تعلیم اور نج کاری

پروفیسر انعام الرحمن ابواللیث

علامہ اقبال نے کہا تھا :

احساس عنایت کر آثار مصیبت کا 

امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے

بیسویں صدی میں سرابھارنے والی پالیسیاں  لبرالایزیشن۔ پرائیویٹائزیشن۔ گلوبلائزیشن(LPG ) جسے اکثر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک نے اپنے یہاں نافذ کر لیا ہے۔ جس سے کچھ اقتصادی فائدہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن تہذیبی غارت گری کی وہ منظم سازش ہے۔ جس سے واقف ہونا اور کرانا ہر ذی شعور کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ مسلمان جو کہ گلوبلائزیشن کا اصل ہدف ہیں ۔ انھیں اس کا ادراک ہو سکے کہ جس نام نہاد روشن خیالی اور وسعت پسندی کی رو میں بہہ کر اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کے معاملات انجام دیتے ہیں درحقیقت وہ گلوبلائزیشن کی راہ ہموار کرتے جس کے مذموم اثرات ان کی زندگی میں آنا نا گزیر ہے۔

اصل گفتگو پر آنے سے پہلے پرائیوٹایزیشن privatization یا نج کاری کو سمجھ لیا جاے۔

"حکومتی اداروں کا نجی سرمایہ داروں کے ہاتھ منتقلی کا نام نج کاری ہے "نج کاری کا براہ راست تعلق سرمایہ داری سے ہے۔ اسی لئے capitalist کیپٹلسٹ ملکوں میں اس کا راوج عام ہے۔ چونکہ اس طریقہ ہاے تجارت میں حکومتی افرادbeaurocrats، سرمایہ دار، اور عوام کا ایک تکون بنتا ہے۔ جس میں پہلے دو افراد تیسرے کا استحصال کرنے کے لیے سمجھوتہ کر لیتے ہیں ۔ سیاسی اغراض کے لئے سرمایہ داروں کا استعمال اور حکومتی مراعات حاصل کرنے کے لئے حکومتی افسران و عہدیداران کا استعمال وہ نتیجہ دیتے ہیں جسے صادق و مصدوق نے کاٹ کھانے والی حکومت سے تعبیر کیا تھا۔ پرائیوٹایزیشن اور سرمایہ داری یا تجارت کا مرکز ومنبع جو کہ کبھی بازار کی شکل میں ایک جگہ مقید تھا۔ ٹیکنالوجیکل وسعتTechnological upgradations یا online مارکیٹنگ کی وجہ سے اس قید سے آزاد ہو گیا۔ وہ جگہ جسے محمد عربی نے برائی سے تعبیر کی تھی آج وسیع تر ہوکر ہمارے گھروں میں گھس چکی ہے۔

سورہ بقرہ میں جہاں نفع اور سود کی حرمت کا ذکر ہے۔ وہاں شیطان کی ایک چال کا ذکر کیا گیا۔ جو کہ اصل میں ایک نفسیاتیpsychological حملہ ہے جو وہ انسان کے خلاف استعمال کرتاہے۔

قرآن کہتا ہے۔ الشیطن یعدکم الفقر و یامرکم بالفحشا ء شیطان انسان کو تنگ دستی کا ڈر دلاتا ہے اور فحش کاموں کی طرف بلاتا ہے۔

دنیا میں ہونے والی تجارت انشورنس، بینک، تعلیمی ادارے اصل میں اسی نفسیات کا استعمال کر کے لوگوں کے مال کو غلط طریقے سے کھاتے ہیں ۔ انسان کل کی امید پر آج بے دریگ خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ اسی لیے آج کی تجارت اور کامرس انسان کی اس امید کو جگا کر اپنا بزنس ڈیولپ develop کرتے ہیں ۔ یہ وہی سوچ mentality ہے جس کو قرآن نے کہا۔

واذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض قالوا انما نحن مصلحون۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر ابتری نہ پھیلاو تو کہتے ہیں ہم تو مصلح ہے۔ یعنی

