اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر

افتخار راغبؔ

اے ابنِ اضطراب، دلِ ناصبور صبر

تکلیف میں ہے باعثِ کیف و سرور صبر

چھٹ کر رہے گی تیرگی اک دن گریز کی

پھوٹے گا التفات و محبت کا نور صبر

آنکھوں میں تیرتے ہیں ابھی تک کئی حروف

لکھا تھا اُس نے اشک سے بین السطور "صبر”

میں کیا کروں کہ تم کو نہ ہو برہمی کبھی

کس طرح دل کو آئے تمھارے حضور صبر

تم سے تھا دور دور تو صابر تھا سخت تھا

شیشے کی طرح پل میں ہوا چور چور صبر

دونوں ہی اعتدال پہ راغبؔ نہ رہ سکے

تھا میرا اضطراب تو اس کا قصور صبر

1 تبصرہ
  1. غلام مصطفیٰ دائم اعوان کہتے ہیں

    افتخار راغب صاحب کی شاعری بہت شوق سے پڑھتا ہوں، ان کا ہر ہر شعر مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے

تبصرے بند ہیں۔