جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور اعمال نامے کھولے جائیں گے

ترتیب: عبدالعزیز

 ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس مہینے کی حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیئے جائیں گے اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی ، اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے‘‘ (سورۃ التکویر:1-14)۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سورہ التکویر کی ابتدائی گیارہ آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’سورج کے بے نور کر دیئے جانے کیلئے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں ’تکویر‘ کے معنی لپیٹنے کے ہیں ۔ سر پر عمامہ باندھنے کیلئے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہوجائے گا۔

 یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اورمقام پر باندھ رکھا ہے، کھل جائے گی اورسب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ انکدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہوں گے بلکہ تاریک بھی ہوجائیں گے۔

دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہوجائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی ہیں اور جمے ہوئے ہیں ۔ پس جب وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہوکر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں ۔

 عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کیلئے یہ بہترین طرز بیان تھا۔ موجودہ زمانہ کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہل عرب کیلئے اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو، اس حالت میں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تاکہ وہ کھو نہ جائے، کوئی اسے چرا نہ لے یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہوجائے۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کو غافل ہوجانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں پر پڑے گی کہ انھیں اپنے اس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔

 دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کا موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت نہ سانپ ڈستا ہے نہ شیر پھاڑتا ہے۔

 اصل میں لفظ سُجِّرَتْ استعمال کیا گیا ہے جو تسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔ تسجیر عربی زبان میں تنور کے اندر آگ دہکانے کیلئے بولا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی، لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگوں کی نگاہ میں ہو تو اس میں کوئی چیز بھی قابل تعجب محسوس نہ ہوگی۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ہائیڈروجن، دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑکانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے اور ان دونوں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اس بات کیلئے بالکل کافی ہے کہ وہ پانی کی اس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہوکر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہوجائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔

  یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

 یعنی انسان از سر نو اسی طرح زندہ کئے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے۔

 اس آیت کے اندازِ بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضب ناکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کرکے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کر دیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیئے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کئے بغیر خود بخود اس کے فحویٰ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ درگور کرتے ہیں ، پھر بھی انھیں اصرار ہے کہ اپنی اسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہئے، اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا آخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہئے جب ان سے اس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں اس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی، نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں یہ ظلم عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہئے؟

عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہوگیا تھا۔ ایک معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعدمیں وہ حصول معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے مگر بیٹیوں کو اس لئے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انھیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انھیں بیاہ دینا ہوگا۔ دوسرے عام بدامنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لئے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مددگارہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لئے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں وہ کسی کام نہ آسکتی تھیں ۔ تیسرے عام بدامنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انھیں لے جاکر وہ یا تو لونڈیاں بناکر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے گڑھا کھود رکھا جاتا تھا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو با دلِ ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جاکر زندہ دفن کر دیتا۔ اس معاملہ میں شقاوت برتی جاتی تھی، اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ بیان کیا۔ سنن دارمی کے پہلے ہی باب میں یہ حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی: ’ہائے ابا، ہائے ابا‘۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیئے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا: اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپؐ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ نے اسے معاف کر دیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔

 یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہل عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو، وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پاک میں اس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے، بلکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی؟ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم کی قباحت کا احساس تھا۔ طبرانی کی روایت ہے کہ فرزْدَق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیہ المجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسولـؐ اللہ؛ میں نے جاہلیت کے زمانے میں کچھ اچھے اعمال بھی کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360 لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان بچانے کیلئے دو دو اونٹ فدیے میں دیئے۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں ! تیرے لئے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔

 درحقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادلِ ناخواستہ برداشت کیا جائے۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کی پرورش کرنا، انھیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انھیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں ،بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصور کو جس طرح بدلا ہے اس کا اندازہ آپؐ کے ان بہت سے ارشادات سے ہوسکتا ہے جو احادیث میں منقول ہیں ۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپؐ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں :

  ’’جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کیلئے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی‘‘ (بخاری و مسلم)۔

 ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرماکر حضورؐ نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا‘‘ (مسلم)۔

 ’’جس شخص نے تین بیٹیوں یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کیلئے جنت واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو۔ حضورؐ نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضورؐ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے‘‘ (شرح السنۃ)۔

’’جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کرکے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں وہ ان پر صبر اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کیلئے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی‘‘ (بخاری، ادب المفرد)۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن جُعْشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسولؐ اللہ! فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پاکر یا بیوہ ہوکر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کیلئے کمانے والا نہ ہو‘‘ (ابن ماجہ، بخاری فی الادب المفرد)۔

   یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطۂ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیضیاب ہوتی چلی گئیں ۔

 یعنی جو کچھ اب نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ سب عیاں ہوجائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل، گرد و غبار، چاند، سورج اور تارے، لیکن اس وقت خدا کی خدائی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پردہ ہوجائے گی۔

 یعنی میدانِ حشر میں جب لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہوگی اس وقت جہنم کی دہکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آرہی ہوگی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہوگی تاکہ بد بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہوکر کہاں جانے والے ہیں اور نیک بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والے ہیں ‘‘۔ (تفہیم القرآن)

تبصرے بند ہیں۔