خرد کا نام جنوں اور جنوں کا خرد 

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

تعلیم اور تعلم کے عمل کو روزگار یا bright future سے جوڑ دینا اصل میں وہ” امید "ہی ہے جو انسان کی کمزوری ہے۔ اور یہی انسانی کمزوری نے اس کو ایک بڑی انڈسٹری یا مافیا میں بدل دیا ہے۔ چونکہ ایک نفع بخش کاروبار ہونے کی وجہ سے وہ افراد جنھوں نے خود تو تعلیم مکمل نہ کر سکے لیکن بزنس mentality اور سیاسی افراد سے قربت ہونے کی وجہ سے دوسروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ ۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی اکثر کالج و اسکول کے نگراں سیاسی افراد رہے ہیں یا ان کے قرابت دار۔ جن کی زیر نگرانی وہ افراد کام کرتے ہیں جسے علم اور حکمت کی نعمت دی گئی۔ یعنی اصل میں یہ اس حدیث کا عملی نمونہ ہے جس میں رسول اکرم نے کہا تھا کہ جہلا علم والوں پر راج کریں گے۔

حکمت کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان جسے اللہ نے کشادگی عطا کی ہو اور وہ ایمانیات میں کمزور ہو وہ موت سے بہت ڈرتا ہے۔ جسے اللہ کے رسول نے وھن سے تعبیر کیا تھا۔ اس بیماری کی جو وجہ احادیث میں بتائی گئی ہیں اس سے کوئی انکار نہیں لیکن منطقی طور پر اگر غور کیا جاے تو ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ نرسری سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک نجی تعلیمی اداروں میں کئے جانے والا بے دریغ خرچ اصل میں بچے پر پریشر pressure بناتا ہے۔جسے وہ جلد از جلد وصول recover کرنا چاہتا ہے۔ اور یہی وھن کا موجب ہے۔ یہ تو اسلام کی وہ نعمت جس میں ہمارے رزق کو ایمان سے جوڑ دیا گیا ورنہ یہی پریشر pressure خود کشیوں کا موجب بنتا اور ہم غیر اقوام کے شانہ بشانہ نظر آتے۔

اس موضوع پر لکھنے کی  وجہ یہ ہیکہ مدھیہ پردیس کی شیوراج سرکار نے پہلے اور مرکز کی مودی سرکار نے سرکاری اسکولوں کو نجی ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ لیا ہے۔ سرکار کا ماننا ہے کہ اس سے تعلیمی معیار بلند ہو گا۔ حلانکہ دہلی میں ہی کیجری وال نے سرکاری اسکولوں کا جو نقشہ بدل دیا ہے وہ مرکز کے لئے ایک رول ماڈل ہو سکتا تھا۔ لیکن مرکز کی سرکار نے اس سے قطع نظر سرمایہ داروں کو ایک موقع Opportunity دے کر استحصال کا دروازہ کھولنا چاہتی ہے۔ اس کے سماج پر اور خاص طور سے مسلم تہذیب و ثقافت پر کیا اثر ہو گا ایک تجزیاتی مواد رکھنے کی کوشش کی جاے گی۔

کسی بھی قوم میں تعلیمی نظام یا تہذیبوں کی بنیاد میں اس قوم کے نظام تعلیم کی حیثیت بدن میں دوڑنے والے خون کے مانند ہوتی ہے۔ اس خون میں کسی بھی طرح کی آمیزش کا اثر اس قوم کے بقاء پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلامی تہذیب کی بات کریں تو ابتداء اسلام میں علم اور تعلیم ایک مقدس چیز تھی جس کی فراہمی کا کو ئی معاوضہ نہیں تھا۔ لیکن اسلام کی ترویج اور اشاعت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اس کا بوجھ مسلم ملوک کے کاندھوں پر آگیا۔ جس کے لئے زمینیں وقف کی گئیں جس پر کاشتکاری سے ہونے والی آمدنی سے تعلیمی اخراجات مکمل کئے جانے لگے۔ لیکن دنیا جیسے جیسے گلوبلائزیشن کی طرف جانے لگی ریاستوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً یہ شعبہ نج کاری کی جانب جانے لگا۔ نجکاری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہیکہ علم اس کے لئے کوئی مقدس چیز نہیں بلکہ ایک تجارت ہے۔ جس کی وجہ سے استاد اور شاگرد کا رشتہ customer اور service provider کے بندھن میں تبدیل ہو گیا۔

