فجر کی اذان کے بعد نوافل اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

فجر کی اذان اور اقامت میں کافی وقت ہوتا ہے اس لئے مسجد میں پہلے حاضر ہونے والے نمازی سنت کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھنا چاہتے ہیں اورسوال کرتے ہیں کہ کیا فجر کی اذان کے بعد اگر ہم سنت ادا کرلیں تو نوافل ادا کرسکتے ہیں ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل صرف دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے۔ اس لئے فجر کی اذان کے بعد اور فرض نماز سے قبل دو رکعت فجر کی سنت کے علاوہ نوافل پڑھنا مکروه ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے :

لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ (سنن الترمذي:427)

ترجمہ: طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔

اس حدیث کو شیخ البانی، احمد شاکر اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت حفصہ ؓ فرماتی ہیں:

كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، إذا طلع الفجرُ، لا يُصلِّي إلا ركعتَينِ خفيفتَينِ .(صحيح مسلم:723)

ترجمہ: جب فجر طلوع ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی اذان کے بعد فرض سے پہلے صرف دو رکعت سنت ادا کرنا چاہئے اورنبی ﷺ صحابہ کرام کو دو سے زائد رکعت پڑھنے سے منع کیا کرتے تھے۔ جناب یسار مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں :

رآني ابنُ عمرَ وأنا أصلِّي، بعدَ طلوعِ الفجرِ، فقالَ : يا يَسارُ، إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ خرجَ علينا ونحنُ نصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ، فقالَ : ليبلِّغ شاهدُكم غائبَكم، لا تصلُّوا بعدَ الفجرِ إلَّا سجدتينِ( صحيح أبي داود:1278)

ترجمہ:سیدنا ابن عمر ؓ نے مجھے دیکھا کہ میں طلوع فجر کے بعد نماز پڑھ رہا تھا تو انہوں نے فرمایا : اے یسار ! رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم یہ نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :تمہارا حاضر ( موجود ) شخص اپنے غائب کو بتا دے کہ سوائے دو رکعتوں کے طلوع فجر کے بعد نماز نہ پڑھا کرو۔

عبداللہ بن بحینہ بیان کرتے ہیں :

أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مرَّ برجُلٍ يصلِّي . وقد أُقيمت صلاةُ الصبحِ . فكلَّمه بشيءٍ، لا ندري ما هو . فلما انصرفْنا أَحطْنا نقول : ماذا قال لك رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ ؟ قال : قال لي ” يوشِكُ أن يُصلِّيَ أحدُكم الصبحَ أربعًا ” (صحيح مسلم:711)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گذرے جونمازپڑھ رہاتھا جبکہ فجرکی نمازکی اقامت ہوچکی تھی پس آپ نے کچھ کہا مگر پتہ نہیں کیا کہا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سارے اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور پوچھ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےتمہیں کیا کہا؟توانہوں نے کہاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟

یہ حدیث بتلاتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھناچاہئے سوائے فرض کے کیونکہ نبی ﷺ نے اس صحابی کو منع کیا جو اقامت کے بعد بھی نماز ادا  کررہے تھےاور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ فرض سے پہلے صرف دو رکعتیں ہیں۔

شیخ البانی ارواء الغلیل میں فرمایا ہیں کہ صحیح سند کے ساتھ بیہقی نے روایت ہے :

عن سعيد بن المسيب أنه رأى رجلا يصلي بعد طلوع الفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه فقال : يا أبا محمد ! أيعذبني الله على الصلاة ؟ ! قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة(إرواء الغليل :2 / 236)

ترجمہ: سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعتوں سے زیادہ رکوع اور سجود کرتے دیکھا تو اس کو منع کیا۔ اس شخص نے کہا کہ اسے ابومحمد! کیا اللہ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب دے گا ؟ تو ابن مسیب نے کہا کہ نہیں، لیکن سنت کی مخالفت پر اللہ تمہیں عذاب دے گا۔

شیخ البانی نے اس ضمن میں لکھا ہے کہ ابن المسیب ایسے بدعتیوں کے لئے مضبوط ہتھیار تھے جو نماز وروزہ سے متعلق بدعتیوں کو اچھا کرپیش کرتے تھے۔

ان تمام ادلہ سے معلوم ہوگیا کہ جنہوں نے فجر کی اذان کے بعد سنت کی ادائیگی کرلی ہو وہ مزید کوئی نفل نہ پڑھے  بلکہ فجر کی جماعت کا انتظار کرے یہاں تک کہ فجر پڑھ لے۔ امام ترمذی نے اذان فجر کے بعد نوافل کی ادائیگی پر کراہت لکھا ہے بلکہ اس کراہت پر اجماع ذکر کیا ہے اور صاحب تحفہ نے بھی کہا کہ اس باب میں صراحت کے ساتھ احادیث کی دلالت کی وجہ سے میری نظر میں ان لوگوں کا قول راحج ہے جو مکروہ قرار دیتے ہیں۔

یہاں ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جنہوں نے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلی ہو اور مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی جماعت میں کچھ وقت باقی ہے کیا وہ تحیہ المسجد پڑھ سکتا ہے ؟

فجر کی اذان کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ عام نفلی نماز نہیں ادا کرسکتے ہیں مگر تحیۃ المسجد سبب والی نماز ہے جنہوں نے گھر میں سنت ادا کرلی ہو وہ مسجد آئے اور دو رکعت پڑھنے کا وقت پائے تو تحیۃ المسجد ادا کرے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إذا دخَل أحدُكمُ المسجدَ، فلا يَجلِسْ حتى يصلِّيَ ركعتينِ(صحيح البخاري:1167)

ترجمہ: تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔

اس حدیث کی روشنی میں علماء نے ممنوع اوقات میں بھی تحیۃ المسجد پڑھنا جائز کہا ہے لہذا جو آدمی گھر میں فجر کی سنت پڑھ چکا ہو وہ مسجد میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

لو صلى الراتبة في بيته صلى سنة الفجر في بيته ثم جاء إلى المسجد قبل أن تقام الصلاة؛ فإنه يصلي تحية المسجد حينئذ قبل أن يجلس؛ لأنه حينئذ ليس عنده سنة الفجر قد صلاها في بيته، فيصلي تحية المسجد ثم يجلس.(موقع شیخ ابن باز)

ترجمہ: اگر کوئی اپنے گھر میں فجر کی سنت ادا کرلے پھر مسجد آئے اس حال میں کہ ابھی نماز کھڑی ہونے میں وقت ہے تو وہ اس وقت بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد پڑھے گا اس لئے کہ اس وقت اس پرفجر کی سنت پڑھنا باقی نہیں ہے کیونکہ اس نے گھر میں ادا کرلیا ہے پس وہ تحیۃ المسجد ادا کرے گا پھر بیٹھے گا۔

تبصرے بند ہیں۔