایک مندر کے اندر انجام دی گئی اور  جس میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا۔ اور جب ایک مقامی عدالت میں وہ معاملہ ابتدائی سماعت کے لیے پیش ہوا تو  ’ہندو ایکتا منچ ‘کے بینر تلے سنگھ پریوار کے وکیلوں، بی جے پی کے ریاستی وزیروں اور  مودی بھکتوں نے مل کر  ملزموں (عصمت دری کرنے والے بی جے پی کارکنوں ) کی حمایت  میں زبر دست مظاہرہ کیا اور عدالتی قانونی کارروائی میں رخنہ ڈالا۔

 اناؤ میں عصمت دری کی شکار دلت دوشیزہ کے  احتجاج کرنے والے باپ کو ایم ایل اے کی حامیوں نے مارا پیٹااور پولیس کے حوالے کردیا جہاں زیر حراست اس کی موت ہوگئی۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے ان مظاہروں کے بعد لندن میں ان ’’واقعات ‘‘ کی مذمت کی ’’بیٹیوں ‘‘ کو انصاف دلانے کا وعدہ  بھی کیا لیکن انہوں نے نہ لفط ’’ریپ (عصمت دری )‘‘استعمال کیا نہ یہ اعتراف کیا کہ ریپ اور قتل کی ان بہیمانہ وارداتوں میں ان کے حامی ملوث ہیں !خاتون وکیل  ورندا گروور کے لفظوں میں اس کا ایک ہی سبب ہے کہ ’’ہندتوا کی ’’نفرت بریگیڈ‘‘ ہی بی جے پی کا بنیادی حلقہ انتخاب  ہے جس کا واحد نصب ا لعین بھارت کو ایک ہندو راشٹر قرار دینا اور اقلیتوں اور مخالفین کو زندہ رہنے کے حق سمیت تمام بنیادی انسانی و شہری حقوق سے محروم کرنا ہے۔‘‘

امرت ولسن  کے مطابق ’’ ہندتوا کے یہ مبلغین ہی بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ’بھیڑ کی دہشتگری ‘ (ماب لنچنگ )کے ذمہ دار ہیں جنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی  سزا سے محفوط رہیں گے جنید اور  افرازل خان کے قتل اور فلم بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی بہیمیت اس سلسلے کی تازہ ترین وارداتیں ہیں۔

نام نہاد اعلی ذات والوں کے مبینہ  پیدائشی تفوُّق اور دلتوں کو فضلہ ڈھونے کے کاموں تک محدود رکھناہی بی جے پی کی  مخصوص نسل پرستانہ پالیسی ہے۔ مودی حکومت نے حال ہی میں قانون  میں ترمیم کر کے  اُسے دلتوں پر ظلم کرنے والوں کے حق میں نرم بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ سنگھ پریوار مخالفین کے قتل کی کئی وارداتیں بھی ہوئی ہیں جن میں گوری لنکیش کا قتل سر فہرست ہے۔

امرت ولسن کے مطابق ساورکر کی تصنیفات  میں جو اصول درج ہیں ان کے مطابق  گجرات ۲۰۰۲ جیسے قتل عام اور عصمت دری کی وارداتیں حق بجانب ہیں۔

مشہور خاتون دانشور تنیکا سرکار نے گجرات پر شایع اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’  نہ صرف عورت کے جسم اور اس کے جنسی و تولیدی اعضا  پر ہر طرح کا تشدد   بلکہ ماں کے سامنے اس کے بچوں پر ہر طرح کا ظلم  اور ان کا بہیمانہ قتل بھی   ان کے نزدیک جائز اور مستحسن ہے۔‘

گجرات ۲۰۰۲ میں جو کچھ ہوا اور پچھلے چار برسوں میں جو کچھ ہورہاہے اور آئندہ برسوں میں ملک کو ظلم و تشدد کی جس آگ میں  جلانے کی تیاریاں ہیں وہ  سب سنگھ پریوار کے تھنک ٹینک دامودر ساورکر وغیرہ کی تحریروں کا عملی تجربہ ہے !

لیکن۔۔ مکروا و مکر اللہ واللہ خیر ا لماکرین۔ ۔!فھل من مدکر ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