آج اگر ہم غور کریں نجکاری کے نتیجے میں مسلم سماج اور معاشرہ ایک طرح کی طبقاتی کشمکش کا شکار ہے۔ اور یہی طبقاتی کشمکش قوموں کے زوال میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر ہم دنیا کے مذاہب اور تہذیب کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ دنیا کے افق پر بہت سی تہذییں آئیں اور زوال کا شکار ہوئیں ۔ لیکن ہندوستانی تہذیب دنیا کے افق پر آکر دوسری قوموں کے قیادت وسیادت پر کبھی براجمان نہیں ہوئی شاید اس کی وجہ یہی طبقاتی کشمکش ہے جس سے ہندو سماج صدیوں سے جوجھ رہا ہے۔

گلوبلائزیشن یا  Americanization کے اس دور میں جب مغربی مستشرقین بھی clash of civilizationتہذیبوں کے ٹکراو کی اصطلاح استعمال کرتے نہیں تھکتے اور جس طریقے سے سرمایہ داروں کی مدد سے تہذیبی دہشت گردی کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اس طوفان بدتمیزی کے مقابل تعلیمی ادارے ہراول دستے کا رول ادا کرسکتے ہیں ۔ بشرطیکہ کہ وہ customer requirementسے پرےطلبا کی بنیاد میں اسلامی تعلیمات تہذیب وثقافت کو جاگزیں کر دیں تاکہ کل یہی بچہ عملی زندگی میں آکر مغربی تہذیب سے دو دو ہاتھ لے تو اس پر اس صناعی کے جھوٹے نگوں اشکار ہو جائیں اور وہ بھی طوفان مغرب کے تپھیڑے کھانے کے بعد مسلماں ہو جاے۔

مارکیٹنگ اور پراویٹایزیشن جس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسے سمجھ لیں ۔

Marketing is called as ” identification of needs and wants of consumer and fulfill their needs and wants profitably.

,صارف کی ضرورت اور خواہش کو جان کر اس کو نفع بخش طریقے سے مہیا کرنے کا نام مارکیٹنگ ہے۔

مغلوب قومیں ہمیشہ غالب اقوام کی تقلید کرتی ہیں کیونکہ نفسیاتی طور پر وہ ان میں ایک کمال کو مانتی ہے۔ اور جب یہی بات تعلیم اور تعلم کے میدان میں آجاے تو جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے مولانا یاسر ندیم نے اپنی کتاب گلوبلائزیشن اور اسلام میں اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

لسانی دہشت گردی کے سلسلے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بالفرض اگر مجلس میں کسی اہم موضوع پر بات ہو رہی ہو جس میں کوئی شخص علم و کمال کے اعلی مرتبے پر فائز ہو کر اپنی قومی زبان میں پُر مغز بات کرتا ہو تو اسے نظر انداز کر کے اس شخص کو فوقیت دی جاے گی جو صرف انگلش زبان جانتا ہو۔ جس کا راست اثر یہ ہوگا کہ علم کے دروازے پر اہل دانش کشکول لئے کھڑے ہونگے اور محل میں اس شخص کا راج ہو گا جو انگلش زبان میں بات کرنے کا اہل ہو۔

تعلیمی نج کاری کی بنیاد مادہ پرستی پرہے جس کا مطلب یہ ہیکہ کہ علم کے روحانی عنصر کو نظرانداز کر دینا ان کی مجبوری ہے۔ کسی بھی نجی تعلیمی ادارے کی کامیابی کا پیمانہ ہی یہ ہیکہ اس کے سابق طلبا ءalumini  تعلیم مکمل کرنے کے بعد کس عہدے پر براجمان ہیں ۔ کالجیس کے اشتہار میں placement کےدعوی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔ تعلیم کے اسی یک چشمی  نظریے پر اقبال نے ایک مدبرانہ تنقید کی۔ کہتے ہیں ۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو 

ہو جاے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر.

