تلوار ڈاکٹر کفیل پر کیوں؟
حفیظ نعمانی
اپنے وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب ملک میں ایمرجنسی لگائی تھی تو تمام مخالف سیاسی پارٹیوں کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا اور اس کے عہدیداروں اور کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ ان میں کوئی مسلمانوں کی جماعت نہیں تھی۔ جنوبی ہند کے کیرالہ میں مسلم لیگ تھی مگر جنوبی ہند میں اندرا گاندھی کے خلاف کوئی تحریک نہیں تھی۔ شمالی ہند میں جمعیۃ علماء تھی وہ ہمیشہ سے کانگریس کے ساتھ رہی تھی۔ لے دے کر جماعت اسلامی تھی جس کا پاکستانی یونٹ تو سیاست میں حصہ لیتا تھا لیکن جماعت اسلامی ہند دور دور تک عملی سیاست میں نہیں تھی۔ 1964 ء میں وہ مسلم مجلس مشاورت میں ضرور نہ صرف شریک تھی بلکہ اس میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اسے سیاسی پارٹی ایک دن بھی نہیں کہا گیا اور اس میں اہم کردار ادا کرنے والے مولانا منظور نعمانی اور مولانا ابوالحسن علی تھے جو اپنی پوری زندگی میں کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں رہے۔ اس کے بعد بھی اندراجی نے جماعت اسلامی کو غیرقانونی قرار دے کر سب کو جیل میں ڈال دیا۔
اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے بھی شاید وہی سوچا ہے جو اندرا گاندھی نے سوچا ہوگا کہ انہوں نے جن پارٹیوں کو بند کیا ہے وہ سب ہندو ہیں ۔ ہندو یہ نہ سمجھ لیں کہ اندرا گاندھی ہندو دشمن ہوگئیں ؟ اس لئے ایک مسلم جماعت کو بھی لے لو۔ یہی وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے گورکھ پور میڈیکل کالج کے بارے میں شاید سوچا ہو کہ کیسے نہ کیسے تو ایک ایک مذہبی نیتا وزیر اعلیٰ بنا اس نے بھی 30 بچوں کے مرنے کی ذمہ داری آٹھ ہندوئوں پر ڈال دی ان میں کم از کم ایک مسلمان تو ہونا چاہئے۔ اور انہوں نے ڈاکٹر کفیل خاں کو جانچ کے دوران حقائق کو چھپاکر حلف نامہ داخل کرنے، این سی آئی کے ضوابط کے خلاف کام کرنے کے سبب ان کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کردی۔
اتفاق سے کل رات ہی سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا انگریزی اور اُردو میں ڈاکٹر کفیل خاں کا بیان ان کی زبانی سنا وہ کہہ رہے تھے کہ دوپہر سے میں نے ہر کسی کو صورت حال بتائی ڈی ایم، سی ایم او، میڈیکل سکریٹری سب کو بتایا کہ آکسیجن ختم ہونے والی ہے۔ کسی ایک نے بھی نہ خود زحمت کی نہ کسی کو بھیجا۔ میں نے اپنے دوستوں سے بھیک کی طرح سلنڈر مانگے بارڈر سیکورٹی فورس سے ٹرک مانگا جو انہوں نے بھیجا میں اس میں بھرکر سلنڈر لایا اور میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر دس بچوں کو بھی میں بچانے میں کامیاب ہوا تو ان کے ماں باپ زندگی بھر دعا دیں گے اور اگر میں اکیلے دم پر اتنے سلنڈر نہ لاتا تو مرنے والوں کی تعداد پچاس سے بھی زیادہ ہوتی۔ ڈاکٹر کفیل ایک مومن کی طرح کہہ رہے تھے کہ میں نے جو کیا اور جس لئے کیا وہ اوپر والا دیکھ رہا ہے۔
اور یہ تو 11 اگست کے سارے ہندی اخبار گواہی دیں گے کہ ڈاکٹر کفیل خاں نے کیا کیا؟ اور یہی چیز شاید وزیر اعلیٰ کو برداشت نہیں ہوئی کہ اتنے ہندوئوں کے ہوتے ہوئے ہر کوئی کفیل خاں کے گن گا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی اس میں سب اپنے نوکروں کو رکھا۔ تحقیقات اگر حقیقت جاننے کے لئے کرائی جاتی ہے تو اس سے کرائی جاتی ہے جو یہ نہ دیکھے کہ کوئی اس سے بڑا ہے اور وہ اسے نقصان پہونچا سکتا ہے؟
