اْمّ المومنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ واحد زوجہ مطہرہ جنہوں  نے بہت کم عرصہ آپ کی معیت میں  گزار ا اور 4ہجری ربیع الثانی کے مہینے میں  وفات پائی اور آپ کا جنازہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا، جنت البقیع میں  مدفون ہیں ۔

اجمالی خاکہ

نام                                            زینب

لقب                                          ام المساکین

والد                                          خزیمہ بن حارث

والدہ                                         ہند بنت عوف

سن پیدائش                                (بعثت نبوی سے 13سال قبل )

قبیلہ                                         بنو ہلال

وفات                                        ماہ ربیع الثانی 4ہجری

مقامِ تدفین                                جنت البقیع(مدینہ منورہ )

کل عمر                                   30 سال تقریباً

نام  و نسب:

  آپ کا نام زینب ہے،  سلسلہ نسب اس طرح ہے زینب  بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبدمناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن خنیس بن عیلاں  الہلالیہ۔سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب میں  اکیسویں  (21)پشت میں  جا کر معد بن عدنان سے مل جاتا ہے۔

ولادت:

  آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے تقریباً 13سال پہلے ہوئی ہے۔

خاندانی پس منظر:

  حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں  سے ایک بڑا قبیلہ بنو عامر تھا اس کی ایک شاخ بنو ہلال تھی،  یہ بنو ہلال یمن میں  آ کر آباد ہوئے۔ یمنی لوگ خوشحال تھے لیکن اللہ کے نافرمان بھی تھے۔ مذہبی اعتبار سے پکے مشرک تھے سورج اور چاند کے علاوہ بھی کئی خودساختہ معبودوں  کی پوجا کرتے تھے۔ شمالی یمن کے علاقہ تبالہ میں  ذوالخامہ نامی ایک بڑا بت تھا۔ یہ لوگ اس بت کی پوجا بطور خاص کیا کرتے تھے۔اس قوم پر کئی بار سیلاب آیا، انہوں  نے سیلاب سے بچنے کے لیے مآرب کے نام پر ایک مضبوط ترین بند باندھا۔ یہ قوم سبا کا دارالحکومت تھا۔یہ قوم شرک اور معاشرتی گناہوں  کے نشے میں  مست تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا زور آور سیلاب بھیجا جس نے اس مضبوط بند کو توڑ دیا،  کھیتاں  اجاڑ ڈالیں،  پھر اس میں  سوائے جھاؤ اور بیری جیسی جھاڑیوں  کے کچھ بھی نہیں  اگتا تھا۔(قوم سبا پر عذاب کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ السبا میں  موجود ہے۔)سیلاب کے عذاب سے جب ان کے مکانات اور بستیاں  کھنڈرات اور ویرانے کی صورت اختیار کر گئیں  تو وہ لوگ وہاں  سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے انہی لوگوں  میں  سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا جو یمن سے حجاز میں  آ کر آباد ہو ا۔

بچپن:

آپ رضی اللہ عنہا کے والد خزیمہ کا شمار عرب کے روساء میں  ہوتا ہے،  اس لیے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا بچپن بڑے ناز و نعم میں  گذرا۔ اس کے باوجود بعض انفرادی خصوصیات ایسی تھیں  جو آپ کو اپنی ہم جولیوں  سے ممتاز کرتی ہیں۔

ام المساکین کا لقب:

آپ رضی اللہ عنہا میں  غریب پروری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،  مساکین کو کھانا کھلانا اور ان کی دیگرمعاشی ضروریات کو پورا کرنا آپ کے اخلاق عالیہ کا عکاس تھا اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ آپ کو’’اْم المساکین‘‘کہا کرتے تھے۔غریب پروری او رمساکین کی دیکھ بھال کرنا ایسے عمدہ اوصاف ہیں  کہ قرآن کریم نے بطور خاص ان کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ ایسے ہی لوگوں  کے بارے میں  قرآن کریم کی سورۃ الدھر آیت 8 تا 10 میں  ہے:ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً و یتیماًواسیراً۔انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکوراً۔انا نخاف من ربنایوماً عبوساً قمطریراً۔اور اللہ کی محبت میں  مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں  (اور ان سے کہتے ہیں  کہ) ہم تمہیں  صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔  ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں  نہ شکریہ۔ ہمیں  تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کاطویل ترین دن ہو گا۔

قبول اسلام:

چونکہ آپ کی ولادت بعثت نبوی سے 13 سال قبل ہوئی تھی،  اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے کچھ عرصہ بعد جو لوگ مسلمان ہوئے انہیں  میں  سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں۔

