نبی کے وارثوں کی تنقید وتضحیک کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں

سید فاروق احمد سید علی

محترم قارئین کرام

امید کہ مزاج گرامی بخیر ہونگے۔اور اللہ پر کامل یقین کے ساتھ زندگی گزارنے کی کوششوں میں لگے ہونگے کہ ہر اچھی اور بری تقدیر اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کے کئے ہوئے ہر فیصلے پر لبیک کہتے ہوئے زندگی کی ڈور کو آگے بڑھا رہے ہونگے۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ تمام کو خیروعافیت کے ساتھ رکھے اوراسلام کی سربلندی کے لئے آپ کو قبول فرمائے۔

بہر کیف!میں آج جس موضوع پر کاغذ کو سیاہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں اس کا تو میں لائق ہوں ہی نہیں لیکن پھر بھی ایک ادنی کوشش کررہا ہوں کہ میری اصلاح ہوجائے اور کچھ ذخیرہ آخرت ہوجائے۔

انسان اور دیگر مخلوقات میں فرق عمل اور علم کا ہی ہے کہ دیگر مخلوقات میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی معلومات اور علم میں اضافہ کریں ۔جبکہ انسان دیگر ذرائع کو استعمال کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے۔علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سیکھاتاہے،اللہ تعالی نے اپنے نبی پہ وحی کا آغاز بھی علم کی آیات سے کیا ،سورۃعلق نازل کرکے ،ایک علم والا اور جاہل انسان برابر نہیں ہو سکتے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالی(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب)باخبر ہے:اللہ تعالی علم والے بندوں کے درجات کو بلند فرماتا ہے اس کے راستے میں آنے والی مشکلات کو دور فرماتا ہے عالم کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عابد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پہ ایسے ہی ہے جیسے کہ میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر۔وہ لوگ جو دین کا علم حاصل کرکے خود بھی عمل کرتے اور دوسروں کو بھی ہدایت کی طرف بلاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ کے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے راوی ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ہیں :کی جس نے ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس پر چلنے والوں کے لیے ہے اور ان کے اجر میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا۔اس کو اتنا ہی گناہ ملے گاجتناکہ اس پر چلنے والوں کو ملے گا اور اسکے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔

اگرکوئی عالم دین کی قدر و منزلت کا اندازہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس بات سے کرے، کہ علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ ؓ بازار سے گزر رہے تھے لوگوں نے دیکھا کہ وہ تجارت میں مشغول ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ یہاں کاروبار میں مشغول ہو اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے لوگ فوراً مسجد کی طرف دوڑگئے، وہاں جاکر دیکھا کہ کچھ لوگ تلاوت میں مشغول ہیں ، کچھ حدیث پڑھ رہے ہیں ، کچھ دوسرے لوگ علمی مذاکرہ میں مصروف ہیں کچھ لوگ ذکر و اذکار اور تسبیح و مناجات میں لگے ہوئے ہیں ۔ آنے والوں نے یہ دیکھ کر ابوہریرہ سے کہا آپ نے تو فرمایا تھا کہ مسجد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم ہورہی ہے، اور یہاں تو کچھ ایسا نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا جن چیزوں میں یہ لوگ مشغول ہیں ، یہی چیزیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہیں ۔ یاد رکھو! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث دنیا نہیں ہے۔‘‘

یہ بات تو ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ عالم دین عابد سے افضل ہے لیکن مانتے بہت کم ہیں ،ایسا عالم دین جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہو، وہ عابد سے بہت زیادہ بلند مقام رکھتا ہے اس کے مقام و مرتبہ کے آگے راتوں کو جاگ کر اللہ اللہ کی ضربیں لگانے والے شب زندہ دار عابد کی کوئی حیثیت نہیں ، کیونکہ عالم دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے، بلکہ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچاکر جنت والے راستہ پر ڈال دیتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر بڑائی اور برتری حاصل ہوتی ہے، دوسری جگہ عالم کو عابد پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: عالم کو عابد پر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے کہ مجھ کو تم میں سے ادنیٰ شخص پر حاصل ہے، اس ارشاد سے یہ بات سمجھ میں آئی، کہ جب عالم کوعابد پر اتنی فضیلت ہے تو عام لوگوں پر عالم کو جو فضیلت ہوگی اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار بات ہے، لہٰذا عالم کے ساتھ بدکلامی کرنا اس کے بارے میں فاسد خیال رکھنا درحقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی توہین اور ان کے ارشاد کی پامالی ہے، عالم کو عابد پر اس قدر ترجیح دینے کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیاگیا کہ عالم کا فائدہ متعدّی ہوتا ہے جبکہ عابد کا فائدہ لازم ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کی بناء پر اس کی چال میں آنے سے خود بھی محفوظ رہتا ہے اورامت کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ جبکہ عابد شیطان کی چال میں الجھے رہنے کے باوجود اپنے آپ کو عبادت و ریاضت میں مشغول خیال کرتا ہے، اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا: ’ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے، لہٰذا عام لوگوں کو نیک عالم کا قرب اختیار کرنا چاہیے، تاکہ وہ عالم کی صحبت کی برکت سے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہیں ۔

عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو،دل جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہوں جبکہ درشت اور کھردری طبیعت اور چڑچڑے پن کا عالم بے فیض ہوکر رہ جاتا ہے، بے نیازی الگ چیز ہے، حسن اخلاق و نرم خوئی دوسری چیز ہے، دونوں میں کوئی تضاد نہیں ، لہٰذا دونوں خصلتوں کا کسی میں ہونا ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اس آیت سے ضمناً یہ بات معلوم ہوئی کہ عالم دین اگر اخلاقِ حسنہ سے متصف نہیں ہے تو لوگ اسکی سخت مزاجی اور خشونت سے تنگ آکر اس کے پاس آمد و رفت بند کردیں گے اور اس سے لوگوں کا فائدہ پہنچنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا : منافق میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں : اچھے اخلاق،دین میں سمجھ۔ منافق میں یہ دونوں خوبیاں ساتھ میں جمع نہیں ہوتیں ۔ لہٰذا ہر مسلمان کیلئے عموماً ان دونوں خصلتوں کا اپنے اندر جمع کرنا ضروری ہے اور عالم دین جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک صفت تفقہ فی الدین عطا فرمادی ہے اس کیلئے تو خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ دوسری صفت، یعنی اخلاق حسنہ کو بھی اپنے اندر جمع کرے تاکہ وہ سچا پکا مسلمان بن جائے اور منافق ہونے کے امکان سے نکل جائے۔

پچھلے کچھ سالوں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ کچھ نیم حکیم دین کا علم رکھنے والے جہلاء نے امت کو علماء سے توڑنے کا کام کیا ہے مطلب بظاہر توکچھ نہیں کہنا چاہتے لیکن سمجھ میں تو یہ آرہا ہے کہ انہیں علماء کی ضرورت نہیں ایسے میں میں ان تمام جہلائے کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا علماء کا قوم کے لئے ہونا ضروری ہے یا نہیں ، اگر نہیں ہے تو  مکمل طور پر انہیں علمائے کرام سے اجتناب کرنا پڑے گا۔اور جنہیں تھوڑی بہت معلومات اسلام کی ہے وہ نیم حکیم ہے ایسے لوگوں سے وقتی طور پرفائدہ تو ہوسکتا ہے مگر بقاء کسی شے کا ہمیشہ اس کے ماہرین سے ہوتا ہے جیسا کہ ہر شعبہ کا ایک ماہر ہوتا ہے ویسے ہی اسلام اور دین کے ماہرین علمائے کرام ہیں ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ماہرین کیسے پیدا ہوں ؟ اب یہ ماہرین کہاں سے آتے ہیں یہ سبھی کوپتا ہے۔

دنیاوی امن و سلامتی کے لئے بھی علماء کی جماعت کا ہونا ضروری ہے۔علماء کرام کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مناسب اوقات میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہا کریں لوگوں کو دینی باتیں بتائیں برائیوں سے اجتناب کرنے کا داعیہ پیدا کریں اور وعظ و نصیحت کرنے میں سامعین کی رعایت رکھیں ، طویل ترین اور بے مصرف کی بے تکی باتوں سے اجتناب کریں ، وعظ و نصیحت کا مقصد امت کو مستفید کرنا ہو اپنی لچھے دار تقریر کے ذریعہ لوگوں پر اپنے فضل و کمال کی دھاگ بٹھاکر دادِ تحسین حاصل کرنا مقصود نہ ہو،۔   جس شخص نے علم حاصل کیا لیکن اس کے مطابق عمل نہیں کیا تو ایسا عالم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت برا ہے اور یہ عالم جاہل سے بھی بدتر ہے اس کو جاہل سے زیادہ سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جاہل کے لئے ایک مرتبہ ’’ویل ہے‘‘ اور عالم کیلئے ۷ مرتبہ ’’ویل ہے‘‘ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بروں میں سب سے برے علماء  ہیں اور بھلوں میں سب سے بھلے علماء ہیں ۔ جس طرح اچھے علماء کی وجہ سے دوسرے بہت سے لوگ سدھرتے ہیں اسی طرح برے علماء کی وجہ سے بہت سے بگڑتے ہیں ۔ لہٰذا جو علماء لوگوں کے خراب ہونے کا سبب بنیں گے وہ مبغوض ترین لوگ ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہر صاحب علم کو اپنے علم پر عمل کرنے میں ذرّہ برابر غفلت نہ برتنا چاہئے۔ اور ہر کام تقوی کے مطابق کرنا چاہئے۔