جو تعلیمی تیزاب مارکیٹنگ کی بنیادوں کا مرقع ہو اس سے کسی خیر کی امید فضول ہے۔ جیسا کہ مارکیٹنگ کی تعریف ہی صارف کی ضرورت اور خواہشات کو جان کر اپنے لائحہ عمل ترتیب دینے کا نام ہے مثال کے طور صارف کی سماجی ‘ ذاتی، تہذیبی، اور مذہبی عوامل کو سمجھ کر اپنے اشتہارات کے زریعے ان کے برتاو، اور طرز عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنا مارکیٹنگ کے اصولوں کی طرف پیش رفت ہے۔ وہ عوامل جو کہ نفسیاتی اور جذباتی ہوں اس کی نکاسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ نجی تعلیمی ادارے کس طرح مذہبی جذبات کی آڑ میں اللہ کی آیات کے ساتھ لیشترو بہ ثمنا قلیلا کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ کچھ ادارے یقینا حفظ قرآن اور اسلامیات کو لے کر بہتر نتائج بھی دئیے ہیں ۔ لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہیکہ مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی ملمع کاری کرنے والے اسکولوں اور اداروں کے متعلق اقبال گویا ہیں ۔

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد 

میری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد 

یہ مدرسہ، یہ جواں ، یہ سرور و رعنائی 

انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد 

تعلیمی نظام جو تہذیبوں کی بقاء کا ضامن ہے اسے اسلامی تہذیب کا فارس و افریقی ممالک کے تمدنی تصادم سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسلام کے عروج کے ساتھ جب مسلم امراء افریقی ممالک کی جانب پیش قدمی کی تو افریقی تہذیب بشمول زبان کے از خود درگور ہوگئیں ۔ کیونکہ اس کی بنا مضبوط ستونوں پر نہیں تھی۔ یہی وجہ ہیکہ آج بھی صومالیہ۔ لیبیا۔ یا افریقہ سے متصل ممالک کو اسلامی تہذیب اور زبان نے مکمل طور پر مسخر کرلیا۔ لیکن اس کےبرعکس فارس یا ایران کسری کا وجود ان کے اپنے تہذیبی ورثے کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے اسلام نے مذہبی طور پر تو کسری کو زیر نگیں کرلیا لیکن تہذیب اور زبان کے طور پر مسخر نہیں کر سکا۔ جس کی وجہ سے عربی تہذیب و زبان کا طوفان فارس کی سرحدوں سے ٹکرا کر رک سا گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران سے آگے ایشیائی ممالک پر اسلامی تہذیب کی شعائیں فارس سے منعکس ہو کر پڑیں نتیجتاً اصل اسلامی ثقافت میں فارسی کلچر و زبان کے ملاپ کا اثر ان ایشیائی ممالک میں محسوس کیا جاتا ہے۔

آج کے اس گلوبل ولیج میں جب کے سرحدوں کے معنی ہی بدل سے گئے ہیں مغربی تعلیمی نظام کے مدمقابل بقیہ تعلیمی نظام اور تہذیب اپنے بقا survival کی جنگ کر رہی ہیں ۔ آخر انگلش زبان اور کلچر کا حملہ اتنا شدید کیوں ہے ؟کیا واقعی یہ دہشت گردی ہے؟ کہ نا پختہ اذہان پر مسلط ہوکر انھیں ان کے اسلاف سے کاٹ کر اپنے پنجہ استبداد میں جکڑ لے۔

