یوکرین کا عالمی بحران اورتنی ہوئی رسی پر قومی خارجہ پالیسی

ڈاکٹر سلیم خان

یوکرین کی جنگ  ایک ماہ طویل ہونے کے باوجود جاری ہے اور اس کے مستقبل قریب میں ختم ہونے کا امکان مفقود ہے۔ یہ  تنازع تیسری جنگ  عظیم بنے گا یا نہیں یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا مگر جوہری  اسلحہ کے استعمال کی  دھمکی  روس دے  چکا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے ایک ملاقات  میں روسی وزیر خارجہ  پیسکوف  نےکہہ دیا  کہ اگر ملک کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس بیان کو پینٹاگون نے  تلملا کر ‘غیر ذمہ دارانہ قرار’ دیتے   ہوئے کہا  کہ ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک کا یہ ذمہ دارانہ رویہ نہیں ہے۔ ویسے  امریکہ کی ساری دھونس دھمکی  فی الحال روس پر بے اثر ہوچکی ہے۔ اس تنازع کا سب سنگین پہلو یہ ہے کہ  عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق   دوسری جنگ عظیم کے بعد یوروپ میں  سب سے زیادہ لوگ اس کے سبب  نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد چالیس لاکھ سے لے کر ایک کروڈ تک بتائی جارہی ہے۔

  یوکرین  سے نقل مکانی کرنےکے خواہشمند لوگوں   تعداد ویسے تو  بہت زیادہ ہے  مگر  روسی حملے کے بعد یوکرین کی  حکومت نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر تے ہوئے   اٹھارہ تا ساٹھ برس کے عمر کے مردوں کا  ملک چھوڑناممنوع قرار دے دیا ہے تاکہ وہ لوگ  روس کے خلاف  جنگ  کرسکیں۔ اس کے باوجود چوری چھپے  کچھ مرد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح زبردستی کرکے روکے جانے والوں  کی مدد سے روس جیسے جارح  کو روکا جاسکتا ہے؟ افغانستان  میں سوویت یونین  اور امریکہ کے خلاف جو جہاد ہوا تھا اور جومزاحمت یوکرین میں ہورہی  ہے ان دونوں میں یہی شوق اور خوف کا فرق ہے۔ عوام کے اندر اگر ظالم سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہ ہو  تو اپنا پرایا کوئی کام نہیں آتا  لیکن جب وہ صبر استقامت کے ساتھ اپنی حریت کے تحفظ کی خاطر ڈٹ جاتے ہیں تو سپر پاورس کو ہتھیار ڈال کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ عراق اور ویتنام میں یہی ہوا تھا۔

سیاسی سفارتکاری سے قطع نظر روسی جارحیت نے ایک عالمی انسانی بحران پیدا کردیا ہے۔ اس بار چونکہ اس کا شکار سفید فام  نسل ہے اس  لیے ان کو کوئی دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنے زحمت نہیں کرتا۔عالمی رہنماوں سمیت  ساری دنیا  بھرکا ذرائع ابلاغ ان سے ہمدردی کا اظہار کررہاہے۔ ایسے میں مغرب کی ذہنی غلامی کا شکار ہندوستانی میڈیا بھی اپنی صحافیانہ ذمہ داری کو ایمانداری کرنے پر مجبور  ہے۔ اس بحران نےیوکرینی بچوں کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ روسی گولہ باری سے خوف و ہراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر وقت اپنے اہل خانہ کی فکر اور موت کا خوف انہیں پریشان کیے رکھتا ہے۔ کئی یوکرینی شہری اپنے بچوں کو مغربی ممالک روانہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  ہر دوسرا یوکرینی مہاجر ایک ایسا بچہ ہے جس کو اپنے باپ سے دور ہونا پڑرہا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسا جمہوری ملک جس کو اپنی روایات  پر فخر ہوا کرتا تھا قومی مفاد کی خاطر چپیّ سادھے ہوئے ہے۔ روس کی ناراضی سے بچنے کی خاطر اس کی مذمت سے گریز کررہا ہے اور ہر بار اقوام متحدہ میں غیر جانبدار بن جاتا ہے۔کیا  وشوگرو(عالمی رہنما) کا خواب دیکھنے والے  ملک کو  رویہ زیب دیتا ہے؟  اس سوال کا جواب حکمراں جماعت کے پاس نہیں ہے۔

یوکرین کے پڑوسی پولینڈ میں بڑے پیمانے پر مہاجرت ہورہی ہے۔ وہاں  کے سرحدی حفاظتی  عملے نے سوشل میڈیا پر  جاری کردہ اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے  کہ  جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک یوکرین کے 21 لاکھ 14 ہزار شہری پولینڈ میں داخل ہو چکے ہیں۔روسی حملوں سے جان بچا کر پولینڈ میں پناہ لینے والے ان مہاجرین کا ایک حصہ دیگر ممالک میں بھی جا چکا  ہے۔یہ وہی پولینڈ ہے جس نے شام تنازع کے بعد  بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا  کہ وہ ایک بھی مسلمان کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس متضاد رویہ یوروپی معاشرے کے چہرے سے رواداری کی نقاب نوچ کر پھینک دی ہے۔ اپنی فوجی جارحیت سے دنیا بھر میں قتل و غارگری مچاکر  بے قصور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والا امریکہ بھی کم ازکم  اس  وقت  یوکرین کی بھرپور مدد کررہا ہےکیونکہ بمباری سے  یوکرین کے اندر 65 لاکھ لوگ  بے گھر ہو گئے ہیں۔ امریکہ کی تنظیم ’سمیریٹنز پرس‘ نے پولینڈ کو 91,000 کلو گرام امدادی سامان بھی بھیجا ہے اور یوکرین سے باہر، مالدووا کے ایک بڑے سٹیڈیم میں ایک موبائل میڈیکل یونٹ قائم کیا ہے تاکہ    1,000 یوکرینی مہاجرین کے لیے طبی ضروریات مہیا  ہوسکیں۔

