افسانوی مجموعہ ’بلھاکیہ جاناں میں کون‘: ایک مطالعہ

مبصر: مصباحیؔ شبیر احمد

کہتے ہیں کہ ایک افسانے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ اگر یہ نہ پایا جائے تو افسانہ کمزور مانا جاتا ہے۔ مگر ایک افسانوی مجموعے کے پہلے افسانے کو پڑھ کر پورا افسانوی مجموعہ پڑھنے کو جی کہے اور یہ گرفت قاری کو آخر تک اپنی حصار میں رکھے ایسا اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اتفاق میرے ساتھ ہوا جب میں نے ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب کا افسانوی مجموعہ ’’ بلھاکیہ جاناں میں کون ؟ پڑھنا شروع کیا۔

ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب کا افسانوی مجموعہ ’’ بلھاکیہ جاناں میں کون ؟ زیر مطالعہ تھا۔ افسانوی مجموعے کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ اس مجموعے کی مشمولات سے پہلے کے انتالیس صٖفحات کی بھی ایک اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اگرچہ میں اس قدر طویل تمہیدی تحریریں ایک اچھی کتاب کے لئے بہتر نہیں سمجھتا ہوں مگر ان میں پروفیسر حامدی کاشمیری ؔ، نور شاہ، عبدالغنی شیخ، وحشی سعید، محمد اسداللہ وانی، عبداللہ خاور، دیپک بُدکی، حسن ساہو اور پروفیسر محمد اسلم صاحب جیسے لوگ شامل ہوں تو یہ مواد قارئین ادب کے لئے کسی خوراک سے کم نہیں ہوتا۔

یوں تو افسانہ کسی واقعہ یا حادثے کو افسانوی رنگ میں بیان کرنے کو کہتے ہیں اس لئے افسانہ نگار سماجی عکاسی افسانوی رنگ میں کرتے ہیں۔ اشرف آثاری اپنے اس افسانوی مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ میرے پہلے افسانوی مجموعے اور اب اس دوسرے مجموعے میں شامل اکثر افسانے بذات خود میرے یا میرے کسی دوست کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات کا عکس و آئینہ یا آپ بیتی ہے۔ ‘‘

وہ افسانے میں اصل حقیقت کے چھیڑ چھاڑ کو مجرمانہ فعل گردانتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ میرا ماننا ہے کہ ہر حقیقت اپنے اصل روپ میں ہی زیادہ خوبصورت، جاذبِ نظر اور متاثر کن ہوتی ہے۔اس کا چہرہ بگاڑنا اس کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر اشرف آثاری صاحب نے اپنے مجموعے میں کلی طور سے 34 افسانوں کو شامل کیا ہے۔ لیکن ان میں جن افسانوں میں انسانی جذبات، بے رُخی اور سماجی بے حسی کی جھلک زیادہ نمایاں ہے اور اسی وجہ سے قاری کواپنے ذہن میں ان گنت تصورات جنم دینے کے لئے مجبور کرتے ہیں ان میں۔ ’’ بلکھاکیہ جاناں میں کون ؟‘‘  ’’ کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘‘  ’’ اپنا اپنا دکھ درد ‘‘  ’’ ماریا ؔ۔ ۔ پانچ مشٹنڈوں کی ماں بہن ‘‘  ’’ سونہ بھٹ کا حج قبول ہوگیا ‘‘  ’’ تین داس اور ایک داسنی ‘‘  ’’ سبز پری ‘‘  ’’ الگ الگ پیمانے سب کے ‘‘  ’’ خود کش بمبار ‘‘ شامل  ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر افسانے بھی اپنے تاثر میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ میری اپنی پسند تھی سو بیاں کیا باقی لوگ بھی رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں۔  انسانی سماج کی عکاسی افسانہ نگار نے اپنی تخلیقات میں کیسے اور کس طرح سے کی اس کے لئے الگ سے صٖفحات در کار ہیں مگر میں مذکورہ چند افسانوں کے چند حوالے ضرور دوں گا تاکہ قارئین بھی اس افسانوی مجموعے کی میٹھاس کی ایک جھلک پا سکیں۔

تقسیم وطن کی خوانچکاں حادثے کے پس منظر میں لکھی ایک مسلم خاتون کی داستانِ غم میں افسانہ ’’ بلکھاکیہ جاناں میں کون ؟ ‘‘ میں بیاں کرتے ہیں کہ ایک مسلم لڑکی کیسے ان حالات میں ایک سکھ سے شادی کرتی ہیں لیکن اس نے مذہب تبدیل نہیں کیا ہے۔ اس کے شوہر اور گھر والے بھی اُسے اس کے لئے مجبور نہیں کرتے ہیں۔ وہ اب بھی تمام ارکان دین ادا کرتی ہیں۔ دیکھئے اس عبارت سے کیسے اس کا درد عیاں ہوتا ہے۔ ’’ مولوی صاحب جس کمرے میں آپ بیٹھے ہیں یہ میرا ذاتی کمرہ ہے۔ والدین کا دیا ہوا نام زینب ہے، جو آج تک بدستور ہے۔ الحمدُللہ نماز ِ پنجگانہ بھی ادا کرتی ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتی ہوں۔ قرآن شریف کی تلاوت بھی میرا معمول ہے سب کچھ قبول کرنے والے پر چھوڑرکھا ہے وہ اسے قبول فرمائے یا پھر میرے منہ پر دے مارے۔ اس کی مرضی‘‘۔

