قلبِ مُخْبِتْ کی حقیقت کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

دنیا میں ہر جرم کے لیے سخت سے سخت ترین قانون موجود ہے لیکن اس کے باوجود جرائم کی شرح کو روکنے میں حکومتیں،  نظام عدلیہ اور پولیس کے محکمہ جات (بشمول ترقی یافتہ ممالک) بڑی حد تک ناکام نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرہ میں جرائم کی واردات میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا کے قوانین لوگوں کے جسم پر پابندی لگاتی ہیں جبکہ قرآنی قوانین انسان کے ذہن اور قلب کو متاثر کرتی ہیں بشرطیکہ ان کے پاس وہ دل ہوں جو قرآن مجید میں مطلوب ہیں۔ انہیں میں سے ایک قلب مخبت ہے۔اللہ تعالی نے صاحب ایمان کی اعلی ترین صفات میں سے ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ صاحب قلب مخبت ہوتا ہے۔ لفظ مخبت خبت سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ایسی نشیبی و نرم زمین پر جس پر انسان اطمینان کے ساتھ چل پھر سکے۔ قلب مخبت کے اصطلاحی معنی خشوع و خضوع، تواضع و انکساری، وسعت و نرمی اور اطمینان و سکون والے دل کے ہیں جو انسان کو رب اور اس کے حبیبﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف مائل اور اس کی سرکشی و نافرمانی سے محفوظ رکھے جس پر دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کامدار ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان میں عاجزی ہوتی ہے اور جو انکساری کا مجسم نمونہ ہوتے ہیں وہ رافت و رحمت کا پیکر بن جاتے ہیں اور جو نرمی کے خوگر ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کو نہ صرف جسمانی، ذہنی، قلبی اور روحانی سکون عطا فرماتا ہے بلکہ انہیں جنت کا مستحق بھی بنادیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ”بیشک جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور عجز و نیاز سے جھک گئے اپنے پروردگار کی طرف یہی لوگ جنتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے“ (سورۃ ھود آیت 23)۔

اس آیت پاک میں واضح الفاظ میں اس بات کا ذکر ہے کہ بندے کے عجز و نیاز اور سوزگداز نے عنایاتِ ربانی کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔اور ایک مقام پر ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ”اور (اے محبوب) مژدہ سنایے تواضع کرنے والوں کو“ (سورۃ الحج آیت 34) یعنی متواضع اور منکسر المزاج شخص وہ سعادتمند ہوتا ہے جس کو رب کائنات اپنے حبیبﷺ کے ذریعہ خوشخبری دے رہا ہے جو از خود ایک بہت بڑی نعمت ہے اور یہ ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صاحب قلب مخبت ہوتے ہیں۔ قلب مخبت صراط مستقیم پر گامزن رہنے میں انتہائی ممد و معاون ہے۔ ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ”نیز اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ جان لیں وہ لوگ جنہیں علم بخشا گیا کہ کتاب حق ہے آپ کے رب کی طرف سے تاکہ ایمان لائیں اس کے ساتھ اور جھک جائیں اس (کی سچائی) کے آگے ان کے دل اور بیشک اللہ تعالی ہدایت دینے والا ہے ایمان والوں کو راہ راست کی طرف“ (سورۃ الحج آیت 54)۔

حضرت ابن عباس نے مخبتین کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا متواضعین یعنی عاجزی کرنے والا۔ دیگر مفسرین اس کے معنی بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اس سے مراد مخلصین ہیں (یعنی دین و دنیا کا ہر کام خلوص سے انجام دینے والے)، اس سے مراد صالحین ہیں (یعنی نیکیوں سے محبت کرنے والے اور برائیوں سے نفرت کرنے والے)،اس سے مراد وہ مبارک ہستیاں ہیں جو لوگوں پر ظلم نہیں کرتے اگر ان پر ظلم ہو بھی گیا تو انتقام نہیں لیتے۔ مذکورہ بالا کردار کی تمام خوبیاں اس شخص کو ملتی ہیں جس کے پاس قلب مخبت ہوپھر ایسے لوگ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ انسانیت نواز کام کرنے میں انہیں چین ملتا ہے، اپنی تیجوریاں نہیں بھرتے بلکہ انہیں مفلوک الحال لوگوں کی دادرسی اور مالی مدد و استعانت کرنے میں خوشی ملتی ہے، تعلیم کو پیشہ بنانے میں نہیں بلکہ جہالت کو دور کرنے میں انہیں سرور ملتا ہے، علاج کے نام پر پیسہ بٹورنے میں نہیں بلکہ انہیں کم مصارف میں مریض کا صحیح علاج کرنے میں راحت ملتی ہے، انہیں اپنے لیے محلات بنانے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ انہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوئی اجڑی بستیوں کو آباد کرنے میں سکون ملتا ہے اور جو لوگ مخلوق خدا کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے ہیں تو رحمت کردگار ان لوگوں پر اپنی رحمتوں کی ایسی بارش فرماتا ہے کہ وہ تمام دنیوی افکار سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں صاحب قلب مخبت کے لیے خدائی ضابطوں اور قرآنی ہدایات کو غیر موثر بنانے والے باطل نظریات میں فرق کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ قلب مخبت اگر کسی غیر تعلیم یافتہ انسان کو بھی مل جائے تو وہ اس تعلیم یافتہ انسان سے بہتر ہے جو اس نعمت عظمی سے محروم ہے چونکہ مجرد تعلیم انسان کو برائیوں سے نہیں روک سکتی اس کے برعکس اگر کسی کے دل میں رب کائنات کا خوف ہو ممکن نہیں کہ وہ گمراہی کے راستہ پر چلا جائے۔

