راست گوئی: دنیا وآخرت کی بھلائی کا ضامن

محمد جمیل اختر جلیلی

اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس نے اپنے ماننے والوں کو چھوٹی چیز سے لے کر بڑی چیز تک، ہر ایک میں رہنمائی کی ہے، ورنہ اس دنیا میں بہت سارے ایسے مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں،  جن کے پاس بہت ساری چیزوں کے بارے میں کوئی صحیح رہنمائی نہیں ہے، جس کے نتیجہ میں انھیں دَردَرکی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں ؛ لیکن اہلِ اسلام کو اس پر بجا فخر ہے کہ انھیں کسی بھی چیز کے لئے ٹھوکر کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے، بقیہ مذاہب کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے، خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان الدین عند اللہ الاسلام۔ (آلِ عمران: 19)’’ بلاشبہ اللہ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے‘‘۔

اسلام کی بہت ساری اچھی تعلیمات میں سے ایک تعلیم ’’راست گوئی‘‘ یعنی سچ بولنابھی ہے، یہ ایک بہت ہی اہم تعلیم ہے، جس میں دنیا وآخرت کی بھلائی کو پوشیدہ رکھاگیاہے، چنانچہ منافقین کے بارے میں اللہ کاارشاد ہے: فلو صدقوا اللہ لکان خیراً لہم۔ ( محمد: 21)’’ اگر وہ لوگ اللہ سے سچ کردکھاتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا‘‘، یعنی جن (روزہ، نمازکے) کاموں کو وہ دکھاوے کے لئے کرتے تھے، اگر سچائی کے ساتھ کرتے تو ان کے لئے دونوں جہانوں میں بھلائی کا ذریعہ بنتااور وہ ’’ان المنافقین فی الدرک الأسفل من النار۔ (النساء: 145)’’یقیناً منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقہ میں ہوں گے‘‘کی سزاسے بچ جاتے، لیکن چوں کہ انھوں نے سچ کا دامن نہیں تھاما؛ اس لئے جہنم کے سب سے آخری درجہ کے مستحق بن گئے، اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے: البیعان بالخیار، مالم یتفرقا، فان صدقاوبینا، بورک لہما فی بیعہما، وان کتما وکذبا، مُحقت برکۃ بیعہما۔ (بخاری،  کتاب البیوع، حدیث نمبر: 2079)’’عاقدین(خریدوفروخت کرنے والے)کواس وقت تک (سامان کے لینے اور نہ لینے میں) اختیارہے،  جب تک کہ وہ جدا نہ ہوجائیں،  چنانچہ (دورانِ گفتگو) اگرسچ بولتے ہیں اور(سامان کی حقیقت کے سلسلہ میں) پوری وضاحت کردیتے ہیں،  تو ان کی بیع میں برکت دی جاتی ہے؛ لیکن اگر (کچھ) چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی بیع سے برکت ختم کردی جاتی ہے‘‘،  اس حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سچ ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے، خواہ ہم دنیاہی کیوں نہ حاصل کرناچاہتے ہوں،  حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں : وفی الحدیث أن الدنیا لایتم حصولہاالابالعمل الصالح، وأن شؤم المعاصی یذہب بخیر الدنیا، والآخرۃ۔ ( فتح الباری: 6/102)’’دنیا کاحصول بھی نیک اعمال کے ذریعہ سے تکمیل کو پہنچتاہے، اور گناہوں کی نحوست دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی کوختم کردیتی ہے‘‘، چنانچہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جھوٹ بول کر لوگ بڑی بڑی رقوم حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کے درمیان اس کوفخریہ بیان بھی کرتے ہیں ؛ لیکن جھوٹ کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوئے رقوم سے وہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے ؛ کیوں کہ وہ روپیہ گھروالوں میں سے کسی کی بیماری،  کسی کیس یا پھرکسی اور ہی چیز کے نذر ہوجاتاہے، اسی کو توحدیث میں برکت کے ختم ہو نے سے تعبیر کیاگیاہے۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمنوں کوسچ اور درست بات کہنے کا حکم دیاہے، چنانچہ ارشاد ہے: یاأیہاالذین آمنوااتقوااللہ وقولوا قولاً سدیداً۔ (الأحزاب:  70)’’ائے مومنو! اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو‘‘، اسی طرح سچ بولنے والوں کی تعریف بھی کی ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس علیہما السلام کی مقامِ صدیقیت کو خاص طورپرقرآن میں ذکر کیا ہے( مریم: ۴۱، ۵۶)، ایک جگہ سچ بولنے والوں کو صاحبِ تقویٰ قرار دیا ہے، ارشاد ہے: والذی جاء بالصدق، وصدق بہ، اولٰئک ہم المتقون۔ (الزمر: 33)’’اور جوسچ لے کر آیا اور اس کی تصدیق کی، یہی لوگ تقویٰ والے ہیں ‘‘، قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے جن بندوں کے لئے ’’مغفرت‘‘ اور ’’اجرِعظیم‘‘ کا وعدہ فرمایاہے، ان میں سے ایک صادقین اور صادقات بھی ہیں (الأحزاب: 35)،،  اسی طرح قرآن نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ حشر کے میدان میں بھی سچ ہی کام آئے گا، قال اللہ ہذا یوم ینفع الصادقین صدقہم۔ (المائدۃ: 119) ’’اللہ فرمائے گا: آج وہ دن ہے جب سچوں کے کام ان کا سچ آئے گا‘‘۔