افسانہ ’’کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘‘پارٹ 2میں ایک بوڑھی عورت کے کتے کی گمشدگی کا بیاں ہے پھر اس کہانی میں یہ کتا اسے واپس مل جاتا ہے مگر اصل واقعہ جانوروں سے محبت اور انسانیت کے برتائو اور انسانوں سے نفرت برتنے والوں پر ایک گہرا طنز ہے۔ اسی جذبے کے تحت ڈسی صاحب کتوں کو زہر دے کر مارنے کی ماتحتوں کی رائے کو خارج کرتے ہیں۔ ’’ بزرگ گجر خاتون اپنے شیرو کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہوچکی تھی اور کرنل روات اپنے اسکارڑ کے ساتھ اپنی راہ لے چکے تھے۔ شام کے چھ بج رہے تھے اب آفس میں اور میرے ٹیبل پر مجھے گھورتا ہوا یہ فائل تھا۔ میں اطمینان کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور میں نے فائل کھول کر جلی حروف میں لکھ دیا کہ ’’ کتے دہشت گرد نہیں ہوتے ‘‘ دوسرے دن وہ فائل میرے ٹیبل سے ہٹ گیا تھا۔ ‘‘

 خونی رشتوں کی بے حسی کو بیاں کرتی اس کہانی ’’ ماریا۔ ۔ پانچ مشٹنڈوں کی ماں بہن‘‘ میں ایک عورت کی لاش لاوارث پڑی ملتی ہے۔ جس کی خبر جب اُس کی خالہ ذاد بہن کو ملتی ہے تو وہ زار و قطار روتے ہوئے کہتی ہے ’’ میری بہن لا وارث نہیں ہے۔ ۔ میری بہن لا وارث نہیں ہے۔ اس کے چارمشٹنڈے، بے غیرت بھائی اسی شہر کی اچھی اچھی کالونیوں میں، بڑے بڑے گھروں میں، اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ موج مستی کررہے ہیں اور اس کا اپنا خون، اس کی کوکھ سے جنما، اس کا ناعاقبت اندیش اکلوتا سگا بیٹا، اپنے گھر میں مزے لے رہا ہے۔ اس کے سگے سمبندھی قریبی رشتہ دار وں کی ایک بہت بڑی فوج بھی ہے جو عیش و آرام سے، اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں۔‘‘

اس طرح سے ان کی ہر کہانی میں سماج کی کوئی نہ کوئی حقیقت ضرور بیان کی گئی ہے مگر جذبات اور سبق آموز لہجے میں۔ چونکہ عام افسانہ نگاروں سے اشرف آثاری مختلف انداز رکھتے ہیں اس لئے ان کے انداز بیاں کی سراہنا کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ میری نجی رائے یہ ہے کہ بہت دنوں بعد مجھے کسی کتاب نے متاثر کیا تو وہ یہ افسانوی مجموعہ تھا گو کہ یہ ایک افسانوی مجموعہ ہے لیکن اس میں بیاں افسانے آج کے میرے اپنے سماج سے بہت زیادہ قریب ہیں اس لئے متاثر ہوئے بنا رہا نہیں جاتا ہے۔

بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ قاری کو گرفت میں رکھنے کے لئے بعض لکھاری اپنی تحریر میں عریانیت، عشق ومحبت کی داستانیں، لفظوں کی جادوگر ی کا حربہ کمال مہارت سے پیدا کرتے ہیں لیکن اشرف آثاری صاحب کا مجموعہ اس قسم کی خرافات سے مکمل پاک و صاف نظر آتا ہے۔ ان کے اس مجموعے کولکھی گئی جموں و کشمیر کی معروف شخصیات کی تحریروں و اور خود مصنف کے افسانوں کو پڑھنے کے بعد مجھے اس بات کے اعتراف میں کو ئی جھجک نہیں ہوتی ہے کہ انسان اگر نیک نیتی و خلوص دل سے لکھے توصحت مند لٹریچر کا مسقبل بہت روشن نظر آتا ہے اور اس قسم کے مواد میں انسان کی شہرت کی راہیں بھی بہت وسیع ہیں۔

مجموعی طور سے ان کا یہ افسانوی مجموعہ بہت عمدہ و بہترین ہے۔ قارئین ادب اس کا مطالعہ ضرور کریں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کے قلم میں مزید قوت بخشے۔ ۔ آمین ثم آمین۔

تبصرے بند ہیں۔