کورونا کی ممکنہ تیسری لہر اور اس سے بچاؤ کی تدبیر

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری

            مولانا ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی (کامل الحدیث جامعہ نظامیہ) خلیفہ و جانشین دوم حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانیؒ (سابق سجادہ نشین درگاہ امام پورہ شریف حیدرآباد) نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ دنیا میں کئی وبائیں پھوٹیں ہیں جس کی وجہ سے انسان نے آفاتوں و بلائیات کا سامنا کیا، کئی مشاکل کا مقابلہ کیا لیکن کورونا وائرس ان تمام وبائوں سے مختلف ہے چونکہ اس موذی وبا نے پوری دنیا کا نظام معطل کرکے رکھ دیا ہے جس کی تاریخ انسانیت میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جب کورونا کی پہلی لہر چلی تو دنیا بشمول ترقی یافتہ ممالک کی معیشت تباہ ہوگئی، کروڑہا لوگ بیروزگاری کا شکار ہوگیے، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور پوری دنیا سائنس اور ٹکنالوجی میں عدیم النظیر کامیابی حاصل کرنے کے باوجود لاکھوں لوگوں کو لمقہ اجل بننے سے نہیں روک پائی۔

اس عظیم سانحہ سے دنیا ابھی پوری طرح ابھری نہ تھی کہ کورونا کی دوسری لہر شروع ہوگئی جو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی چونکہ اس میں جانی نقصان زیادہ ہوا ہے، یہی وہ خطرناک لہر ہے جس میں وطن عزیز ہندوستان نے آکسیجن اور وینٹیلیٹر کی کمی کے سبب کئی لوگوں کو لقمہ اجل بنتے ہوئے دیکھا ہے، نعشیں پانی میں تیرتی نظر آئیں، دفن کی ہوئی نعشوں کو کتوں کے نوچنے کا دلخراش منظر بھی سامنے آیا، ستم بالائے ستم اسی دوسری لہر میں دنیا بالخصوص ہندوستان کے لوگ کووڈ 19- سے جوج ہی رہے تھے کہ بلیک ، وہائٹ، یلو، بلو اور اورینج فنگس نے ان کی مشکلوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ واضح باد کہ مریض کو مذکورہ بالا فنگس سے صحت یاب ہونے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اعتراف کیا کہ زرد فنگس انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے خاتم پیغمبراںؐ نے ارشاد فرمایا جب بھی کسی قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اور لوگ اس کا ارتکاب اعلانیہ کرنے لگیں تو ان میںطاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے آباو اجداد کے زمانے میں نہ تھیں۔ کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے معاملے میں ہندوستان اب امریکہ اور برازیل کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ مزید برآں ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ دوسری لہر کا اختتام جولائی میں ہوگا اور اس کے 6 یا 8 ماہ بعد ہندوستان میں کورونا کی تیسری لہر آسکتی ہے اور یہ خدشہ بھی یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔اگر ایسا ہوا تو یہ بلاتفریق مذہب و ملت تمام انسانوں کے لیے انتہائی خوفناک صورتحال ہوگی۔ اسباب مال و دولت کی فراوانی کے باوجود آج کی ترقی یافتہ دنیا کوروناکی وبا سے پریشان ہے۔

 ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جدید و عصری طبی آلات استعمال کرنے کے باوجود اب تک اس وبا پر مکمل قابو پایا نہیں جاسکا۔  یہ خدا کی عظیم قدرت اور انسان کے مجبور محض ہونے کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا اور اس کے مطابق زندگی کا لائحہ عمل طے کرنا اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت کو ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کورونا وائرس اور اس کی مختلف لہریں درحقیقت ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔کورونا وائرس کے سبب لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔ ایسی خطرناک اور نازک صورتحال میں غضب الٰہی کو ٹھنڈا کرنے اور کورونا وائرس کی ممکنہ تیسری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان بالخصوص متمول حضرات حفظ ما تقدم کے تحت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ حسن نیت اور خلوص دل کے ساتھ صدقہ و خیرات کریں چونکہ صدقہ اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ یقیناً وہ شخص بھی اللہ تعالی کو بہت عزیز و محبوب ہوگا جو ہمیشہ صدقہ و خیرات کرتا ہوگا اور جو شخص اللہ تعالی کو عزیز و محبوب ہو وہ مہلک امراض کا شکار کیسے ہوسکتا ہے، اسے بری موت کیسے آسکتی ہے، اس کا وجود عبرت کا نشان کیسے بن سکتا ہے، بلکہ یہ وہ عظیم ہستی ہوتی ہے جس کی برکت سے اللہ تعالی دوسروں کو بھی مہلک امراض سے محفوظ فرماکر بری اموات سے بچالیتا ہے۔