غلبہ مغرب کا دوسرا نام یورپ میں نشاۃ الثانیہ Renaissance کے طور سے بھی جانا جاتا ہے۔ جسے عرف عام میں پرنٹنگ پریس کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب نے اپنے اس ہتھیار کو آزمانے کی ہر وہ ممکنہ کوشش کی جو ذہنوں کو متاثر کرسکے۔ تہذیب و ثقافت کی جو تعریف Michael Bugnon Mordant مائیکل بگنن نے کی ہے اس سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔

” کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ ‘ مہارت ولیاقت، فنی ادبی اور علمی صلاحیتیں ، رسوم و رواج اور اس کے اقدار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں ، کھیل کود کے طریقے، محبت و مسرت خوشی و غم کا انداز، احساسات اور جذبات بھی ثقافت کا حصہ ہے۔ اگر ہم کسی قوم سے مطالبہ کریں کہ وہ ان تمام چیزوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے اندازو فکر، زبان و لباس کو تبدیل کردے تو ہم اس قوم کی ثقافت کو سلب کر رہے ہیں ۔ "

مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہمیں جدید تعلیمی نظام میں انگلش کی اہمیت، طلبہ کے نصاب میں یورپ کی تاریخ پر مشتمل ابواب، ڈارون کے ارتقاء سے شیکسپئر کے ڈرامےتک، خاص طور سے نجی اداروں میں طلبہ کے سوٹ بوٹ کے یونیفارم سے لے کر کرکٹ کی دیوانگی  پیدا کرنے کے لئے جس طرح سے پریس اور الیکڑانک میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے سب اسی غارتگری کی علامات ہیں ۔

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات۔

وہ تعلیمی مساوات جس کی عمارت جدید مغربی علوم پرہو، یا دنیا پر مسلط ہونے کیلئے جمہوری طرز حکومت اپنے اندر وہ اثر رکھتا ہے جس سے ذہین لوگوں پر احمقانہ تاثرات ڈالا جا سکے، جسے پروپیگنڈہ بھی کہتے ہیں ۔ آپ زرا تھوڑے دیر کیلئے غور کیجیے کہ اس پروپیگنڈہ کا اثر انگلش میڈیم کے طلبہ پر کیا ہوتاہوگا۔ جب بچہ جانی جانی یس پاپا، یا بابابلیک شپ گاتا ہے تو اپنے اطراف ایک انجانی سی دیوار بناتا ہے اور یہ دیوار اس دیوار سے کئی زیادہ خوبصورت ہے جس میں بچہ ابو کے ساتھ مسجد جانے کی ضد کرتا ہے۔

یہاں پر ایک بات واضح کردوں کہ ہم بذات خود انگلش زبان کے مخالف نہیں ۔ کیونکہ سورہ روم میں اللہ نے زبانوں کے اختلاف کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ لیکن ہم اس کے ضرور قائل ہیں کہ کسی بھی اجنبی زبان کو صحیح اور مناسب طریقے سے اسی وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ مادری زبان پر کامل مہارت حاصل ہو۔ اور یہی طریقہ رسول اکرم صلی الله عليه وسلم نے بھی اپنایا تھا۔ وہ صحابہ جو عربی زبان کی باریکیوں کو جانتے تھے انھیں یونانی اور دوسری زبانوں کو سیکھنے کا حکم دیا۔ اس کے برخلاف بچے کو ابتدا سےہی یا پرائمری اسکول سے ہی ایک اجنبی زبان میں طریقہ ہاے تعلیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی زبان تو کھوتا ہی ہے انگلش بھی صحیح سےنہیں سیکھ پاتا ہے اس کی مثل اس طرح ہے۔

یہ بتانِ عصر حاضر کے بنے ہیں مدرسے میں

نہ ادائے کافرانہ، نہ تراشِ آزرانہ۔

سوال یہ ہیکہ اس طوفانِ مغرب کا جو تعلیمی اور تہذیبی بنیادوں کو بہا لئے جا رہا ہے اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ اس کا جواب خود مغربی تہذیب اور ان کے تعلیمی نظام سے سے دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں  خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی صلی الله عليه وسلم۔

