افتخار راغبؔ
اے مرے افسردہ گھاؤ کیا ہوا
مسکراؤ مسکراؤ کیا ہوا
…
سب کی آنکھیں ہیں تمھاری ہی طرف
سنگ ہاتھوں میں اٹھاؤ کیا ہوا
…
مانتا ہوں عیب ہیں مجھ میں بہت
مجھ کو آئینہ دکھاؤ کیا ہوا
…
نصب آنکھیں ہر در و دیوار پر
اب کہاں ہو پارساؤ کیا ہوا
…
شاخ سے توڑا تھا کیا کہہ کر مجھے
اپنے جُوڑے میں سجاؤ کیا ہوا
…
اچھے دن کی آس تھی امّید سے
کیوں ہے خاموشی بتاؤ کیا ہوا
…
اک دیا راغبؔ ہے اور بے خوف ہے
سوچتی کیا ہو ہواؤ کیا ہوا
تبصرے بند ہیں۔