یہاں پر میں معافی کے ساتھ تحریر کرونگا کہ کچھ غلطیاں ہمارے علماء کی بھی ہیں ۔علماء سوء اور علماء حق کی بحث میں ہم نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وعدے اور وعیدیں جو علماء کرام کے تعلق سے بیان کی گئی ہیں ان کی روشنی میں سچے اور جھوٹے علمائے کرام نہیں ہیں !؟۔خیر۔کچھ علمائے کرام ایسے بھی ہیں جو دوسرے علماء سے بغض رکھتے ہیں ۔زبردستی اپنی تعریف سننے کے مشتاق رہتے ہیں ۔جب کسی محفل مجلس یا پروگرام میں دو سے تین علمائے کرام پہنچ جائے اور اتفاقاً تینوں ہی کی وہاں تقریر ہو یا بیان ہوں تو ان میں سے ایک عالم دوسرے عالم کی بات نہیں سنے گا اور اپنے حوارین سے مسلسل بات چیت میں لگا ہوگایا پھر وہاں سے اٹھ کر چلا جائے گا۔سنی ان سنی کرے گا؟ایسا کیوں ؟اور پھر بعد میں حوارین اور لگی بجھی کرنے والوں سے یہ ضرور پوچھے گا کہ اس نے کیا بولا۔۔اور میں نے تو ایسا بولا۔۔اس کو تو دیکھنے کا تھا۔۔۔عوام کیا بول رہی تھی؟وغیرہ وغیرہ۔۔۔اور ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ علماء کے عمل کاتعلق اللہ او راسکے درمیان ہوتا ہے عام اورجہلاء کو اس پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ۔لیکن اگرعلمائے کرام ہی ایسے ہوں تو پھر جہلاء کو کچھ بولنا ہی بے کار ہے۔اور کچھ علمائے کرام کا تو کیا کہنا۔اللہ معاف کرے۔عالم نے اپنی بدنامی اور تحقیروتضحیک کا کام خود اپنے ہاتھوں سے ہی کیا ہے؟مالدار لوگوں کی چوکھٹ پر باربار جاکر ان کی پیشانی چومنا ان کے سامنے ان کی تعریف کرنا اور یوں عرض کرنا کہ صرف اللہ آپ ہی کو صاحب خیر بنایا اور آپ نے تو ایسا ایسا کیا ہے اور آپ ایسا ایسا کرسکتے ہیں ؟اور پھر اپنے مسئلے کا ذکر کرنا تاکہ وہ مالدار شخص جلد از جلد انکی جیب گرم کردے۔عالم کا کام ہے کہ وہ اپنی قدرومنزلت جانے۔ اس کا بیجا فائدہ نہ اٹھائیں ۔لوگوں میں مذاق کا موضوع نہ بنیں ۔اپنے سے پہلے علمائے کرام کی سوانح ان کی خدمات ان کا لوگوں سے تال میل کو پڑھیں اور اسے اپنی زندگی میں لانے کی فکر کریں ۔

میرا مقصد علمائے کرام کو وعظ ونصیحت کرنا نہیں ہے مگر کچھ علمائے کرام کی اس طرح کی حرکت سے تمام علمائے کرام کولوگ وہی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ لہذا میں تہہ دل سے تمام علمائے کرام سے معافی چاہتا ہوں ۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ علمائے کرام کی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت فرمائیں اور علماء کو امت سے جڑنے کا ذریعہ بنائے۔(آمین)بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔اللہ حافظ۔

تبصرے بند ہیں۔