مغفرت والی رات سے محروم رہ جانے والے لوگ!

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

جیل کی سلاخوں کے پیچھے آزادی سے مایوس اورناامیدقیدی کواگریہ خوش خبری سنادی جائے کہ آج اسے ’’پروانۂ آزادی‘‘ ملنے والاہے تو اس کی خوشی کی انتہاکیاہوگی؟ یہ ان کومحسوس نہیں ہوسکتا، جن کے قدم جیل کی چوکھٹ تک نہ پہنچے ہوں ؛ لیکن آج (شعبان کی پندرہ تاریخ)کی رات قیدخانۂ دنیامیں محبوس قیدیوں کے لئے اس سے کہیں زیادہ خوشی کاموقع ہے کہ رب کائنات خودآسمانِ دنیاپرنزول اجلال فرماکر’’ألامن مستغفر، فأغفرلہ‘‘ (ہے کوئی مغفرت چاہنے والاکہ اس کی مغفرت کردوں )کی صدائے سرمدی کے ذریعہ گناہ گاروں کو’’پروانۂ خلاصی‘‘ عطافرماتے ہیں ؛ لیکن جس طرح جیل خانوں کے ایسے خظرناک قسم کے مجرمین کورہائی کاپروانہ نہیں دیاجاتا، جن سے معاشرہ میں مزیدبگاڑ پیداہونے کااندیشہ ہوتاہے؛ یہاں تک کہ وہ اپنی پرانی روش کو چھوڑدیں، ٹھیک آج کی رات – جس میں بنوکلب کی بکریوں کے بال کی تعدادمیں مغفرت ہوتی ہے-کچھ ایسے گنہ گاراورخدائے ذوالجلال کے حکم کی نافرمانی کرنے والے بندے بھی مغفرت ِباری سے محروم رہیں گے، جب تک کہ وہ اپنے ان گناہوں کوترک کرے توبہ نہ کرلیں، آیئے معلوم کرتے چلیں کہ وہ محروم ِمغفرت لوگ کون ہیں ؟ تاکہ ہمیں ان سے عبرت حاصل ہو۔

        (۱)  شرک کرنے والا:  مغفرت سے محروم شخصوں میں سب سے پہلاشخص وہ ہے، جواللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اوربھی متصرف خیال کرتاہو، اللہ تعالیٰ کی کسی صفت میں دوسرے کوشریک ٹھہرانے کانام’’شرک‘‘ہے، گناہوں میں سب سے بڑاگناہ شرک ہے، یہ ایساگناہ ہے، جس کواللہ تعالیٰ کبھی نہیں کرے گا، ارشادباری ہے: اللہ تعالیٰ معاف نہیں کریں گے کہ اس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرایاجائے اوراس کے علاوہ جس کوچاہیں گے، معاف کردیں گے(النساء:۱۱۶)۔

        قرآن مجیدمیں شرک کو’’ظلم عظیم‘‘ سے تعبیرکیاگیا: إن الشرک لظلم عظیم’’بے شک شرک ظلم عظیم ہے‘‘(لقمان: ۱۴)، یقیناً شرک بہت بڑاظلم ہے کہ ہمارے وجودکونیست سے ہست میں لانے والی، ہمیں مسلسل روزی دینے والی، جب ہم بیمارہوجائیں توشفادینے والی ذات توباری تعالیٰ ہے، بارش برسانے والی اوراولادعطاکرنے والی ذات تواللہ تعالیٰ کی ہے، پھرہم دوسرے کے لئے یہ خیال کریں کہ وہ بارش برساتاہے اوراولاددیتاہے، یقینایہ ایساظلم ہے، جو معاف کئے جانے کے لائق نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج جیسی مغفرت والی رات میں بھی اس کمے لئے معافی نہیں ہے: فیغفرلجمیع خلقہ؛ إلالمشرک’’تمام مخلوق کومعاف کردیاجائے گا، سوائے مشرک کے‘‘(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر: ۱۳۹۰)۔