لیکن زمینی حقائق و موجودہ وسائل کو بروئے کار لا کر حکمتِ عملی ترتیب دینا زندہ قوموں کی علامت ہے۔ آج یہ سوال کیا جا سکتا ہیکہ مغربی تہذیب جو کہ یورپ کے ممالک کو متعارفrepresent کرتی ہے وہ کسطرح وجود میں آئی۔ وہ ممالک جنہوں نے دو عظیم جنگوں سے نبردآزماہونے کے باوجود  تعلیمی اور تہذیبی سطح پر اتنی آسانی سے دنیا پر کسطرح قابض ہوگئے ؟ اور کیا یورپ کے ہر ملک میں انگلش زبان ہی علم کے ارتکاز کا زریعہ ہے ؟پورے براعظم یورپ کا ادب، موسیقی، لیٹریچر اٹھا کر دیکھا جائے تو اس میں عیسائی تہذیب ہی وہ چیز ہے جو مشترک دکھائی دے گی۔مثلا شیکسپیئر کے ڈراموں کو دیکھا جاے تو اس میں ایک عیسائی گھر کا ماحول، کرسمس کا کلچر، عیسائی رسوم و عبادات کا ماحول دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ جب کوئی انگلش میں لکھے گئے لٹریچر کا فرانسیسی یا روسی زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ مذہب ہی وہ ایک مشترک قدر ہے جو ہزاروں  جنگوں اور خونریز لڑائیوں کے باوجود ان ممالک کو ایک دھاگے میں پروئے رکھا۔

مسلمان جو کہ یورپ کے ساحل پر آکر علم و عرفاں کے مال بردار جہاز کو لنگر کیا اور بعد میں یورپی اقوام کو اس سے آشنا کر کے تجاہل عارفانہ کا شکار ہوگئے۔ مسلمانوں نے جو اسلامی تہذیب کی بنیاد اسپین کے ساحل پر رکھی تھی وہ اسپین سے آگے کا سفر کیوں نہیں کر سکی ؟۔

اسوقت کی تاریخ دانوں نے ان دو تہذیبوں کے ٹکراو کو بہت ہی بہتر طریقے سے قلم بند کیا ہے۔ اسی میں سے اس اقتباس سے اس وقت کے حالات اور صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے۔

” صدیوں کی صلیبی جنگوں سے نبردآزما ہونے کے بعد، جب عیسائی مسلم ملوک کی طرف پیش قدمی کی تو انھیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کے علاقے تہذیب اور علم و ہنر کا سرچشمہ ہیں ۔ جسے دیکھ کر ان کے اندر ترجمے کی تحریک پیدا ہوئی۔ اسوقت یورپ کاکوئی گاوں ایسا نہیں تھا جہاں عربی زبان پڑھا ئی نہ جاتی ہو۔ یہ زبان صرف اس لئے پڑھائی جاتی تھی کہ عربی میں موجود علوم تک رسائی حاصل ہو۔ لیکن زریعئہ تعلیم ہمیشہ ان کی مقامی زبان ہوتی تھی۔ پورے یورپ میں سائنس، طب، جغرافیہ، اور دیگر علوم کے ترجمے ہوئے لیکن اسے براہ راست لوگوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔ بلکہ مصنفین نے اپنے ناموں سے کتابیں لکھیں جسے پورے یورپ کی اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایا جانے لگا۔ تراجم میں اس حد تک بددیانتی کی گئی کہ مسلم مصنفین کا نام تک بدل دیا گیا مثلا بو علی سینا کو        Ave sina کر دیا گیا تاکہ بچوں کو احساس تک نہ ہو کہ یہ مسلماں یا غیر یورپی لوگ ہیں ۔ ان سب سے بڑھ کر سب سے بڑا اہتما م یہ کیا گیا کہ بچوں تک ایسی کہانی کو پہنچنے ہی نہیں دیا گیا جس میں یورپ کے باہر کا ماحول ہو۔ گزشتہ کئی صدیوں تک مسلمانوں کی تہذیب، تمدن اور اخلاق تک سے یورپ مکمل نا آشنا تھا۔ آج پورے یورپ میں کوئی بھی الخوارزمی، ابن ہشیم، رومی، جابر بن حیان کو نہیں جانتا۔یہاں تک کہ اکبر جیسے جاہل آدمی کو اکبر اعظم مانتے ہیں لیکن کبھی بھی اسے اپنے نصاب تعلیم کا حصہ نہیں بننے دیا۔ اسطرح یہ مغربی تہذیب وجود میں آئی۔ چاہے اسے کتنا ہی سیکولر کہا جاے لیکن اپنی اصل میں یہ عیسائیت سے مرقع ایک معجون جسے آج ہر کس و ناکس اپنا کر اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ طاقتور ہو کر علم کے مدارج طئے کر رہے ہیں "۔