پہلا نکاح:

 سیرت نگاروں  نے لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح طفیل بن الحارث سے ہوا۔ان کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کچھ عرصہ ہی ازدواجی زندگی کی بہاریں  دیکھ پائی تھیں  کہ انہوں  نے آپ رضی اللہ عنہا کو کسی وجہ سے طلاق دے دی۔

دوسرا نکاح:

 سیدہ  زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن الحارث بن مطلب نے طلاق دی اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح طفیل کے بھائی حضرت عبیدہ  بن حارث رضی اللہ عنہ سے ہوا۔

ہجرت مدینہ:

مشرکین مکہ نے جب اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھا تو ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا  اور آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ پر بھی طرح طرح کے مصائب و مشکلات آئیں۔  اسی دوران ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور ہجرت کے بارے میں  حکم خدا سنایا۔ شام ڈھلے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ گھر کو لوٹے،  آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو سارا ماجرا بتایا۔چنانچہ دونوں  میاں  بیوی نے ہجرت کی تیاریاں  شروع کر دیں۔  بالآخر ایک دن سیدہ زینب بنت خزیمہ کے گھرانے کے چار فرد سیدہ زینب خود آپ کے شوہرحضرت عبیدہ  بن حارث اور ان کے دونوں  بھائی حضرت طفیل اور حصین بن حارث یہ سب حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔اس قافلے کا استقبال حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ نے کیا۔کچھ دنوں  بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ تشریف لے گئے یہاں  آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے لیے ایک مکان اور کافی ساری زمین وقف کر دی۔مہاجرین و انصارآپ رضی اللہ عنہ ’’شیخ المہاجرین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔  مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ میں  بھی  سیدہ زینب رضی اللہ عنہا حسبِ معمول غرباء و مساکین پر خرچ کرتی رہیں۔

غزوہ بدر میں  ……:

  اسی دوران غزوہ  بدر کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے(98) میل کا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں  نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات 17 رمضان المبارک 2ھ کو بدر کے قریب اترے۔ یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں  لشکروں  میں  صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں  اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔ جس کے جواب میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تین جاں  نثار اصحاب’’ علی،  حمزہ اور عبیدہ‘‘(رضی اللہ عنہم)کو بھیجا۔حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما دونوں  نے جلد ہی اپنے مدمقابل کو قتل کر کے ڈھیر کر دیا۔جبکہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور ولید میں  کافی دیر تک لڑائی جاری رہی اوردونوں  ہی زخمی ہو گئے۔ حضرت علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھ کر ولید کوبھی قتل کیا۔ اس معرکے میں  حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا ایک پاؤں  زخمی ہو گیا تھا یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو مقام صفرا ء پر آپ رضی اللہ عنہ نے داعیِ اجل کو لبیک کہ گئے اور انہیں  مقام صفراء پر ہی دفن کر دیا گیا۔

تیسرا نکاح:

 بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ عنہا کا تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ جو ام المومنین سیدہ زینب بنتِ جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں،  وہ بھی  جنگِ اْحد میں  وہ شہید ہوگئے۔

زینب ؛ ام المومنین بنتی ہیں  :

 سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں  درج ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ غزوہ احد شوال 3 ہجری میں  شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے کچھ ہی دنوں  کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں  ناتمام بچہ پیدا ہوا جس سے ان کی عدت ختم ہو گئی اور ذوالحج 3 ہجری میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔

  بعض مورخین نے یہاں  پر 400 درہم حق مہر کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

معیت رسول کا مختصر زمانہ:

  آپ رضی اللہ عنہا کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کو نہیں  ملا۔ بلکہ نکاح کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ وفات پا گئیں۔  اس بارے مورخین نے2 ماہ،  3 ماہ، 6ماہ، 8 ماہ  اور بعض نے اس سے کچھ زیادہ زمانہ معیت رسول کا لکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا زیادہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں  گزار پائی تھیں۔

وفات:

 مدارج النبوۃ میں  شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے4 ہجری ماہ ربیع الثانی میں  وفات پائی۔ آپ رضی اللہ عنہا کا جنازہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا۔ اور آپ کومدینہ منورہ  جنت البقیع نامی قبرستان میں  دفن کر دیا گیا۔امہات المومنین میں  سے صرف سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا یہ اعزاز ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کا جنازہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا۔

نوٹ:   اگرچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں  ہوئی لیکن اس وقت تک جنازہ کا حکم نازل نہیں  ہوا تھا۔ رضی اللہ عنہا

تبصرے بند ہیں۔