صدقہ انسان کو مصائب، مشاکل اور عذابات الہیہ سے بچانے میں انتہائی موثر ہے اسی لیے بوقت نزاع موت کی چوکھٹ پر بھی انسان اس بات کا طالب و متمنی ہوگا کہ اے رب ذو الجلال مجھے کچھ مہلت دے دے تاکہ میں صدقہ و خیرات کرکے زمرہ صالحین میں شامل ہوجائوں اور جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوجائوں۔ بوقت نزاعانسان کی اس آرزو سے یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ صدقہ و خیرات آخرت میں انسان کی نجات کا نہ صرف اہم ذریعہ ہے بلکہ اس عمل سے انسان صالح بن بھی جاتا ہے اور تمام والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد صالح بن جائے لہٰذا تمام والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ہمیشہ صدقہ و خیرات کرنے کی تعلیم و تلقین کرتے رہیں تاکہ وہ صالح بن جائے اور دنیا و آخرت کی مصائب و آلام سے محفوظ و مامون ہوجائیں۔ موجودہ حالات میںمسلمانوں کا صدقہ و خیرات کثرت سے کرنا اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ کورونا کی وجہ سے کئی لوگ بیروزگار ہوگیے ہیں، کئی لوگ مالی مشکلات سامنا کر رہے ہیں، کئی لوگ اشیائے مایحتاج اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم ہیں ۔ جب ہم ایسے مجبور و نادار لوگوں پر (مالی امدادکے ذریعہ) رحم کریں گے تو اللہ تعالی ہم پر (کورونا کے خاتمہ کے ذریعہ) کرم فرمائے گا اس طرح پوری انسانیت کو کورونا کی وبا سے نجات مل جائے گی۔ اگر ہم مالی مشکلات سے دوچار لوگوں کی بروقت مدد و اعانت نہ کریں گے تو ممکن ہے کہ معاشرے میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوجائے۔

 مسلمانوں کے صدقہ و خیرات کرنے سے نہ صرف ضرورت مندوں کی مالی مشکلات کا ازالہ ہوگا بلکہ جرائم کی شرح میں کمی بھی واقف ہوگی۔ علاوہ ازیں اگر مسلمان اس نازک دور میں غیر مسلم حضرات کی مالی اعانت و مدد کریں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کے مومنانہ کردار اور ان کی انساینیت نواز خدمات سے متاثر ہوکر انہیں اپنا پیشوا بنالیں۔ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ صدقہ کی برکات سے انسان کو اس وقت بھی تائید غیبی سے فائدہ پہنچتا ہے جب وہ ظاہری اسباب سے بالکل محروم ہوجاتا ہے ۔ چونکہ کورونا کی وجہ سے حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جارہے ہیں ، حکومتیں ناکام ثابت ہورہی ہیں، ماہرین کی تدبیروں کا نتیجہ توقع کے خلاف ہے، ڈاکٹرز عوام الناس سے باربار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست و التجا کررہے ہیں، تو ایسے عالم میں لازم ہیں کہ ہم صدقہ و خیرات کثرت سے کریںچونکہ جب انسان مجبور و مفلوک الحال لوگوں کی صدقات و خیرات سے مالی اعانت و مدد کرتا ہے تو اس کی برکت سے اللہ تعالیآنے والی بلائیات کو ٹل دیتا ہے، رب کا غضب ٹھنڈا ہوجاتا ہے، مہلک وبائی امراض کا پھیلنا رک جاتا ہے اور انسان آگ سے جلنے، غرق ہونے اور بری موت مرنے سے بچ جاتا ہے۔

 لہٰذا ہمیں مسارعت اور جذبہ مسابقت کے ساتھ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ حقیقی مومن کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ وہ اس وقت صدقہ دیتا ہے جب اسے پیسہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے چونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ انفاق سے رزق میں برکتیں آتی ہیں۔ لیکن آج کا مسلمان چونکہ اس کی آنکھوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کبھی وہ مالی بحران کا شکار ہوتا ہے تو سب سے پہلے صدقہ و خیرات کرنا بند کردیتا ہے اسے چاہیے کہ صدقہ روکنے کے بجائے اپنی ضروریاتِ زندگی کے مصارف میں تخفیف کرے  ایسا کرنے سے وہ مالی بحران سے بھی نکل آئے گا اور آخرت میں بھی وہ سرخرو و کامیاب ہوگا۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کا مذہبی و اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ عیش و عشرت کی زندگی ترک کرکے پریشانیوں میں گھرے ہوئے لوگوں کا آسرا بننے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالی اپنے کرم سے پوری دنیا کو کورونا کی تیسری لہر سے محفوظ و مامون فرمادے ۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