اے مرے افسردہ گھاؤ کیا ہوا

افتخار راغبؔ

اے مرے افسردہ گھاؤ کیا ہوا

مسکراؤ مسکراؤ کیا ہوا

سب کی آنکھیں ہیں تمھاری ہی طرف

سنگ ہاتھوں میں اٹھاؤ کیا ہوا

مانتا ہوں عیب ہیں مجھ میں بہت

مجھ کو آئینہ دکھاؤ کیا ہوا

نصب آنکھیں ہر در و دیوار پر

اب کہاں ہو پارساؤ کیا ہوا

شاخ سے توڑا تھا کیا کہہ کر مجھے

اپنے جُوڑے میں سجاؤ کیا ہوا

 اچھے دن کی آس تھی امّید سے

کیوں ہے خاموشی بتاؤ کیا ہوا

اک دیا راغبؔ ہے اور بے خوف ہے

سوچتی کیا ہو ہواؤ کیا ہوا

تبصرے بند ہیں۔