 امریکہ میں  یہودیوں کی تنظیم’امریکن جیوئش ڈسٹری بیوشن کمیٹی‘نے ہزاروں یہودی اور غیر یہودی پناہ گزینوں کو یوکرین سے نکال کر، ان کی نقل و حمل، خوراک، طبی دیکھ بھال اور پناہ گاہ کو محفوظ بنا نے کا کام کیا  ہے۔ زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف امریکہ کے کارکنان بھی  پولینڈ اور مالدووا کی سرحدوں پرکام کر رہے ہیں۔ یہ ٹیمیں ڈائپرز، بچوں کے کھانے کی اشیاء، خواتین کی حفظان صحت کا سامان اور عارضی غسل خانے بنانے کے سامان جیسی اہم امداد فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ ’کرسچئن چیریٹی کانوائے آف ہوپ‘ نامی تنظیم نے یوکرین کے قریب سات ممالک میں پناہ گزینوں کو خوراک، پانی، رہائش اور دیگر مدد فراہم کررہے ہیں۔  امریکی حکومت یوکرین کو سب سے زیادہ انسانی امداد فراہم کرتی ہے۔ انسانی ہمدردی میں ہونے والی یہ کوششیں یقیناً قابلِ ستائش ہیں  لیکن اس میں تفریق و امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ افغانستان یا عراق کے خلاف فوجی جارحیت سے متاثر ہونے والوں کی مدد کے لیے بھی اسی طرح سے لوگ آگے آتے لیکن اس  کو  دہشت گردی کے خاتمہ کی جدوجہد قرار دے کر لوگوں کو انسانی ہمدردی جتانے  سے روک دیا گیا۔

روسی یوکرینی تنازعے میں ہندوستان  پر مغرب کا دباؤ کافی زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے غیر جانبداری کا منافقانہ چولہ اوڑھ رکھا ہے تاہم مغرب کو اب بھی امید ہے کہ شاید وہ  اپنا موقف بدل لے۔ چند روز قبل ہی جاپانی وزیر اعظم نئی دہلی میں تھے اور اطلاعات کے مطابق ان کی یوکرین کے تنازعے سے متعلق وزیر اعظم مودی سے تفصیلی بات چيت ہوئی تھی۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم  اسکاٹ موریسن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین بھی ایک ورچوئل ملاقات میں تبادلہ خیال ہوا، جس میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تھا۔ ویسے آسٹریلیا نے بعد میں یہ مانا  کہ وہ اس بارے میں بھارت کی مجبوری سمجھتا ہے۔ مودی سرکار فی الحال خارجہ پالیسی کے معاملے میں تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے اورحریف  فریقوں کو خوش کرنے کے چکر میں دونوں کی ناراضی مول لے سکتی ہے۔ اس بابت چین  کا موقف واضح  ہے۔ وہاں کے نائب وزیر خارجہ لی یوچینگ نے روس پر پابندیاں کو  اشتعال انگیزی قرار دیتے  ہوئے کہا اس سے  مسائل  حل نہیں ہوں گے بلکہ یہ اقدام  عالمی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔

چین کے نائب وزیر خارجہ لی یوچینگ  نے روس پر مغربی پابندیوںکی جڑ میں  ‘سرد جنگ کی ذہنیت اور طاقت کی سیاست ‘کے کارفرما ہونے کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق   بڑے ملک  خاص طور پر جوہری طاقت سے مالا مال ملک کو حاشئے پر دھکیلنے کے سنگین نتائج  برآمد ہوں گے۔ وہ  روسی صدر ولادیمیر  پوتن کے نیٹو کو ختم کر دینے موقف کی تائید کرتے ہیں کیونکہ  نیٹو کی  مدد سے یوگوسلاویہ، عراق، شام اور افغانستان جیسے  ممالک میں فوجی جارحیت ہوئی ہے۔ چین کے نائب وزیر خارجہ نے یوکرین کے تنازع کو ناٹو کی مشرق کی جانب تباہ کن  پیش قدمی  قرار دیتے ہوئے یاد دلایا کہ دور دراز کے ممالک سنگین حالات میں کام نہیں آتے۔ ان کا اشارہ غالباً کوآڑ اتحاد  کی جانب تھا جس میں ہندوستان نے چین کے خلاف جاپان ، آسٹریلیا اور امریکہ سے دوستی کررکھی ہے۔ یوکرین پر حملے سے خوش ہوکر مقبوضہ کشمیر  پر چڑھائی کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو لی یو چنگ نے اپنی تقریر میں یہ پیغام دیا  ہے کہ ’دوسروں کا چراغ پھونکنے کی کوشش  کرنے والے اپنی داڑھی جلابیٹھتے ہیں۔

(۰۰۰۰۰۰۰جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