کانگریس حکومت کے زمانہ میں 1993 ء میں ممبئی میں دو ہزار سے زیادہ مسلمان قتل کردیئے گئے۔ کانگریس حکومت تھی انہوں نے جسٹس شاہ کو تحقیقات سپرد کردی انہوں نے ایک جج کی طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ وہ رپورٹ جب آئی تو حکومت بدل چکی تھی اور ان کی حکومت آئی تھی جنہوں نے یہ قتل کئے تھے تو سزا کسے ہوتی؟ اسی زمانہ میں بم دھماکے ہوئے جس میں صرف ڈھائی سو ہندو مرگئے۔ اس کی تحقیقات سی بی آئی کو دے دی جو اب 25 سال کے بعد بھی اس کی عدالت ابوسلیم اور ان کے 6 ساتھیوں کو سزا سنانے والی ہے اور سی بی آئی بلکہ پورے ملک کے ہندوئوں کے مطابق دھماکوں کا اصل ذمہ دار دائود ابراہیم پھر بھی باقی ہے۔ شاید ڈھائی سو کے قتل کے جرم میں ڈھائی ہزار کو جب تک سزا نہ دے دی جائے دل کو سکون نہ ملے گا اس لئے کہ سی بی آئی کے پاس طاقت ہے اور اس سے بڑا کوئی نہیں ہے۔
رہے دو ہزار سے زیادہ مسلمان تو ایک ریٹائرڈ جج چاہے جتنا گلا پھاڑے کسی کو حوالات میں بھی بند نہیں کراسکتا۔ وزیر اعلیٰ یوگی نے اگر سی بی آئی سے تحقیق کرائی ہوتی تو پہلے ان کو جیل بھیجا جاتا جنہوں نے آکسیجن کا بل 65 لاکھ روپئے آنے کے بعد اسے ادا نہیں کیا۔ پھر نوٹس آیا تب بھی ادا نہیں کیا پھر دھمکی آئی تب بھی ادا نہیں کیا۔ ان پر 30 بچوں کے قتل کا مقدمہ چلایا جاتا۔ ا نکے بعد ڈاکٹر کفیل خاں نے جس جس عہدیدار سے کہا کہ فوراً کچھ کیجئے ورنہ بچے مرنا شروع ہوجائیں گے اور انہوں نے سنی اَن سنی ایک کردی ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا جاتا اور ان کے بعد ان ڈاکٹروں اور میڈیکل کالج کے ذمہ داروں پر کیس چلتا جن کے کنٹرول میں میڈیکل کالج ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے پورے معاملے کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ یہ صحت کے محکمہ کا معاملہ تھا وزیر صحت کی طرف سے کارروائی ہونا چاہئے تھی۔ جس طرح اس حادثے کی رپورٹ حضرت گنج کوتوالی میں لکھی گئی اور کیس کو گورکھ پور ٹرانسفر کیا گیا اس کا کیا تک ہے؟ اور مسئلہ صرف آکسیجن اس وقت ہونے اور نہ ہونے کا مسئلہ ہے اسے تین برس کے اندر دوائوں اور آکسیجن کا اسپیشل آڈٹ کرانے میں الجھا دیا گیا تاکہ جو آڈٹ کرے وہ برسوں دوائوں کی خریداری ان کے اسٹاک اور ان کے خرچ میں الجھا رہے۔ اس سے صاف اندازہ ہورہا ہے کہ وزیر اعلیٰ نہیں چاہتے کہ حقیقت سامنے آئے اور 36 گھنٹے میں 33 بچوں کی درد ناک موت کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ کے اوپر آئے۔
شاید 12 اگست کی بات ہے کہ وزیر صحت نوویں درجہ کے بچوں کی طرح سبق سنا رہے تھے کہ 2013 ء میں کس اسپتال میں کتنے بچے مرے، ملائم سنگھ کے زمانہ میں کس اسپتال میں کتنے دنوں میں کتنے بچے مرے اور مایاوتی کے زمانہ میں کس اسپتال میں کس سال میں کتنے بچے مرے؟ سننے والوں کو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کرکٹ کھلاڑیوں کا اسکور بتا رہا ہے کہ کب کس نے کس ملک میں کتنے رن بنائے اور کب ہندوستانی کھلاڑیوں نے اسی ملک میں اسی فیلڈ پر کتنی سنچریاں بنائیں ۔ ایسی صفائی اس وقت دی جاتی ہے جب کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جائے اور گورکھ پور میں یہی ہوا ہے کہ بچوں کی موت سے ثابت ہوگیا کہ حاکم تو بن گئے مگر حکومت کرنا نہیں آتی۔

(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
تبصرے بند ہیں۔