        (۲)  بغض وعداوت رکھنے والا:  مغفرت سے محروم شخصوں میں سے دوسراشخص وہ ہے، جودشمنی رکھتاہے، دوسرے کے خلاف اپنے دل میں بغض ونفرت رکھتاہے، دشمنی ایک ایسی چیزہے، جودین توبربادکرتی ہی ہے، دنیامیں بھی چین کی سانس نہیں لینے دیتی، جب دوفریق ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوتے ہیں توگویاانسانیت کاہاراپنے گلے سے اتارپھینکتے ہیں، پھرجانی نقصان بھی ہوتا اورمالی خسارہ بھی سہناپڑتاہے اوردشمنی کانتیجہ ہمیشہ یہی برآمدہوتاہے۔

        دوسرے کے لئے اپنے دل میں ناحق بغض رکھنابھی ایک ناقابل معافی جرم ہے اورشب براء ت جیسی رات میں بھی ایسے شخص کے لئے معافی دروازہ نہیں کھلتا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ جب دوسروں کومعاف کریں گے، اس وقت اس کومعاف نہیں کریں گے: فیغفرلعبادہ؛ إلالإثنین: مشاحن…’’چنانچہ (اللہ تعالیٰ) اپنے بندوں کومعاف کردیں گے، سوائے دولوگوں کے، (ان میں سے ایک) دشمنی رکھنے والا (ہے)(مسنداحمد:۲؍۲۳۴، حدیث نمبر: ۶۶۳۹)۔

        (۳)  قاتل:  ناحق کسی کوجان سے ماردینے کوپوری انسانیت کے قتل کے مرادف قراردیاگیاہے: جس نے کسی انسان کوخون کے بدلہ کے بغیریازمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیاتوگویااس نے تمام انسانوں کوقتل کردیا(المائدۃ:۳۲)، اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص سے قصاص لینے کاحکم دیاہے(البقرۃ: ۱۷۸)، ناحق کسی قتل کرنابھی ان جرموں میں سے ہے، جس کے معافی نہیں : فیغفرلعبادہ؛ إلالإثنین: مشاحن وقاتل نفس’’ چنانچہ(اللہ تعالیٰ) اپنے بندوں کومعاف کردے گا، سوائے دولوگوں کے، ایک دشمنی رکھنے والا اوردوسرا(ناحق) کسی کوقتل کرنے والا‘‘(مسنداحمد:۲؍۲۳۴، حدیث نمبر: ۶۶۳۹)۔

        قتل نفس میں صرف دوسرے انسان کوقتل کرناہی مرادنہیں ؛ بل کہ خوداپنے آپ کوقتل کرنابھی شامل ہے، جسے خودکشی کہاجاتاہے، جس طرح دوسرے کوقتل کرناحرام ہے، اسی طرح اپنے آپ کومارنابھی حرام ہے۔

        (۴)  زناکار:  اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی بقاکاظاہری سبب مردوعورت کے شرعی طریقہ پراتصال کوقراردیاہے، شریعت کی اصطلاح میں اسی کو’’نکاح‘‘ کہتے ہیں، اس کے برخلاف شرعی طریقہ سے ہٹ کرمردوعورت اتصال کرتاہے تواسے’’سفاح‘‘ یعنی زناکہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے زناسے بہت سختی کے ساتھ منع کیاہے اوراسے براراستہ قراردیا

ہے، ارشادہے: اوربدکاری کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ بے حیائی اوربہت ہی بری راہ ہے‘‘(الإسراء: ۳۲)۔

        زناایک خلاف فطرت عمل اورایسی برائی ہے، جس سے پورامعاشرہ متاثرہوتاہے، طرح طرح کی موذی بیماریاں بھی اس سے پیداہوتی ہیں، آج مغرب زناکی کثرت کی وجہ سے جن بیماریوں میں مبتلاہے، کوئی بھی پڑھالکھا شخص اس سے ناواقف نہیں ہے اوریہ مغرب ہی پرمحدودنہیں ؛ بل کہ اب توپوری دنیااس کے لپیٹ میں میں آچکی ہے، یہ بھی انہی بڑے گناہ میں سے ہے، جس کی معافی آج کی رات میں بھی نہیں، جس میں مغفرت کادریاٹھاٹھیں ماررہاہے: فلایسأل أحد؛إلاأعطی؛ إلازانیۃ بفرجہا’’ (آج کی رات) ہرشخص کواس کی مانگی ہوئی چیز ملے گی، سوائے زانیہ کے(اسے نہیں ملے گی)(شعب الإیمان للبیہقی، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر: ۳۸۳۶)۔