صاحب قلب مخبت ہمیشہ اپنے افعال کو احکام الٰہی اور اپنی مرضی کو مشیت کردگار کے تابع رکھتا ہے جس کے صلہ میں رب کائنات اسے وسیع القلبی، رافت و نرمی اور سکون و اطمینان کی دولت سے مالامال کردیتا ہے جس کی تلاش میں آج کا ہر انسان سرگرداں ہے۔ جس شخص کو قلب مخبت مل جاتا ہے اس کی ذات سے ممکن ہی نہیں کہ وہ جرأت اور دلیری کے ساتھ گناہوں میں مبتلا ہوجائے، یا غرور و تکبر اس کے کردار میں داخل ہوجائے، یا اضطرابی اور بے سکونی اس کی زندگی کا حصہ بن جائے۔جن اشخاص کو قلب مخبت کی دولت مل جاتی ہے ان کو مصائب و آلام میں بھی لذت و سرور ملنے لگتا ہے جیسا کہ حضرت سیدنا امام حسین ؓ کے چہرے اقدس کو نیزے پر چڑھا دیا گیا تھا لیکن دیکھنے والی آنکھوں نے مشاہدہ کیا کہ آپ کے چہرہ پر تبسم اور لبوں پر قرآن مجید کی تلاوت جاری تھی اور بدبخت ہیں وہ جو قلب مخبت کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو دنیا کی تمام نعمتیں ملنے کے باوجود نہ انہیں صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور نہ انہیں قلبی، ذہنی، اور روحانی اطمینان و سکون ملتا ہے جیسے کہ یزید کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔

یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ قلب مخبت کی نعمت سے اللہ تعالی انہی مبارک ہستیوں کو سرفرازفرماتا ہے جو ہر آن رب کائنات کے فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کردیتے ہیں الغرض ان کا کردار حسینی کردار کا مظہر بن جاتا ہے اور جو یزیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں اللہ تعالی ان کو اس عظیم نعمت سے محروم کردیتا ہے جس کی وجہ سے ان میں اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی باقی نہیں رہتی۔ اس کے برعکس صاحب قلب مخبت نہ صرف حرام سے بچتا ہے بلکہ وہ حلال اشیاء کے استعمال میں بھی احتیاط سے کام لیتا ہیچونکہ اسے اس بات کا قوی احساس ہوتا ہے کہ ان حلال اشیاء کے استعمال کے بابت کل بروز محشر حساب کتاب ہوگا۔ جو انسان حلال کے استعمال میں اتنا محتاط ہوجائے پھر اس سے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ حرام کاموں میں ملوث ہوجائے۔

 حضرت سیدنا ابن عاشورؒ قلب مخبت کی چار صفات بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ (1) جب اللہ کا ذکر ہو تو دل میں خوف پیدا ہوجائے، (2)  امراض، ابتلا و آزمائش، مصائب اور آلام پر صبر کرنا آسان ہوجائے، (3) نمازوں کی پابندی میں دل کو سرور ملے اور (4) اللہ کی راہ میں انفاق کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی حفظہ اللہ تعالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ امام پورہ شریف قلب مخبت کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ”انسان کو خلوت میں بھی اگر چھوٹے گناہ کا تصور آجائے تو بے چین اور مضطرب ہوجائے اور چھوٹی نیکی میں بھی لذت و سرور محسوس کرے اگرچہ اس نیکی کے کام کو کوئی نہ دیکھ رہا ہو، اس کے برعکس اگر انسان علی الاعلان گناہ کبیرہ کے ارتکاب میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے اور بڑی سے بڑی نیکی کرنے میں بھی تذبذب کا شکار ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے قلب مخبت سے محروم کردیا ہے“۔ حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھم ؓ ارشاد فرماتے ہیں جس دل میں خوف خداوند نہ ہو وہ انسان اور بھیڑیا دونوں مساوی ہیں۔

اس کے برخلاف صاحب قلب مخبت کوایمان کی حلاوت اور لذتِ عبادات سے وافر حصہ ملتا ہے اور وہ قرآنی ارشادات کے مطابق اپنی راہوں کا تعین کرتا ہوا سعادات دارین حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور حضرت سیدنا امام حسینؓ کی مطابعت میں سنگین و مشکل حالات میں اسلام و ایمان کی حفاظت، اور خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے بغیر ماتھے پر شکن لائے سب کچھ ہنسی خوشی قربان کردینا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے،اور وہ پوری استقامت و پامردی کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہوئے دنیا و عقبی کی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔اس کے برخلاف جو اس نعمت عظمی سے محروم ہوجاتا ہے پھر اس کے لیے اللہ کی بے انتہاء عظمت و جلالت ربانی سے بے خوف ہوجانا، دنیوی حکمرانوں کی ہیبت و رعب سے خائف ہوجانا، دامن اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجانا، غیر مسلموں سے شادی کرنا، دنیوی مقاصد کے حصول  کے لیے اسلام کے خلاف بولنا، حقیر مفادات کے لیے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا، نیکیوں سے دور ہوجانا اور برائیوں میں غرق ہوجانا آسان ہوجاتا ہے۔

 یہ تمام خرابیاں مسلم معاشرے میں در آئی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آج کا مسلمان قلب مخبت کی دولت سے محروم ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس جانب توجہ دینا، دلوں کو امراض و معاصی، ذنوب و خطایا سے پاک کرتے ہوئے قلب مخبت کے حصول کے لیے جد و جہد کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہوگیا ہے جوکہ وقت کا اہم تقاضہ بھی ہے تاکہ دنیا مسلم معاشرے کی حقانیت اور خوبیوں سے روشناس ہوسکے جو کہ تبلیغ اسلام ہی کا ایک موثر ذریعہ ہے اور یہ ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