احمد علی برقی اعظمی
آگھر مرے یا مجھ کو بُلا عید کا دن ہے
جو مجھ کو مِلا تجھ سے مِلا عید کا دن ہے
…
جو زلفِ معطر میں چھپا رکھی ہے اپنی
’’ خوشبو مری سانسوں میں بسا عید کا دن ہے‘‘
…
حق جو ہے مرا تجھ پہ اسے مانگ رہا ہوں
دے میری محبت کا صلہ عید کا دن ہے
…
گر شیشۂ دل ٹوٹ گیا پھر نہ مِلے گا
یوں خاک میں اس کو نہ مِلا عید کا دن ہے
…
جس طرح سے پہلے تھے اُسی طرح رہیں گے
آمِل کے یہ کرتے ہیں دُعا عید کا دن ہے
…
دل میرا ترے پاس ہے یا کھو دیا اُس کو
جو میں نے دیا تھا تجھے لا، عید کا دن ہے
…
برقی کا تھا جو فرض کیا اس نے ادا وہ
نظروں سے نہ یوں اُس کو گِرا عید کا دن ہے
تبصرے بند ہیں۔