اب سوال باقی رہتا ہے کہ علم کا کارواں جسے پرکھنے کا معیار معجزات سے شروع ہوکر، ادب و منظوم نگاری سے ہوتا ہوا آج سائنس و ٹیکنالوجی پر آ کھڑا ہوا ہے وہ کس طرح نجکاری یا privatization کے سمندر میں جا گرا۔ علم جو کہ کبھی روح کی تسکین کا زریعہ سمجھی جاتی تھی۔ جسے اصل میں سنریھم آیتنا فی الآفاق و فی انفسھم ( دنیا و انفس میں ہم ضرور بہ ضرور اپنی نشانیاں بتائیں گے)  کے مقصد کے تحت سفر کرنا تھا۔ وہ مادیت کی طرف کیسے چلی گئی۔

اس کی بنا یورپ میں انڈسڑیل انقلاب industrial revolution یاایڈم اسمتھ کے فری ٹریڈ free trade  سے ہوتی ہے۔ جس نے اس دنیا کو ایک بازار کی شکل دے دی۔ اقبال نے کہا تھا۔

دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی در غم ایار ہو گا۔

فری ٹریڈ یا ملکوں کے لبرالایزیشن کی پالیسی کو نافذ کر لینا ہی privatization نج کاری کی وجہ بنی۔ لبرالایزیشن liberalization جس نے مارکیٹ میں کمپنیوں کے درمیان مقابلہ competition کی وجہ بنی وہیں اس نے کوالیٹی quality کی بنیاد پر مارکیٹ کو جیتنے کا ہنر متعارف کرایا۔ ظاہر سی بات ہے جن کے پاس سرمایہ کی زیادتی ہو یا جن ممالک کی بنیاد ہی سرمایہ داری capitalism پر ہو۔وہ مارکیٹ کو آسانی سے جیت سکتے ہیں ۔ نتیجتاً ملکی domestic کمپنیوں کواپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑی۔ اس مقابلے کا اثر اتنا شدید ہوا کہ بعض ممالک کو اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ آج کون نہیں جانتا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی East India company بھارت میں اپنی تجارت کو فروغ دینے ہی آئے تھی۔

کوالیٹی کی بنیاد پر مارکیٹ پر راج کرنے کے رجحان نے ایک عالمی ادارہ ISO کی بنیاد ڈالی جو دنیا میں اشیاء کے معیار کا تعین کر کے سرٹفکییٹ جاری کرے تاکہ صارف کا بھروسہ برقرار رہے۔ شروع میں ISO

International organization for standardization  صرف اشیاء product تک محدود تھا بعد میں یہ خدمات service میں بھی کام کرنے لگا۔ چونکہ تعلیمی میدان ایک خدمات کا شعبہ ہے۔ اور مارکیٹ کو جیتنے کی ہوس نے خدمات کے شعبے میں کام کرنے والوں کو کوالیٹی کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ حالانکہ کامرس کا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ چاہے وہ ISO ہو یا انڈیا کا BIS سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا سارا کام انٹرنیٹ یا online ہوگیا ہے۔ بس صرف  فیس ادا کر کے مطلوبہ سرٹیفکیٹ کو خریدا جا سکتا ہے۔ اور اب تو کالج کے NAAC سے Accreditation کا مرحلہ بھی onlineہو چکا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