دُکھ سہیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں

حفیظ نعمانی

دہلی میں یہ بات عام تھی کہ مسز شیلا دکشت نے پندرہ برس مسلسل اس لئے حکومت کی کہ انہوں نے دلی والوں کو میٹرو کا تحفہ دیا تھا۔ لکھنؤ میں کامیابی کے اس فارمولے کو اگر یہ سن کر ہی اپنایا گیا تو یہ اس لئے غلط ہے کہ لکھنؤ کو دہلی بننے میں ابھی پچاس برس لگیں گے۔ جب کبھی دہلی جانا ہوا تو ہم جیسے لکھنؤ والے کو محسوس ہوا کہ ایک دن میں صرف ایک دوست سے ہی ملا جاسکتا ہے۔ دہلی میں کسی جگہ کے بارے میں یہ کہنا کہ چالیس کلومیٹر ہے ایسا ہی ہے جیسے لکھنؤ میں کوئی کہہ دے کہ دس منٹ کا راستہ ہے۔ دہلی میں ہمارے ایک بیٹے اور ایک بھتیجے کے مکان میں 50  کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اور دونوں کے مکان ریلوے اسٹیشن سے بھی اتنی ہی دور ہیں اور ایئرپورٹ 100  کلومیٹر ہے۔

لکھنؤ میں اموسی سے چار باغ آٹھ کلومیٹر ہے۔ میٹرو کے افتتاح کے بعد اس آٹھ کلومیٹر کو ایسے بتایا جارہا ہے جیسے 80  کلومیٹر ہے۔ اور اس ذراسی مسافت میں آٹھ اسٹیشن بنائے ہیں اور جب سے شہر میں اسے چلانے کی تیاری ہورہی ہے تو ہر سڑک آدھی ہوگئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اب برسوں میں یہی ہوگا کہ کبھی یہاں کی آدھی سڑک اور کبھی وہاں کی آدھی سڑک ہرے پردے میں رہے گی اور گذرنے والوں کو چیونٹی کی رفتار سے چلنا پڑے گا۔

اترپردیش کے گورنر کو تو یہ حق ہے کہ وہ ہری جھنڈی دکھاتے حالانکہ ایک ہری جھنڈی اکھلیش یادو اپنے زمانہ میں دکھا چکے ہیں اور ملائم سنگھ فیتہ کاٹ چکے ہیں اور میٹرو کو اموسی سے چار باغ لابھی چکے ہیں ۔ اس کے بعد اس کا اس طرح افتتاح جیسے نئے وزیر اعلیٰ آئے اور انہوں نے بازار سے میٹرو خریدی اور لاکر پٹری پر رکھ دی اور وزیر داخلہ کو بلاکر اس کا افتتاح کرادیا بچکانہ کھیل سے زیادہ شری راج ناتھ سنگھ کو کیوں نہیں لگا حیرت ہے؟

سابق وزیر اعلیٰ نے لکھنؤ آگرہ ایک سڑک بھی بنائی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے بیٹوں نے ٹرین سے دہلی جانا ہی چھوڑ دیا۔ اور جب دہلی گئے تو گھر سے نکلے اور اپنے بھائی کے دروازہ پر اُترکر فون کیا کہ ٹھیک چھ گھنٹے میں اپنے گھر سے گاڑی میں بیٹھے اور اپنے بھائی کے دروازہ پر کھڑے ہیں ۔ اور پورے چھ گھنٹے لگے ہیں ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ سڑک پر ابھی نہ کہیں روڈ ٹیکس وصول کرنے کا انتظام ہے اور آگرہ سے اٹاوہ تک نہ کہیں پیٹرول پمپ ہے نہ ڈھابے۔ راستہ میں کوئی کیوں رُکے؟