        (۵)  رشتوں کوتوڑنے والا:  اللہ تعالیٰ نے پوری دنیاکے انسانوں کوایک ہی باپ اورماں سے پیداکیاہے، پھرخاندانوں اورقبیلوں میں تقسیم فرمادیا(الحجرات:۱۳)؛ تاکہ ایک دوسرے کوپہچان سکیں، رشتوں کاپاس ولحاظ کریں، ایک دوسرے کی خوشی اورغم میں شریک ہوں۔

        رشتہ داری نباہنابلاشبہ بڑاکٹھن کام ہے؛ لیکن برتنے والے کے لئے اسی قدرثواب بھی ہے؛ لیکن اگرکوئی شخص رشتوں کاخیال نہیں کرتااورصلہ رحمی کرنے کے بجائے قطع رحمی کرتاہے توایساشخص بڑاگناہ گارہے، ایساگناہ گارکہ مغفرت والی رات بھی اس کی معافی نہیں۔

        اب ہمیں غورکرناچاہئے کہ ہم رشتوں کاکتناخیال رکھتے ہیں ؟ کہیں ایساتونہیں کہ آج جیسی فضیلت والی رات میں بھی ہم مغفرت خداوندی سے محروم ہوجائیں ؟

        (۶)  ٹخنے سے نیچے ازارلٹکانے والا:  ٹخنے سے نیچے ازارلٹکانے والے کے لئے بڑی سخت وعید آئی ہے، آپﷺ نے ارشادفرمایا: ٹخنے کے نیچے جتنے حصہ میں ازار ہوگا، وہ حصہ جہنم میں جائے گا(بخاری، حدیث نمبر: ۵۷۸)، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین لوگوں کی طرف نظررحمت نہیں فرمائے گا، نہ ان کاتزکیہ کرے گا اوران کے لئے دردناک عذاب ہوگا، ایک احسان کرکے جتانے والا، دوسراٹخنے سے نیچے ازارلٹکانے والا اورتیسراجھوٹی قسمیں کھاکراپناسامان فروخت کرنے والا(ترمذی، حدیث نمبر:۱۲۱۱)۔

        غورکیجئے! ایک بڑی تعدادایسی ملے گی، جن کاازارٹخنے سے نیچے ہوتاہے؛ حالاں کہ علماء نے ٹخنے سے نیچے ازارلٹکانے کوحرام لکھاہے(عارضۃ الاحوذی: ۷؍۱۷۴)، نیز یہ بھی ان گناہوں میں سے ہے، جس کی معافی آج جیسی مغفرت والی رات میں بھی نہیں ہے۔

        (۷)  والدین کی نافرمانی کرنے والا:  اللہ تعالیٰ کے حق کے بعداگرانسان پرکسی کاحق ہے تووہ والدین کے حقوق ہیں کہ انہیں کے واسطہ سے اس کاوجودہواہے، قرآن مجیدمیں کئی جگہ والدین کے ایک احسان کوبتلاکران کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے(العنکبوت: ۸، الأحقاف: ۱۵)؛ حتی کہ اگروالدین شرک- جوسب سے بڑاگناہ ہے-  پرمجبورکریں توبات توان کی نہیں مانی جائے گی؛ لیکن حسن سلوک برابرکیاجاتارہے گا(لقمان:۱۵)۔

        ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلودہو، اس شخص کی ناک خاک آلودہو، اس شخص کی ناک خاک آلودہو، پوچھاگیا: کس کی اے اللہ کے رسول؟ جواب دیا: جس نے اپنے والدین یاان میں سے کسی ایک بوڑھاپے کی حالت میں پائے، پھرجنت میں داخل نہ ہو(مسلم، حدیث نمبر: ۶۵۱۰)، یعنی بوڑھاپے کی حالت میں بچوں کی سخت ضر ورت ہوتی ہے؛ بل کہ بچے والدین کے لئے بیساکھی کاکام دیتے ہیں ؛ لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیاکافی بدل چکی ہے، انسان اتنامصروف ہوگیاکہ والدین کی خیرخیریت بھی روز نہیں پوچھ سکتے اوراب تواولڈ ایج ہوم جگہ جگہ قائم کئے جارہے ہیں ؛ تاکہ بوڑھے جسم کے بوجھ کوبھی اپنے گھرمیں نہ رہنے دیں، غورکیجئے اورخودفیصلہ کیجئے کہ کیاہم ایسے ہیں کہ ہمیں معاف کردیاجائے؟؟

        (۸)  شراب کاعادی شخص:  شراب ایک ایسی چیز ہے، جس کے پینے سے انسان عقل وہوش کھوبیٹھتاہے، پھروہ کچھ کرتاہے، جس کاتصورہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے، ایسے واقعات بھی سامنے شراب کے نشہ میں بدمست ہوکرسب سے پاکیزہ رشتہ(ماں وبیٹی) کی بھی پامالی کی گئی ہے، ایک سروے کے مطابق جنسی جرائم کے ۷۰؍فیصد واقعات شراب کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور۹۰؍فیصد سڑک حادثات اسی وجہ سے رونماہوتے ہیں، شراب پینے کی عادت بہت ہی بری عادت ہے، اس سے مختلف قسم کے جسمانی نقصانات بھی ہوتے ہیں، اس کے ذریعہ سے جسم کاپورادفاعی نظام کمزور ہوجاتاہے، معدہ، گردے اوردماغ کی خلیوں میں سوجن پیداہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے خطرناک قسم کے امراض پیداہوجاتے ہیں، جگراس حدتک متاثرہوجاتاہے کہ اپناکام کرناہی بندکردیتاہے، جسے(Liver Cirrohsis)کہاجاتاہے اوریہ بہت ہی خطرناک ہوتاہے، اعصابی تناؤ اورجنسی کمزوریوں کاباعث بھی ہوتاہے،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قراردیاہے(المائدۃ: ۹۰)۔

        اوراللہ کے رسولﷺ نے انہی گناہوں میں شمارکیاہے، جن کی معافی آج جیسی رات میں بھی نہیں، ارشادہے: میرے جبرئیل علیہ السلام آئے اورفرمایا: آج کی رات شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بال کی تعدادمیں لوگوں کواللہ تعالیٰ جہنم سے آزادی دیں گے؛ لیکن شرک کرنے والے، بغض وعداوت رکھنے والے، قطع رحمی کرنے والے، ٹخنے سے نیچے ازارلٹکانے والے، والدین کی نافرمانی کرنے والے اورشراب کے عادی شخص کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں (شعب الإیمان للبیہقی، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر: ۳۸۳۷)۔

        ہمیں اپنے معاشرہ کاجائزہ لیناچاہئے کہ کتنے ناواقف بھائی اس بری عادت میں مبتلاہیں ؟ کچھ جانتے بوجھتے بھی برے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے اس لت میں پڑ گئے ہیں، ایسے بھائیوں کواس سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے پختہ عزم کرناہوگااورصدق دل سے توبہ کرکے آج کی رات  رب کائنات سے مغفرت طلب کرنی ہوگی، ایسا نہیں ہے کہ ان گناہوں کی وجہ سے توبہ کادروازہ بندہوگیاہے، وہ تو کھلاہواہے اورنرخرہ سے آواز نکلنے تک کھلاہی رہے گا، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجائیں اورآج کی رات سے بہتراس کے لئے اورکونسی رات ہوسکتی ہے؟ لہٰذا دیرکس بات کی؟ جوبڑھ کرخوداٹھالے ہاتھ میں مینااسی کاہے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں ان برائیوں سے حفاظت فرمائے، آمین یارب العالمین

تبصرے بند ہیں۔