 سچ کے بالکل برخلاف ایک لفظ’’ جھوٹ‘‘ ہے، جھوٹ کو منافقین کی نشانی قراردیاگیاہے، چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: آیۃ المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد أخلف، واذاائتمن خان۔ (بخاری، باب علامات المنافق، حدیث نمبر:33)’’ منافقین کی تین نشانیاں ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(2)جب وعدہ کرے تووعدہ توڑدے(3)اور جب امین بنایاجائے توخیانت کرے‘‘، ایک حدیث میں جھوٹ کواللہ تعالیٰ کی نظرِرحمت سے دوری اوردردناک عذاب کاسبب بتایاگیاہے، آپﷺ کا ارشادہے: ثلاثۃ لایکلمہم اللہ یوم القیامۃ، ولاینظر الیہم، ولہم عذاب ألیم: المنان، والمسبل ازارہ، والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 1211)’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین لوگوں سے نہ گفتگو کریں گے اورنہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے:(1) احسان کرکے جتانے والا(2)ٹخنے سے نیچے ازار لٹکانے والا(3) اورجھوٹی قسم کے ذریعہ سے اپناسامان فروخت کرنے والا‘‘۔

جھوٹ بولنے کی سزا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی سخت ہے، چنانچہ ایک مرتبہ آپﷺ نے اپنا خواب بیان فرمایاکہ رات میرے پاس دوآدمی آئے اورمجھے ارضِ مقدسہ لے گئے، میں نے وہاں دوآدمیوں کودیکھا، ایک بیٹھاہواتھا اور دوسراہاتھ میں لوہے کی سلاخ لئے اسی کے قریب کھڑاتھا، اس سلاخ کو بیٹھے ہوئے شخص کے جبڑے میں داخل کرتا؛یہاں تک کہ وہ اس کی گُدی کے پار ہوجاتی، پھردوسرے جبڑے میں یہی عمل دہراتا، پھرجب جبڑے اپنی حالت پر لوٹ آتے تو یہی عمل کرتا، میں نے ان دونوں سے اس کے بارے میں پوچھا، توانھوں نے جواب دیا: أما الذی رأیتہ یشق شدقہ، فکذاب، یحدث بالکذبۃ، فتحمل عنہ حتیٰ بلغ الآفاق، فیصنع بہ مارأیت الیٰ یوم القیامۃ۔ (بخاری، کتاب الجنائز، حدیث نمبر: 1386)’’ جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے، جس کے جبڑے چیرے جاتے ہوئے آپﷺ نے دیکھاتووہ ایک جھوٹاشخص ہے، جھوٹ بولتا تھا، اس کی جھوٹی بات نقل کی جاتی رہے گی؛یہاں تک کہ افُق بھرگیا، اب قیامت تک اس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا‘’۔

 سچ کی اہمیت اور جھوٹ کی شناعت کے بارے میں آپﷺ نے یوں ارشاد فرمایا: ان الصدق یہدی الی البر، وان البر یہدی الی الجنۃ، وان الرجل لیصدق حتیٰ یکتب عند اللہ صدیقاً، وان الذب یہدی الی الفجور، وان الفجور یہدی الی النار، وان الرجل لیکذب حتیٰ یکتب عنداللہ کذاباً۔ (بخاری، حدیث نمبر: 6094)’’سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتاہے، اور نیکی جنت تک پہنچاتی ہے، انسان جب سچ کا خوگرہوجاتاہے تواللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اسے سچا لکھاجاتاہے؛ لیکن جھوٹ بُرائی کی طرف لے جاتی ہے، اور بُرائی جہنم میں دھکیل دیتی ہے، اور جب انسان جھوٹ کا عادی ہوجاتاہے تو اللہ کے نزدیک بھی اسے جھوٹالکھاجاتاہے‘‘، اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ سچ کے عادی شخص کا نام اللہ کے رجسٹر میں بھی سچا اور جھوٹ کے عادی شخص کانام اللہ کے رجسٹر میں بھی جھوٹا لکھاجائے گا، اور جس شخص کانام اللہ کے رجسٹرمیں برائی کے ساتھ آئے گا، ظاہر ہے کہ وہ اللہ کی پکڑسے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

آج معمولی معمولی بات پر جھوٹ بولنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے، دو اور چار پیسے کے لئے بے دھڑک ہم جھوٹ بول دیتے ہیں، نہ خدا ہی خوف دامن گیر ہوتاہے اورنہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس طرزِ عمل سے دینِ اسلام کی کردار کشی ہوتی ہے، اور اب انتہا تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے کو ایک فیشن تصور کرلیاگیاہے، اور یہ سمجھ لیاگیاہے کہ اگر جھوٹ نہ بولاجائے تو ہاضمہ خراب ہوجائے گا، شاید اسی لئے پوری دنیانے مل کرخصوصیت کے ساتھ ایک دن کو اسی جھوٹ بولنے کے لئے ’’اپریل فول‘‘کے نام سے متعین کرلیاہے، اور افسوس کہ ہم بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ ان کی اس دعوت میں شریک ہوجاتے ہیں،  یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے ذریعہ سے توخود ہماری ذلت والی موت پر ہم ہنساجارہاہے، خدارا ! اسلام کی صحیح تعلیمات کو اپنائیں،  ہمارے غلط اعمال کی وجہ سے آج نہ جانے کتنے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے رہ جاتے ہیں،  اگر اسی ایک عمل کو مکمل طور آج بھی ہم اپنالیں تو ہزاروں لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں گے، خدا ہمیں اس کی توفیق دے، آمین۔

تبصرے بند ہیں۔