ہر حکومت کا یہی قاعدہ ہے کہ وہ کام شروع کراتی ہے اور اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ الیکشن سے پہلے منصوبہ پورا کرکے اس کے نام پر بھی ووٹ لے لیں ۔ ہر جگہ سوال ملک کی ترقی کا نہیں ووٹ کا ہے مایاوتی برسوں سے کہہ رہی ہیں کہ میٹرو کا 2008 ء میں میری حکومت نے خاکہ بنایا تھا۔ وہ اپنے خاکہ کو ہی میٹرو کے ذریعہ ووٹ پکڑنے کی مشین بنارہی ہیں ۔ اکھلیش یادو کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہیں  دعوت نامہ بھیجا گیا تھا لیکن وہ آئے نہیں ۔ ایک دعوت نامہ تو حج ہائوس میں عازمین حج کے پہلے قافلہ کو روانہ کرنے کے لئے اعظم خاں کو بھی بھیجا گیا تھا۔ اور تقریب کے دوران بار بار تذکرہ ہوا کہ ان کو آنا چاہئے تھا اور وہ نہیں آئے۔

اور وزیر اوقاف و حج زیادہ زور دے رہے تھے۔ اور یہ بھول گئے تھے کہ جب وزیر بننے کے بعد وہ حج ہائوس میں آئے اور ایک فوٹو اکھلیش یادو اور اعظم خاں کا کہیں لگا دیکھا تو آگ بگولہ ہوگئے اور معلوم کیا کہ اب کس کی سرکار ہے؟ جبکہ اسے خوبصورتی سے بھی اتروایا جاسکتا تھا ایسے ہی اگر اکھلیش یادو کو بلایا تھا تو مہمان خصوصی کے طور پر انہیں بلاتے اس لئے کہ پورا ملک جانتا ہے کہ میٹرو اکھلیش کا کارنامہ ہے۔ اور اس کو جلد چلانے کی جو تعریف ہورہی ہے اور اس میں کیڑے نہیں نکالے جارہے تو صرف اس وجہ سے کہ اکھلیش نے رات دن ایک کردیا تھا۔

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ لکھنؤ کے ممبر پارلیمنٹ ہیں لیکن تین برس میں ایک بار بھی ان کے منھ سے ہم نے میٹرو کا نام نہیں سنا اور آج جب دوسرے کی محنت سے وہ دوڑنے جارہی ہے تو وہ اسے اٹل جی کے نام کررہے ہیں ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکزی حکومت کا بھی اس میں کردار ہوتا ہے لیکن جس صوبہ کے جس شہر میں چلتی ہے اس کا منصوبہ وہ صوبہ ہی بناتا ہے۔ ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ لکھنؤ کو ابھی میٹرو کی ضرورت نہیں تھی سڑکوں کو چوڑا کرنے کی ضرورت تھی جو ممکن نہیں ہے تو فلائی اوور بنائے جاتے۔ زمین کی قیمت اب قابو سے باہر ہے۔ وہ قانون اپنی جگہ ہے کہ پرانی عمارت توڑکر جو نئی عمارت بنے وہ سڑک سے ایک میٹر جگہ چھوڑکر بنے۔ لیکن نیا قانون نہیں ، عمل یہ ہے کہ ایل ڈی اے کا انجینئر کہتا ہے کہ رات دن کام کرو پانچ ہزار روپئے روز ہمیں دے دو اور تھانے کا حق انہیں دے دو۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ کوئی ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑتا۔

میٹرو بنانے والوں نے بنا تو دی اور چلا بھی دی لیکن ابھی سے فکر ہونے لگی کہ خسارے میں نہ چلے۔ اموسی پر اترنے والے دو طرح کے مسافر ہوتے ہیں ایک وہ جو ملک کے اندر ہی کاروباری یا سرکاری ضرورت سے سفر کرتے ہیں ۔ ان کے لئے تو میٹرو رحمت ہوگی بشرطیکہ وہ اندرا نگر یو گومتی نگر جائیں اور ان کے لئے زحمت ہوگی جو دوسرے ملک سے لدے پھندے آتے ہیں ان کے ساتھ جو سامان اور جیسا سامان ہوتا ہے اس کے لئے اگر اپنی گاڑی نہیں ہے تو ٹیکسی ہی ایسی سواری ہے جس پر وہ سفر کریں گے۔ بہرحال لکھنؤ والوں کو مبارک ہو کہ نوابوں کے شہر میں بگھی اور ٹم ٹم اور پالکی کی جگہ اب میٹرو نے لے لی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