رازداری کا حق (Right to Privacy ): اسلام کا امتیاز

محمد رضی الاسلام ندوی

ہندوستان کی سپریم کورٹ کے 9 ججوں کی ایک بنچ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں ‘حقِ رازداری’ کو ملکی آئین کی دفعہ 21 کے تحت بنیادی حق قرار دیا ہے _ انھوں نے کہا کہ حقِ رازداری کی حیثیت زندگی کے حق جیسی ہے ، جس کی ، آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت دی گئی ہے _ اس فیصلے کو عوام کے لیے بہت بڑی یافت قرار دیا جا رہا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس کا اثر زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر پڑے گا _

اسلام نے انسانوں کو جو بنیادی حقوق دیے ہیں ان میں سے ایک’رازداری کا حق’ بھی ہے _ اسلام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے کے نجی معاملات میں دخل اندازی کرے اور اس کی ٹوہ میں لگے _ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : وَلاَ تَجَسَّسُوا (الحجرات:12) "اور تجسّس نہ کرو _”

اسلام لوگوں کے تزکیہ نفس پر زور دیتا ہے ، تاکہ ان کے دل اس حد تک پاکیزہ ہوجائیں کہ وہ گناہ اور معصیت الہی کی طرف مائل نہ ہو سکیں _تربیت و تزکیہ کے بغیر اگر لوگوں کو برائیوں سے روکنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ انھیں چھپ کر کریں گے اور اگر ان کی خفیہ نگرانی کی جائے گی تو وہ ان کے ارتکاب کے دوسرے طریقے نکال لیں گے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں حکم رانوں کو متنبہ کیا ہے اور انہیں لوگوں پر بلا وجہ شک و شبہ کرنے اور ان کی جاسوسی کروانے سے روکا ہے _آپ کا ارشاد ہے : ” إِنَّ الْأَمِيرَ إِذَا ابْتَغَى الرِّيبَةَ فِي النَّاسِ أَفْسَدَهُمْ ". (ابوداؤد:4889)
"اگر حکم راں اپنی رعایا کے ساتھ شک و شبہ کا معاملہ کرے گا تو انہیں بگاڑ کر رکھ دے گا _”

اس چیز کا اس حد تک لحاظ رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے اور تاک جھانک کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے _ (النور :27)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں دروازے کے سوراخ سے جھانک رہا تھا _ اُس وقت آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی ، جس سے سر کھجلا رہے تھے _آپ نے اس شخص کو دیکھا تو فرمایا : "اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم دیکھ رہے ہو تو اِس سے تمھاری آنکھ پھوڑ دیتا _” پھر فرمایا :
” إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ ". (بخاری:6241، مسلم:2156)”اجازت لینے کا حکم اسی لیے تو دیا گیا ہے کہ قابلِ ستر چیزوں پر نگاہ نہ پڑے _”

اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مروی ہے _ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ راتوں میں گشت لگایا کرتے تھے _ ایک مرتبہ رات کے وقت آپ نے ایک شخص کی آواز سنی ، جو اپنے گھر میں گانا گا رہا تھا _ آپ کو شک گزرا ، چنانچہ دیوار پر چڑھ گئے _ دیکھا کہ وہاں شراب بھی موجود ہے اور ایک عورت بھی _ آپ نے پکار کر کہا : ” او دشمنِ خدا ! کیا تو نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا _” اس شخص نے جواب دیا :” اے امیر المومنین ! جلدی نہ کیجیے _اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں : (1) اللہ نے تجسّس سے منع کیا تھا ، آپ نے تجسّس کیا _ (2) اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ ، آپ دیوار پر چڑھ کر آئے _(3) اللہ نے حکم دیا تھا کہ دوسروں کے گھروں میں اجازت کے بغیر نہ جاؤ ، آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر میں آئے _” یہ سن کر حضرت عمر نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ، البتہ اس سے وعدہ لیا کہ آئندہ وہ بھلائی کی راہ اختیار کرے گا _”

اسلام کے مذکورہ بالا قوانین کی رو سے کسی حکومت کے لیے جاسوسی کا جال پھیلانے ، ایک ایک شہری کے پیچھے مخبر لگانے ، لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں آلاتِ جاسوسی نصب کرنے ، ٹیلیفون ٹیپ کرنے ، خطوط سنسر کرنے ، خلوت گاہوں کی تصویروں اتروانے اور اپنے مخالفین کو بلیک میل کرنے کی کسی صورت میں اجازت نہ ہوگی _ لیکن افسوس کہ جو ممالک اسلامی قوانین کا دم بھرتے ہیں وہاں بھی عوام کو رازداری کا حق حاصل نہیں ہے _

تبصرے بند ہیں۔